یہ دھرتی جاگیر ہے اس دھرتی کے ہر انسان کی
راج ٹھاکرے کی اشتعال انگیزی کے تناظر میں
یہ دھرتی جاگیر ہے، اس دھرتی کے ہر انسان کی
مولانا ندیم احمد انصاری
وطنِ عزیز ہندستان کے حالات ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ کسی کی بھی اشتعال انگیزی پر صَرفِ نظر سے کام لیا جا سکے، ایسے میں عروس البلاد شہرِ ممبئی میں ایک بار پھر راج ٹھاکرے کی اشتعال انگیزی یقیناً قابلِ مذمّت ہے۔ انھوں نے اپنے بیان اور اندازِ بیان کے ذریعے ایک بار پھر عوام کو برگشتہ کرنے کی کوشش کی ہے، جس پر حکومت کی جانب سے نوٹس لیا جانا چاہیے۔ انتخابات میں کوئی قد حاصل نہ ہونے کے بعد سے انھیں گویا گم نامی کی زندگی گزارنی پڑ رہی ہے، ایسے میں شاید اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے انھوں نے یہ راستہ اپنایاہے، جس پر پہلے بھی ایک بار چل کر وہ شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مثبت کردار و اعمال کو شہرت کی وہ منزلیں حاصل نہیں ہوتیں جو منفی کردار و اعمال کو حاصل ہوا کرتی ہیں، اسی لیے آج کل بعض لوگوں نے یہ روِش اختیار کر لی ہے کہ شہرت حاصل کرنے کے لیے ایسے کام و کلام انتخاب کرتے ہیں، جن سے وہ راتوں رات مشہور ہو جائیں،جب کہ ظاہر ہے کہ یہ ناروا روِش ہے۔
ہندستان کے دستور کے مطابق وطن کے ہر باسی کو پورے ملک میں کسی بھی ریاست، کسی بھی شہر میں سکونت اختیار کرنے اور روزی روزگار حاصل کرنے کاپورا حق حاصل ہے لیکن شہرِ ممبئی میں اکثر دستور کی اس دفعہ پر سوالیہ نشان لگایا جاتا رہا ہے، گویا شہرِ ممبئی کو دستور سے مستثنیٰ رکھا گیا ہو۔ ویسے یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ آخر کیوں ملک کے اکثر شہر و دیہات کے لوگوں کو عروس البلاد میں آکر رہنے، بسنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور کیوں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں ’پردیسیوں‘کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے اور ایسے لوگوں کو کہنے سننے کا موقع دیتے ہیں؟ اس پر غور کرنے کے بعد ہمارے فہم میںصرف ایک ہی بات آتی ہے اور وہ یہ کہ ملک کی دیگر ریاستوں و شہروں کے بالمقابل ممبئی میں روزگار کے مواقع زیادہ موجود ہیں، صرف یہی وجہ ہے کہ آج ہندستان کے تقریباً ہر شہر و ریاست کے لوگ یہاں آکر اپنی قسمت آزمانے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ ہر ریاست میں روزگار کے مواقع فراہم کرے تاکہ عوام کو ’شہر بدر‘ ہونے پر مجبور نہ ہونا پڑے نیز اس طرح زبان کھولنے والوں کے منہ پر بھی تالے پڑ سکیں۔
واقعہ یہ پیش آیا کہ مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے نے اپنے کارکنوں سے (8مارچ2016ء ،بروزبدھ) کہا ہے کہ ریاست میں جو نئے رجسٹرڈ رکشہ غیر مراٹھی چلا رہے ہیں انھیں جلا دیا جائے۔ ویسے ٹھاکرے کے اس بیان پر تمام پارٹیوں نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے اور کانگریس و این سی پی نے ان پرنفرت کی سیاست کرنے کا الزام لگایا ہے۔