Ye Kaisi Tasveer Bana Di Tumne Hindustan ki, Maulana Nadeem Ahmed Ansari

image

یہ کیسی تصویر بنا دی تم نے ہندوستان کی – مولانا ندیم احمد انصاری

سونے کی چڑیا کہے جانے والے وطنِ عزیز ہندوستان کے حالات آج کچھ ایسے ہیں کہ ہر حساس دل اور فہم و شعور رکھنے والے انسان کو ہر لمحہ ایک ایس تشویش لاحق ہے، جس کا کوئی تدارک نظر نہیں آرہا، ایسا اس لیے نہیں کہ ان حالات کو بدلا نہیں جا سکتا بلکہ اس لیے ہے کہ ان حالات کو کوئی سنجیدگی کے ساتھ بدلنا ہی نہیں چاہتا اور کوئی سے مراد اصل وہ لوگ ہیں، جنھوں نے زمام اقتدار پر قبضہ کر رکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملک میں نہ صرف اقلیتیں بلکہ اب تو اکثریت کی نچلی ذاتیں بھی درد و کرب میں مبتلا نظر آتی ہیں، جس کی بڑی وجہ فرقہ پرستوں کی درندہ صفت طبیعت ہے۔ اقلیتوں پر تو ایک زمانے سے ملک میں مذہبی تعصب کی آڑ میں ستم توڑے جا رہے ہیں لیکن اب اکثریت کے نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے بھی محفوظ نہیں رہ گئے ہیں، ان کیمعصوم بچوں کو دن دہاڑے زندہ نذرِ آتش کیا جا رہا ہے،بچی کچی انسانیت کا جنازہ اس وقت نکل جاتا ہے، جب کہ اتنے سنگین اور تشویش ناک واقعے پر انسانیت سوز تبصرہ کرتے ہوئے اسے کتّے کے بچّے کو پتھر مارنے سے تشبیہ دی جاتی ہے۔

مرکزی حکومت نے انتخابات کے موقع پر جو وعدے کیے تھے، وہ ان تمام میں بالکل ناکام رہی ہے اور ہم ذاتی طور پر یہ سمجھنے پر مجبورکہ ان حالات میں بلاوجہ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو اور خود ہندوو?ں میں دلتوں کو ہراساں کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی، بلکہ اس کے پیچھے اصل مقصد یہ ہے کہ کوئی ان فرقہ پرستوں کے اصل منصوبوں کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔ملک کے حالات واقعی دگر گوں ہیں، اس لیے کہ ایک طرف انسانیت کی فکر کو بالاے طاق رکھ کر جانوروں کی حفاظت کے نام پر درنگدی کا ننگا ناچ کھیلا جا رہا ہے تو دوسری طرف مہنگائی کو مستقل عروج دیتے ہوئے ان تمام تر مسائل سے عوام کو علاحدہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یہ انتہا پسند عناصر یوں تو زمانۂ قدیم سے ملک میں موجود رہے ہیں لیکن اب ان کے نئے بال و پر نکل آئے ہیں، اس لیے کہ کہیں نہ کہیں انھیں اپنے گرو گھنٹالوں کی پشت پناہی بلکہ سرپرستی حاصل ہو گئی ہے، جس کے باعث ان کی انسانیت کش کاروائیوں کی رفتار بڑھ گئی ہے۔ظاہر ہے ان حالات نے عالمی سطح پر ملک کے وقار کو نہ صرف مجروح کیا ہے بلکہ اس کے روشن چہرے پر سیاہی مل دی ہے لیکن اس موقع پر بھی ہم ایک بات ضرور کہنا چاہیں گے اور وہ یہ کہ ان حالات و پریشانیوں میں ہم سب بھی کسی نہ کسی حد تک ضرور شریک ہیں، اس لیے کہ یہ سب خدا کے احکامات سے دوری اور انھیں پسِ پشت ڈالنے کا خمیازہ ہے جو ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے اور اس کا سب سے بڑا سبب ایسے نازک حالات میں بھی مسلمانوں کے ان آپسی اختلافات کا باقی رہنا ہے، جو اب افتراق کی صورت اختیار کر گئے ہیں، جب کہ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ خاص ایسے حالات میں ہم ملک کی سالمیت کی خاطر مل جل کر احتیاطی تدابیر کے ساتھ تمام تر مسائل کا حل تلاش کریں۔اس پر طرّہ یہ کہ ان حالات کو میڈیا بھی اپنی کماحقہ توجہ کا مرکز نہیں بنا رہا جس کی وجہ اس کے سوا کچھ سمجھ میں نہیں آتی کہ اس کی بھی قیمت لگائی جا چکی ہے، ورنہ کیا بات ہے کہ وہ میڈیا جو ایک دن یا ایک رات میں کسی کو ہیرو سے زیرو یا اس کے برعکس کر دکھاتی ہے، جسے جمہوریت کا مستقل رکن ہونے کی حیثیت حاصل ہے، اس پر اس قدر سکوت چھایا ہوا ہے؟یہی نہیں بلکہ ان سب میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی مسلسل چشم پوشی بھی مسلسل جاری ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک کی جمہوری حکومت کا جنازہ نکل چکا ہے اور بر سر اقتدار افراد کی اصل زمام کار ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھ ہی میں ہے اور یہ محض ہمارے ذہن کا اختراع بھی نہیں بلکہ بہت سے دانشوران کی تسلیم چدہ حقیقت ہے۔یہ تنظیمیں یوں تو سالہا سال سے فرقہ ورانہ منافرت کی تخم ریزی کرتی رہی ہیں لیکن اب گویا کہ ان کی فصل بالکل تیار ہو چکی ہے اور انھیں اب اس بات کا احساس ہونے لگا ہے کہ وہ لوگ جو خواب دیکھ رہے تھے، اب جلد ہی شرمندۂ تعبیر ہو جائے گا۔ظاہر ہے اگر یہی حالات رہے تو ملک میں رہنے والے تمام لوگوں کو ایک قیامت کا سامنا ہوگا اور نہ بھولیں کہ ایسی مصیبتیں ہمیشہ عموم لیے ہوتی ہیں۔

