Taddud-e-azwaaj ka jawaaz Quran se sabit aur uski mukhalifat be jaa hai, Syed Abul Aala Maududi, Al Falah Islamic Foundation, India

taddud-e-azwaaj-ka-jawaaz!تعددِ ازواج کا جواز قرآن سے ثابت اور اس کی مخالفت بے جا ہے

سید ابو الاعلیٰ مودودی

(سید ابو الاعلیٰ مودودی کی تفسیر ’تفہیم القرآن‘ جس کے متعدد مقامات سے اختلاف کی گنجائش ہے، البتہ موصوف نے اس میں’تعددِ ازواج‘ کے مسئلے کو پُر زور طریقے سے بیان کیا ہے، جوکہ واقعی درست اور قابلِ مطالعہ ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔ ندیم احمد انصاری)

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ، فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ، ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا۔ (النساء:3)

اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بےانصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو، لیکن اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا ان عورتوں کو زوجیّت میں لاؤ جو تمھارے قبضہ میں آئی ہیں ، بےانصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرینِ صواب ہے۔

اس کے تین مفہوم اہل تفسیر نے بیان کیے ہیں :

(۱) حضرت عائشہؓ اس کی تفسیر میں فرماتی ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں جو یتیم بچیاں لوگوں کی سرپرستی میں ہوتی تھیں ان کے مال اور ان کے حسن و جمال کی وجہ سے، یا اس خیال سے کہ ان کا کوئی سردھرا تو ہے نہیں، جس طرح ہم چاہیں گے دبا کر رکھیں گے، وہ ان کے ساتھ خود نکاح کرلیتے تھے اور پھر ان پر ظلم کیا کرتے تھے۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہ کرسکو گے تو دوسری عورتیں دنیا میں موجود ہیں، ان میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان کے ساتھ نکاح کرلو۔ اسی سورت میں انیسویں رکوع کی پہلی آیت اس تفسیر کی تائید کرتی ہے۔

(۲) ابن عباسؓ اور ان کے شاگرد عکرمہ اس کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ جاہلیت میں نکاح کی کوئی حد نہ تھی، ایک ایک شخص دس دس بیویاں کرلیتا تھا اور جب اس کثرتِ ازدواج سے مصارف بڑھ جاتے تھے تو مجبور ہو کر اپنے یتیم بھتیجوں، بھانجوں اور دوسرے بےبس عزیزوں کے حقوق پر دست درازی کرتا تھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے نکاح کے لیے چار کی حد مقرر کردی اور فرمایا کہ ظلم و بےانصافی سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ ایک سے لے کر چار تک اتنی بیویاں کرو جن کے ساتھ تم عدل پر قائم رہ سکو۔

(۳) سعید بن جبیر اور قتادہ اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ جہاں تک یتیموں کا معاملہ ہے اہلِ جاہلیت بھی ان کے ساتھ بےانصافی کرنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے لیکن عورتوں کے معاملے میں ان کے ذہن عدل و انصاف کے تصور سے خالی تھے۔ جتنی چاہتے تھے شادیاں کرلیتے تھے اور پھر ان کے ساتھ ظلم و جور سے پیش آتے تھے، اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ بےانصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو عورتوں کے ساتھ بھی بےانصافی کرنے سے ڈرو۔ اول تو چار سے زیادہ نکاح ہی نہ کرو اور اس چار کی حد میں بھی بس اتنی بیویاں رکھو جن کے ساتھ انصاف کرسکو۔ آیت کے الفاظ ان تینوں تفسیروں کے متحمل ہیں اور عجب نہیں کہ تینوں مفہوم مراد ہوں، نیز اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ ویسے انصاف نہیں کرسکتے تو ان عورتوں سے نکاح کرلو جن کے ساتھ یتیم بچے ہوں۔