اس کے ساتھ ہی اپوزیشن جماعتوں نے بی جے پی،شیوسینا حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ایم این ایس کے صدر کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ راج ٹھاکرے نے نئے آٹو رکشہ کے پرمٹوں میں سے 70 فیصد کی اجازت غیر مراٹھیوں کو دیے جانے کا دعویٰ کرتے ہوئے یہ دھمکی دی کہ اگر یہ گاڑیاں سڑکوں پر چلتی ہوئی نظر آئیں تو ان کے کارکنان ان گاڑیوں کو آگ لگا دیں گے، جس پر کانگریس کے ترجمان نصیر زکریا نے کہا ہے کہ ٹھاکرے کی جانب سے تشدد بھڑکانے کی کھلی دھمکی ‘صاف طور پر بی جے پی قیادت والی حکومت کی دہشت گرد عناصر ‘سے نمٹنے میں نااہلی کے بارے میں بہت کچھ کہہ جاتی ہے۔ زکریا نے یہ بھی کہا کہ یہ بہت حیران کرنے والا معاملہ ہے کہ کوئی اشتعال انگیز تقریر کرنے کے بعد بھی بچ نکلنے دیا جاتا ہے، انھوں نے یہ بھی سوال اٹھایا ہے کہ جب کنھیاکمار جیسا غیر رہنما بولتا ہے تو اس پر فوری طور پرملک مخالف ہونے کا کلنک لگادیا جاتا ہے اور اسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے، یہی تیور راج ٹھاکرے کے ساتھ کیوں نہیں اپنایا جاتا؟ خیر اس بات کی تو شاید ہندستان کی عوام عادی ہو گئی ہے۔ یہ ممبئی کا واقعہ ہے، جب کہ دوسری طرف راج ٹھاکرے کے متنازعہ بیان کے بعد بہار میں سیاسی گھمسان مچ گیا اور نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے راج ٹھاکرے کے بیان پر سخت ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مہاراشٹر اور ملک کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے، یہی نہیں بلکہ بی جے پی کے سینئر لیڈر اور مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے اس معاملے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ راج ٹھاکرے دہشت گرد ی کی زبان استعمال کر رہے ہیں، جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا ہے، جے ڈی یو نے بھی اس معاملے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے راج ٹھاکرے کے بیان پر تنقید کی ہے۔ اس معاملے پر تیجسوی یادو نے کہا کہ ملک میں کوئی نفرت نہ پھیلائے کیوں کہ یہ سبھی کا ملک ہے، انھوں نے مزید کہا کہ مہاراشٹر میں بی جے پی حکومت ہے اور اس وجہ سے وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ راج ٹھاکرے پر مہاراشٹر حکومت کو کارروائی کرنے کا حکم دیں۔ قابلِ ذکر ہے کہ راج ٹھاکرے اس سے پہلے بھی غیر مراٹھیوں کے خلاف اس طرح کی زبان استعمال کر کے سرخیوں میں رہ چکے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کا اس پر کچھ ردِ عمل ظاہر ہوتا ہے یا پھر دیگر معاملات کی طرح یہ معاملہ بھی چند اخبارات میں چند دن شایع ہو کر رفع دفع کر دیا جاتا ہے۔ راج ٹھاکرے نے اس سے قبل جب اس طرح کی بیان بازیاں اور ان کے کارکنان نے جب ان پر عمل در آمد کیا تھا شاید اسی وقت اردو کی ایک شاعرہ نے تاثرات و جذبات سے پُر ایک گیت اس حوالے سے نذر کیا تھا، جس کا ایک بند پیشِ خدمت کرنے کو جی چاہتا ہے ؎
امچی ممبئی کہنے والوں کب تک راگ یہ گاو?گے
کیا شہر بمبئی کو اپنی چتا میں لے کر جاو?گے
ہندستان کا کونا کونا ہر ہندی کا سپنا ہے
کنیا کماری سے لے کر کشمیر تلک سب اپنا ہے
یہ دھرتی جاگیر ہے اس دھرتی کے ہر انسان کی
یہ کیسی تصویر بنا دی تم نے ہندوستان کی
٭٭٭