تقلید کی ضرورت، اہمیت اور حقیقت
حضرت مفتی احمد خانپوری صاحب
قسط (3)
مثال سے تقلیدکی ضرورت کااثبات
آج کل جہاںاسلاف کے کارناموں پر کیچڑا چھالنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس میں ایک بہت بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ حضرات ائمۂ اربعہ (امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمدبن حنبل ؒ)کوبھی نہیںچھوڑاجاتا،حالانکہ انہوں نے بڑی مشقت اٹھا کر احکام کو حدیث و قرآن سے واضح کیاہے،ہر ایک کا اپنا اپناطریقہ اوراندازتھا جس کوکچھ فرق کے ساتھ ترتیب دیاگیا،جولوگ مطالعہ کرتے ہیںوہ سمجھ سکتے ہیں، مَیں آپ کوایک مثال سے سمجھاؤں۔
ہماراملکی قانون اوردستورپوراموجودہے اور تمام اصول باقاعدہ ترتیب دیے گئے ہیں دستورکی کسی دفعہ کی تشریح اوراس قانون کی وضاحت کرنے کاحق مجھے اورآپ کو نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے مستقل ایک جماعت ہے جس کو وکلاء کہاجاتاہے اور ان کے اوپر جج ہوتے ہیں اور پھر ججوں کے بھی الگ الگ درجے ہوتے ہیںجیسے کہاجاتاہے کہ گجرات ہائی کورٹ کا ایک اہم ریفرنس آیاہے،کوئی اہم اور خاص فیصلہ اورججمنٹ آیاہے۔مطلب یہ ہوا کہ ملک کے دستورمیںیہ چیزذرامبہم تھی اور ہر مبہم چیزکی وضاحت کرنی پڑتی ہے،جب کورٹ کے اندرکوئی کیس جاتا ہے اورکیس چلتا ہے تودونوںطرف سے دلائل چلتے ہیںاور دونوں کے دلائل سننے کے بعدجج اپنے فیصلے کے اندرایک بات طے کرتاہے،ایسے فیصلے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیںاورآئندہ جاکروہ بھی قانون کاایک جزوبن جاتے ہیں،قانون کے ماہرین اس چیز کو سمجھیںگے،پھر آئندہ جب دوسرے کیس لڑے جاتے ہیں تووکیل اسی فیصلہ کودلیل کے طورپرپیش کرتے ہیںکہ فلاںسن میں فلاںہائی کورٹ یاسپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا تھا اوراس کایہ مطلب بیان کیاتھا لہٰذااب یہی مطلب ماننا پڑے گا ۔
خیر!مَیںیہ سمجھارہاتھاکہ انسانوںکے بنائے ہوئے قانون کے اندرجب اتنے مختلف پہلو اورمطلب نکل سکتے تھے اوران میںسے کون سا مطلب قابلِ قبول اورکون سامطلب قابلِ رد ہے، اس کافیصلہ ہرآدمی کے ہاتھ میں نہیں دیاگیا،بلکہ اس کے لیے مخصوص ادارے قائم کئے گئے اوران اداروںمیںجوشخص تیارہو،اسی کویہ حق دیاگیاکہ وہ اس میںکوئی کلام کرے۔اب وہاں مَیںاورآپ یہ نہیںکہتے کہ کیاہم انسان نہیں؟ہم یہاں کے شہری نہیں؟ کیاہم پریہ قانون اور دستور لاگو نہیں پڑتا؟ کیاہمیںیہ حق نہیںہے کہ ہم اس کی تشریح کریں؟ وہاںکسی کی ہمت نہیںہوتی،بڑے بڑے دانشور بھی وہاںخاموش رہتے ہیںاور کہتے ہیںکہ بھائی! یہاںتوجج صاحب ہی بول سکتے ہیں،سب بھیگی بلّی کی طرح باتیں کرتے ہیں۔ اور جب قرآن وحدیث کی بات آتی ہے توہرایک کی زبان کھل جاتی ہے،حالانکہ قرآن وحدیث سے مسائل کونکالنے کے لیے کن کن علوم وفنون سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے وہ کتابوں میں تفصیل سے بتلایا گیاہے، اس سے ان کوکوئی واسطہ نہیںہوتا؛پھربھی کہتے پھرتے ہیںکہ کیاہمیںیہ حق نہیںپہنچتاکہ ہم اس بارے میںکچھ کہیں؟
