تعددِ ازدواج: ایک مَرد کا ایک سے زائد بیوی رکھنا
الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا
(دورِ حاضر میں ایک طرف جہاں جنسی بے راہ روی عام ہے، وہیں اسلام کے قوانینِ نکاح و طلاق پر بے جا اعتراضات کا سلسلہ جاری ہے، جن اسلامی اصول و قوانین پر کج فہموں نے اکثر اعترضات کیے ہیں،من جملہ ان کے ’تعددِ ازدواج‘ کا مسئلہ بھی ہے۔ افسوس اس پر زیادہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ بلا رشتۂ نکاح کے حرام طریقے پر جنسی خواہشات کی تکمیل پر اس درجے نہیں تلملاتے جس درجے حکمت سے پُر اسلام کے اس حکم ’تعددِ ازدواج کی اجازت‘ پر تلملایا کرتے ہیں۔ اسی لیے درجِ ذیل تحریر میں چند ان مصالح و حِکم کا بیان کیا جا رہا ہے، جن کا مطالعہ اگر حق و صداقت کے ساتھ کیا جائے تو ضرور تمام شبہات کا ازالہ ہو جائے گا، ان شاءاللہ۔ ندیم احمد انصاری )
تاریخِ عالم کے مسلّمات میں سے ہے کہ اسلام سے پہلے تمام دنیا میں یہ رواج تھا کہ ایک شخص کئی کئی عورتوں کو اپنی زوجیت میں رکھتا تھا اور یہ دستور تمام دنیا میں رائج تھا، حتی کہ حضراتِ انبیاے کرام بھی اس دستو سے مستثنیٰ نہ تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیویاں تھیں، حضرت اسحاق علیہ السلام کے بھی متعدد بیویاں تھیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھی کئی بیویاں تھیں، حضرت سلیمان علیہ السلام کے بیسیوں بیویاں تھیں اور حضرت داؤد علیہ السلام کے سو بیویاں تھیں اور توریت و انجیل اور دیگر صحفِ انبیا میں حضراتِ انبیا کی متعدد ازواج کا ذکر ہے اور کہیں بھی تعدّدِ ازدواج کی ممانعت کا ادنیٰ اشارہ بھی نہیں پایا جاتا۔اسلام آیا اور اس نے تعددِ ازدواج کو جائز قرار دیا، مگر اس کی حد مقرر کر دی کہ چار سے تجاوز نہ کیا جائے، اس لیے کہ نکاح سے مقصود عفت اور تحصینِ فرج ہے یعنی پاک دامنی اور شرم گاہ کی زنا سے حفاظت مقصود ہے، چار عورتوں میں جب ہر تین شب کے بعد عورت کی طرف رجوع کرے گا تو اس کے حقوقِ زوجیت پر کوئی اثر نہ پڑے گا۔شریعتِ اسلامیہ نے غایت درجے اعتدال اور توسط کو ملحوظ رکھا، نہ تو جاہلیت کہ طرح غیر محدود کثرت کی اجازت دی کہ جس سے شہوت رانی کا دروازہ کھل جائے اور نہ اتنی تنگی کی کہ ایک سے زائد کی اجازت ہی نہ دی جائے، بلکہ بین بین حالت کو برقرار رکھا کہ چار تک اجازت دی تاکہ
(۱)نکاح کی غرض و غایت یعنی عفت اور حفاظتِ نظر اور تحصینِ فرج اور تناسل اور اولاد بہ سہولت حاصل ہو سکے اور زنا سے بالکلیہ محفوظ ہو جائے، اس لیے کہ قدرت نے بعض لوگوں کو ایسا قوی، تندرست، فارغ البال اور خوش حال بنایا ہے کہ ان کے لیے ایک عورت کافی نہیں ہو سکتی اور بہ وجہ قوت و توانائی اور پھر خوش حالی و تونگری کی وجہ سے چار بیویوں کے بلا تکلف حقوقِ زوجیت ادا کرنے پر قادر ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کو دوسرے نکاح سے روکنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان سے تقویٰ وپرہیز گاری اور پاک دامنی تو رخصت ہو جائے گی اور بد کاری میں مبتلا ہو جائیں گے بلکہ اگر ایسے قوی اور توانا جن کے پاس لاکھوں اور کروڑوں کی دولت موجود ہے، اگر وہ اپنے خاندان کے چار غریب عورتوں سے اس لیے نکاح کریں کہ ان کی تنگ دستی فراخی سے بدل جائے اور وہ غربت کے گھرانے سے نکل کر ایک راحت اور دولت کے گھرانے میں داخل ہوں اور حق تعالیٰ کی اس نعمت کا شکر کریں تو امید ہے کہ ایسا نکاح اسلامی نقطۂ نظر سے بلا شبہ عبادت اور عین عبادت ہوگا اور قومی نقطۂ نظر سے اعلیٰ ترین قومی ہم دردی کا ثبوت ہوگا۔
