ووٹنگ سے متعلق چند شرعی مسائل، ندیم احمد انصاری، الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا
عورتوں کا ووٹ دینا
ووٹ(دینا)درحقیقت ایک قسم کی شہادت کی حیثیت رکھتا ہے،اسی طرح اس میں مشورہ اور رائے کی حیثیت بھی ہے اور شریعتِ اسلامیہ کی روسے عورت اہل الرائے ،اہلِ مشورہ اور اسی طرح اہلِ شہادت میں سے ہے،چناں چہ قرآنِ کریم میں ہے:{فان لم یکونا رجلین فرجل وأمرأتان}۔(البقرہ)
خلفاے راشدین کے روشن دورِخلافت میں جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت ختم ہوئی،تو خضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب حضرت عثمان کی خلافت کے لیے لوگوں سے مشورہ اور رائے طلب کی تو اس موقع پر آپؓ نے پاک دامن عورتوں سے بھی مشورہ اوررائے طلب کی تھی۔(البدایۃ والنہایۃ)حضراتِ فقہاؒنے بھی حدود و قصاص کے علاوہ دیگر معاملات میں (عورت کی) شہادت کو صحیح قرار دیا ہے۔(شامی)لہٰذا عورت کے لیے ووٹ ڈالنا منع نہیںہے،بلکہ جب انتخاب اسلامی اور غیر اسلامی نظریےپر مبنی ہو یا ایک امید وار صالح اور اس کے مقابلے میں دوسرا امیدوار فاسق ہو اور خواتین کے ووٹ استعمال نہ کرانے کی صورت میں دین کو خطرہ(ہو سکتا)ہو تو (ان کے ووٹ )استعمال کرانا ضروری ہے۔ تاہم ایک مسلمان عورت کے ووٹ ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پردہ اور دیگر امورِ شرعیہ کا خیال کرتے ہوئے اپنے ووٹ کا حق استعمال کرے،ورنہ معصیت کے ارتکاب کی صورت میںووٹ کا استعمال کرنا صحیح نہیں۔
حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:عورتوں کے لیے ووٹ ڈالنے کا جواز جب ہے کہ پولنگ اسٹیشنوں پر عورتیں نہ جائیںبلکہ مطالبہ کریں کہ ان کے لیے زنانہ منتظم مقررکیے جائیں۔(کفایت المفتی،حقانیہ)
جہاں تک عورتوں کے لیے مسجد آکر نماز پڑھنے سے بوجۂ فتنہ منع کرنے کی بات ہے،تو ظاہر ہے کہ نماز کوئی وقتی ضرورت کی چیز نہیں،بلکہ ایک دائمی عبادت ہے،جو شب و روز میں پانچ مرتبہ فرض ہے،لہٰذا عورتوں کے لیے بار بار گھر سے نکلنے میں فتنہ و فساد کا اندیشہ غالب ہے،نیز مسجدمیں باجماعت نماز پڑھنا نہ توان پر مَردوں کی طرح ضروری ہے اور نہ ہی باعث ِ فضیلت،بلکہ بفحوائے حدیث عورت کے لیے گھر کی کال کوٹھری کی نماز(زیادہ پردہ ہونے کی وجہ سے)نہ صرف مسجدبلکہ مسجد ِنبوی میں آں حضور ﷺ کی اقتدا میں ادا کی جانے والی نماز سے بھی افضل اور بہتر ہے۔اس کے بر خلاف ووٹ وقتی ضرورت کی چیز ہے،جو گھربیٹھے ممکن نہیں،لہٰذا جس طرح دیگر ضروریات کے لیے بدرجۂ مجبوری ،شرعی پابندیوں کی رعایت کے ساتھ خروج عن البیت(گھر سے نکلنے)کی اجازت اور گنجائش ہے،ووٹ ڈالنے کے لیے بھی ہوگی۔
عورت کا بلا محرم ووٹ دینے جانا
ووٹنگ بوتھ اگر قریب ہے تو شرعاً محرم کا ساتھ ہونا ضروری نہیں ہے،البتہ محرم ساتھ رہنے میں احتیاط ہے اور بہ حالاتِ موجودہ اسی پر عمل کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔(شامی دار الفکر)
انگلی پر نشان لگوانا
ووٹ ڈالتے وقت بہ طورنشانی انگلی پر ایک نشان لگایا جاتا ہے،اس کے لیے کبھی تو نیچے میز وغیرہ پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں اور کبھی نشان لگانے والا اپنے ہاتھ میں ووٹ ڈالنے والے کی انگلی پکڑ کر نشان لگا دیتا ہے۔اس صورت میں اگر مرد ،ووٹ ڈالنے والا ہو اور نشان لگانے والی عورت ہویا اس کے بر عکس یعنی مرد،نشان لگانے والا ہواور عورت ،ووٹ ڈالنے والی ہو، ان سب صورتوں میں خیال رہےکہ خواتین کے لیے ووٹ ڈالنے کی اجازت ہی اس وقت ہے جب غیر شرعی امور کے ارتکاب کی نوبت نہ آئے اور غیر محرم منتظمین سے سابقہ نہ پڑے۔لہٰذا غیر محرم منتظم عورت کی انگلی پکڑے اور اس پر سیاہی کا نشان لگائے،تو شرعاً اس کی اجازت نہیں،اور ایسی صورتِ حال میںعورت کے لیے ووٹ ڈالنے کی اجازت نہ ہوگی۔(شامی،دار الفکر)
البتہ اگر غیر محرم سے انگلی پر سیاہی لگانے کی نوبت پیش آجائے تو شرعاً گنجائش ہے،لیکن مسلمانوں پر لازم ہے کہ خواتین کے لیے حکومت سے علاحدہ انتظام یا کم ازکم خاتون منتظمہ کا مطالبہ کریں،اور جب تک اس پر عمل درآمد نہ ہو تب تک انگلی پر نشان لگانے کی حد تک رخصت ہے۔(شامی:دارالفکر)اسی طرح(جب)مرد ووٹر ہو اور(غیر محرم) عورت (اس کی)انگلی پکڑکرنشان لگائے تو ممنوع ہے،اور(انگلی پکڑے بنا) نشان لگادے، تو گنجائش ہے۔(شامی دارالفکر)