خیر!مَیں یہ عرض کررہا تھا کہ حضراتِ ائمۂ کرام کا ہم سب پربڑااحسان ہے کہ انہوں نے ہمیںزندگی کے تمام مسائل کو الگ الگ کرکے بتلادیا،اگرصرف نمازہی ہمارے حوالہ کی جاتی کہ اپنے طورپرسمجھ کرنمازپڑھو،توپتہ نہیںہم نمازکی کتنی مٹی پلیدکرتے۔
تقلید کی حقیقت کیاہے ؟
اِس زمانہ میںچندلوگ آئے جویہ کہتے ہیںکہ ائمۂ کرام کی تقلیدتوبڑاظلم ہے۔ تقلیدکی حقیقت کیاہے؟ تقلیدکامطلب صرف اتناہی ہے جیسے جج کے فیصلہ کوبنیادی حیثیت دی جاتی ہے اوراس کی قانونی مہارت کی وجہ سے اس کو تسلیم جاتاہے، وہاںکوئی نہیںکہتا کہ یہ تقلیدہے اسی طرح یہاں پربھی ہم نے ان حضراتِ فقہاء کی مہارت پر اعتماد کیا۔
ایک شکل تویہ تھی کہ قرآن وحدیث میںہم براہِ راست غورکرتے اور نماز کا طریقہ نکالتے ، اوراس کے مطابق نمازپڑھتے۔ اور ایک شکل یہ ہے کہ جو حضرات اس کے ماہرین تھے اورپھرتقویٰ و طہارت،اﷲتعالیٰ کی ذات کے ساتھ تعلق کی مضبوطی میںآگے بڑھے ہوئے تھے،ایسے لوگ جن کوہرچیزمیںخوف ِخدا دامن گیر تھا،انہوں نے قرآن و حدیث میں غوروفکرکرکے جس بات کوقانونی حیثیت دی،اب ہم ان پراعتمادکریں۔بس!اسی اعتمادکانام تقلید ہے۔اور اسی کو اِس زمانہ میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ گناہ اورشرک ہے۔
غیرمقلدین بھی درحقیقت مقلدہی ہیں
اورجوتقلیدچھوڑنے کی بات کرتے ہیںان لوگوںکے پاس ہے بھی کیا؟ جو تقلید کے معاملہ میںاعتراض کرتے ہیںان کے پاس مسائل بھی گنے چنے ہیں،امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنی چاہیے یا نہیں ؟ رفعِ یدین کرنا چاہیے یا نہیں ؟ایسے چند مسائل ہیں جن کے اندر وہ لوگ نا واقفوںکو الجھاتے رہتے ہیں،انہیں لوگوںسے اگرخرید و فروخت کاکو ئی مسئلہ پوچھ لو، توہدایہ اٹھاکربتلائیں گے۔یہ بات مَیںاپنی طرف سے نہیںکہتابلکہ انہی لوگوں کااقرارہے ۔
حضرت علامہ ابراہیم صاحب بلیاوی رحمۃاﷲعلیہ جودار العلوم دیوبندکے صدرمدرس تھے، پہلے مسجدفتح پوری کے مدرسہ میںتھے ، وہ فرماتے ہیںکہ کچھ غیرمقلدین سے ہم نے سوالات کئے تو انہوں نے اقرار کیاکہ ہم بھی ان مسائل میںہدایہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں، ہدایہ میں اگر کسی حدیث کا حوالہ دیاہو توپھرنصب الرایہ وغیرہ میں دیکھ کر لوگوں کو بتاتے ہیں کہ فلاں کتاب میں یوں لکھا ہے۔
فقہ اسلامی بڑی عظیم نعمت ہے