(۲)نیز عورت ہر وقت اس قابل نہیں رہتی کہ خاوند سے ہم بستر ہو سکے کیوں کہ اول تو لازمی طور پر ہر مہینے میں عورت پر پانچ چھ دن ایسے آتے ہیں یعنی ایامِ ماہ واری، جس میں مرد کو پرہیز کرنا لازمی ہوتا ہے، دوسرے یہ کہ ایامِ حمل میں عورت کو مرد کی صحبت سے اس لیے پرہیز ضروری ہوتا ہے کہ جنین کی صحت پر کوئی برا اثر نہ پڑے، تیسرے یہ کہ بسا اوقات ایک عورت امراض کی وجہ سے یا حمل اور توالد و تناسل کی تکلیف میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اس قابل نہیں رہتی کہ مرد اس سے منتفع ہو سکے تو ایسی صورت میں مرد کے زنا سے محفوظ رہنے کی عقلاً اس سے بہتر کوئی صورت نہیں کہ اس کو دوسرے نکاح کی اجازت دی جائے، ورنہ مرد اپنی خواہش کے پورا کرنے کے لیے ناجائز ذرائع استعمال کریں گے۔
(۳)نیز بسا اوقات عورت امراض کی وجہ سے یا عقیم (بانجھ) ہونے کی وجہ سے توالد و تناسل کے قابل نہیں رہتی اور مرد کو بقاے نسل کی طرف فطری رغبت ہے، ایسی صورت میں عورت کو بے وجہ طلاق دے کر علاحدہ کر دینا یا اس پر کوئی الزام لگا کر اس کو طلاق دے دینا (جیسا کہ دن رات یورپ وغیرہ میں ہوتا رہتا ہے) بہتر ہے یا یہ صورت بہتر ہے کہ اس کی زوجیت اور حقوقِ زوجیت کو باقی اور محفوظ رکھ کر شوہر کو دوسرے نکاح کی اجازت دے دی جائے۔
(۴)نیز تجربے اور مشاہدے سے اور مردم شماری کے نقشوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کی تعداد قدرتاً اور عادۃً ہمیشہ مَردوں سے زیادہ رہتی ہے، جو کہ قدرتی طور پر تعددِ ازدواج کی ایک بین دلیل ہے۔ مرد بہ نسبت عورتوں کے پیدا کم ہوتے ہیں اور مرتے زیادہ ہیں۔ لاکھوں مرد لڑائیوں میں مارے جاتے ہیں اور ہزاروں مرد جہازوں میں ڈوب کر مر جاتے ہیں اور ہزاروں مرد کانوں میں دب کر تعمیرات میں بلندیوں سے گر کر مر جاتے ہیں اور عورتیں پیدا زیادہ ہوتی ہیں اور مرتی کم ہیں، پس اگر ایک مرد کو کئی شادیوں کی اجازت نہ دی جائے تو یہ فاضل عورتیں بالکل معطل اور بے کار رہیں، کون ان کی معاش کا کفیل اور ذمّے دار بنے اور کس طرح یہ عورتیں اپنی فطری خواہش کو دبائیں اور اپنے کو زنا سے محفوظ رکھیں۔ بس تعددِ ازدواج کا حکم بے کس عورتوں کا سہارا ہے اور ان کی عصمت و ناموس کی حفاظ کا واحد ذریعہ ہے اور ان کی جان اور آبرو کا نگہبان و پاسبان ہے۔ عورتوں پر اسلام کے اس احسان کا شکر واجب ہے کہ تکلیف سے بچایا، راحت پہنچائی و ٹھکانہ دیا اور لوگوں کی تہمت وبدگمانی سے محفوظ کر دیا۔
(۵)تعددِ ازدواج کے جواز اور استحسان کا اصل سبب یہ ہے کہ تعددِ ازدواج عفت اور پاک دامنی اور تقویٰ اور پرہیز گاری جیسی عظیم نعمت اور صفت کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ جو لوگ تعددِ ازدواج کے مخالف ہیں، وہ اندرونی خواہشوں اور بیروینی افعال کا مطالعہ کریں، جو قومیں زبان سے پاک تعددِ ازدواج کے منکر ہیں، وہ عملی طور پر ناپاک تعددِ ازدواج یعنی زنا اور بدکاری میں مبتلا اور گرفتار ہیں۔ ان کی خواہشوں کی وسعت اور دست درازی نے یہ ثابت کر دیا کہ فطرت میں تعدد اور تنوّع کی آرزو موجود ہے، ورنہ ایک عورت پر قناعت کرتے، پس خداوندِ علیم و حکیم نے اپنے قانون میں انسانوں کی وسیع خواہشوں اور اندرونی میلانوں کی رعایت فرما کر ایسا قانون تجویز فرمایا کہ جو مختلف جذبات والی طبائع کو بھی عفت اور تقویٰ اور طہارت کے دائرے میں محدود رکھے۔
افسوس! صد ہزار افسوس کہ اہلِ مغرب وغیرہ اسلام کے اس جائز اور سراپا مصلحت آمیز تعددِ ازدواج پر تو عیش پسندی کا الزام لگائیں اور غیر محدود و ناجائز تعلقات اور بلا نکاح کی لا تعداد آشنائی کو تہذیب اور تمدن سمجھیں۔ زنا جو کہ تمام انبیا و مرسلین کی شریعتوں میں حرام اور تمام حکما کی حکمتوں میں قبیح اور شرم ناک فعل رہا، مغرب کے مدعیانِ تہذیب کو اس کا قبح نظر نہیں آتا اورتعددِ ازدواج کہ جو تمام انبیا و مرسلین اور تمام حکما اور عُقلا کے نزدیک جائز اور مستحسن رہا، وہ ان کو قبیح نظر آتا ہے۔ ان مہذب قوموں کے نزدیک تعددِ ازدواج تو جرم ہے اور زنا اور بدکاری اور غیرعورتوں سے آشنائی جرم نہیں، ان مہذب قوموں میں تعددِ ازدواج کی ممانعت کا قانون موجود ہے مگر زنا کی ممانعت کا کوئی قانون نہیں۔یا للعجب!
(ماخوذ از سیرۃ المصطفیٰ: 3/350-360ملخصاً)