اس بات پر فقہاے امت کا اجماع ہے کہ اس آیت کی رو سے تعددِ ازواج کو محدود کیا گیا ہے اور بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کو ممنوع کردیا گیا ہے۔ روایات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے، چناںچہ احادیث میں آیا ہے کہ طائف کا رئیس ’غیلا‘ جب اسلام لایا تو اس کی نو بیویاں تھیں۔حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ چار بیویاں رکھ لے اور باقی کو چھوڑ دے۔ اسی طرح ایک دوسرے شخص (نَوفَل بن معاویہ) کی پانچ بیویاں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ان میں سے ایک کو چھوڑ دے۔نیز یہ آیت تعدد ازواج کے جواز کو عدل کی شرط سے مشروط کرتی ہے، جو شخص عدل کی شرط پوری نہیں کرتا مگر ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کے جواز سے فایدہ اٹھاتا ہے، وہ اللہ کے ساتھ دغا بازی کرتا ہے۔ حکومتِ اسلامی کی عدالتوں کو حق حاصل ہے کہ جس بیوی یا جن بیویوں کے ساتھ وہ انصاف نہ کر رہا ہو ان کی داد رسی کریں۔

بعض لوگ اہلِ مغرب کی مسیحیت زدہ رائے سے مغلوب و مرعوب ہو کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن کا اصل مقصد تعددِ ازواج کے طریقے کو ( جو مغربی نقطۂ نظر سے فی الاصل برا طریقہ ہے) مٹا دینا تھا، مگر چوں کہ یہ طریقہ بہت زیادہ رواج پا چکا تھا اس لیے اس پر صرف پابندیاں عائد کر کے چھوڑ دیا گیا، لیکن اس قسم کی باتیں دراصل محض ذہنی غلامی کا نتیجہ ہیں۔ تعددِ ازواج کا فی نفسہٖ ایک برائی ہونا بجائے خود ناقابلِ تسلیم ہے، کیوں کہ بعض حالات میں یہ چیز ایک تمدنی اور اخلاقی ضرورت بن جاتی ہے، اگر اس کی اجازت نہ ہو تو پھر وہ لوگ جو ایک عورت پر قانع نہیں ہو سکتے، حصارِ نکاح سے باہر صنفی بد امنی پھیلانے لگتے ہیں، جس کے نقصانات تمدن و اخلاق کے لیے اس سے بہت زیادہ ہیں جو تعددِ ازواج سے پہنچ سکتے ہیں۔ اسی لیے قرآن نے ان لوگوں کو اس کی اجازت دی ہے، جو اس کی ضرورت محسوس کریں۔ تاہم جن لوگوں کے نزدیک تعدد ِازواج فی نفسہٖ ایک برائی ہے، ان کو یہ اختیار تو ضرور حاصل ہے کہ چاہیں تو قرآن کے بر خلاف اس کی مذمت کریں اور اسے موقوف کردینے کا مشورہ دیں، لیکن یہ حق انھیں نہیں پہنچتا کہ اپنی رائے کو خوا مخواہ قرآن کی طرف منسوب کریں، کیوں کہ قرآن نے صریح الفاظ میں اس کو جائز ٹھیرایا ہے اور اشارۃً و کنایۃً بھی اس کی مذمت میں کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کیا ہے جس سے معلوم ہو کہ فی الواقع وہ اس کو مسدود کرنا چاہتا تھا۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب ’سنت کی آئینی حیثیت ‘ ، ص:307-316)

مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْسےلونڈیاں مراد ہیں، یعنی وہ عورتیں جو جنگ میں گرفتار ہو کر آئیں اور حکومت کی طرف سے لوگوں میں تقسیم کردی جائیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ایک آزاد خاندانی بیوی کا بار بھی برداشت نہ کرسکو تو پھر لونڈی سے نکاح کرلو، جیسا کہ اسی سورت کے رکوع نمبر چار میں آیا ہے، یا یہ کہ اگر ایک سے زیادہ عورتوں کی تمھیں ضرورت ہو اور آزاد خاندانی بیویوں کے درمیان عدل رکھنا تمھارے لیے مشکل ہو تو لونڈیوں کی طرف رجوع کرو، کیوں کہ ان کی وجہ سے تم پر ذمّے داریوں کا بار نسبتًہ کم پڑے گا۔

(ماخوذ از تفہیم القرآن ترمیم)

[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here