تودرحقیقت ان فقہائِ کرام اور ائمۂ عظام کابڑااحسان ہے،یہ توایک چیز ضمناً آگئی تو سمجھدار لوگوںکے سامنے مَیںاس لیے پیش کرتا ہوں تاکہ اس کی اہمیت کوسمجھیںکہ فقہ اسلامی بڑی عظیم نعمت ہے،اس فقہ اسلامی کی وجہ سے امت کارشتہ ایک ڈور میں بندھا ہواتھا اور مضبوطی کے ساتھ اس پرعمل ہوتاتھا، مخالفین نے جب یہ چاہاکہ امت کومنتشرکیاجائے تو انتشارپیداکرنے کے لیے انہوں نے جو مکائد اور تدابیرسوچیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ائمۂ عظام سے ان کوکا ٹ دو ،لہٰذا انہوںنے یو ں کہنا شروع کیا کہ تم لوگ اﷲ ورسول پر ایمان لائے ہو،یا امام ابوحنیفہ اور امام شافعی ؒ وغیرہ پر ؟
احمقانہ سوال
بعض لوگ پوچھتے ہیںکہ آپ حنفی ہیں یا مسلمان؟اولاًتوان کایہ سوال ہی غلط ہے، یہ توایسا ہی ہوا جیسے کوئی یہ کہے کہ آپ ہندوستانی ہیںکہ گجراتی؟ اگرآپ سے یہ سوال کیا جائے توآپ اس سوال کوکیاکہیںگے؟یہ توحماقت در حماقت ہے۔ گجراتی تو ہندوستانی کی ایک شاخ ہے۔ہاں!یہ سوال ہوسکتا ہے کہ آپ گجراتی ہیں یامہاراشٹرین؟ لیکن حنفی شافعی ہیں یا محمدی ومسلمان؟یہ سوال ہی بے کار ہے۔وہ لوگ ایسی بات کرکے عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔
بندرکوادرک کی گرہ مل گئی
بات یہ چل رہی تھی کہ اسلامی فقہ میںحضراتِ فقہاء نے قرآن وحدیث میں جتنی قانونی چیزیںتھیںان کوالگ الگ کرکے جمع کردیااورکتابی شکل میںمدون کردیا اب ہمارے لیے بڑی آسانی ہوگئی کہ کسی بھی مسئلہ کاحکم معلوم کرناہوتوکتابوںکوکھول کردیکھ لو،اسی طرح حقوق اﷲاور حقوق العبادکو بھی کتا بوںمیںالگ کرکے بتلایاہے۔اب مثلاًہم فقہ حنفی پرعمل کرتے ہیں تومدارس میںانہی مسائل کو پڑھایا جاتا ہے، امام ابوحنیفہ رحمۃاﷲعلیہ نے قرآن و حدیث میں غوروفکرکرکے مسائل کووضاحت کے ساتھ پیش کیاہے،انہی پراعتماد کرتے ہوئے ہم عمل کرتے ہیں۔
فقہ حنفی کی ایک مشہورکتاب ہے جس کا نام ’’ہدایہ ‘‘ ہے،جو عالم بننے والوںکوپڑھائی جاتی ہے، اس کتاب کے بڑے ضخیم چارحصے ہیں،ان چار حصوں میں سے صرف ایک ہی حصہ میںعبادات کا ذکر ہے، باقی تین حصوں میں معاشرت معاملات اورحقوق العباد کی چیزیں بیان کی گئی ہیں۔ حدود حقوق اﷲ میںآتی ہیںلیکن وہ تھوڑاساحصہ ہے،لہٰذایوں سمجھئے کہ دین کے مسائل میںسے پوناحصہ حقوق العباد سے تعلق رکھتاہے اورپاؤ حصہ حقوق اﷲ سے تعلق رکھتا ہے۔شریعت کے اندرحقوق العباد کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ گویا پونادین حقوق العباد ہے۔ اب ہم صرف عبادات کوپکڑلیںاوراس پرعمل کرکے یوں سمجھیں کہ ہم سوفیصدمسلمان ہیں۔ پاؤحصہ پرعمل کرتے ہیں،پونے حصہ پرعمل نہیں کرتے اور اپنے کوپورامسلمان سمجھتے ہیں،یہ توایسا ہی ہوا کہ جیسے کسی بندرکوادرک کی گرہ مل گئی تووہ اپنے آپ کوپنساری سمجھنے لگا۔اس لیے ضرورت ا س بات کی ہے کہ بندوںکے حقوق سے تعلق رکھنے والے احکام کو بھی عملی جامہ پہنایا جائے ۔
(اصلاحی مضامین:5/119-124)
����
جاری