یہ کیسی تصویر بنا دی، تم نے ہندوستان کی
ان فرقہ واریت اور عدم روداری کیحالات میں ادیبوں کے ساتھ ساتھ اب سائنس دانوں کی شمولیت بھی ایک اچھی بات ہے کہ ان حضرات نے حکومت کو متحرک کرنے کے لیے ایک نئی راہ نکالنے کی سوچی ہے۔ ممتاز سائنس داں پی ایم بھارگو کا یہ کہنا کہ این ڈی اے سرکار ہندوستان کی جمہوریت کو مذہبی تاناشاہی میں بدلنے کی کوشش کر رہی ہے، معنی خیز ہے۔ انھوں نے نریندر مودی پر انتخابی وعدوں میں ناکام رہنے کا بھی الزام عائد کیا ہے اور ان کے علاوہ دیگر 107سینیئر سائنس دانوں نے گذشتہ بدھ (28اکتبور 2015) کو آن لائن بیان میں دست خط کرکے اپنی مخالفت کا اظہار کیا ہے، اس کے علاوہ پچاس سے زائد مؤرخین اور بارہ فلمی شخصیات نے بھی اس احتجاج کو اپنی حمایت دی ہیلیکن ان سب کے باوجود حکومت کی اب تک کی خاموش اور سرد مْہری واقعی قابلِ تشویش ہے۔

ان حالات کو مزید پیچیدہ بنانے کا کام ہماری عدلیہ نے کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ عدلیہ‘ جس کا اپنا وقار اور اپنا ایک دائرۂ کار ہوتا ہے، جس کے پیشِ نظر ان پر انصاف کا عَلم بلند کرنے کی ذمّے داری عائد ہوتی ہے انھوں نے اس میں تسامح سے کام لیا ہے، اس لیے کہ کسی بھی معاملے میں نیا قانون وضع کرنا ان کے دائرے سے باہر ہے، پر افسوس ملک میں عدلیہ نے اپنی چادر سے باہر پاؤں نکالتے ہوئے مسلم پرسنل لا بورڈ میں مداخلت شروع کی ہے، جب کہ ایسا کرنا ملک کے جمہوری دستور کی خلاف ورزی ہے۔مسلمانوں کے عائلی قوانین براہِ راست قرآن و احادیث سے مستفاد ہیں، جو اسلام کی روح ہیں، ان سے دست بردار ہونا گویا قرآن و احادیث سے دست بردار ہونا ہے، جس کی کوئی مسلمان جسارت نہیں کر سکتا۔اس لیے عدلیہ کو مسلم پرسنل لا بورڈ کا جائزہ لینے کا مشورہ دینے کے بجائے خود اس کا باریک بینی اور غیر جانب داری سے مطالعہ کرنا چاہییتھا،اگر ایسا کیا جاتاتو کوئی وجہ نہیں تھی کہ مسلم پرسنل لا میں مداخلت کی ضرورت پڑتی۔ دوسری طرف جو کام ان کے کرنے کا تھا، یعنی عوام کو جلد از جلد انصاف سے نوازنا، اس میں سرد مْہری کا مظاہرہ کای گیا اور بے گناہوں کو ملزم بنا کر سالہا سال انھیں قید و بند میں محبوس رکھا گیا، جسے ظلم کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے؟اور یہ بات ہم کوئی ہوا میں نہیں کہہ رہے بلکہ حال ہی میں آئے اس عدالتی فیصلے نے اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے، جس میں دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار تقریباً آٹھ سالوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے مقیدچھ مسلم نوجوانوں کو لکھنؤ کی خصوصی ایس سی ایس ٹی عدالت نے ناکافی ثبو ت کی بنا پر باعزت بری کیا ہے۔ ہمیں کہنے دیجیے کہ ان کی رہائی یقیناً ایک خوش کن خبر ہے لیکن ان کی زندگی کے ان قیمتی آٹھ سالوں کا کیا، جو قید و بند میں ضائع ہو گئے؟ پھر یہ معاملہ بھی ان چند نوجوانوں کا نہیں بلکہ ایسے نہ جانے کتنے معاملے ہیں، جن پر صحیح طور پر شنوائی ہی نہیں کی جاتی،جیسا کہ اس سے پہلے بھی گذشتہ چند ماہ قبل لکھنو ہی کی خصوصی عدالت نے تین ملزمین کو دس سالوں کے بعد مقدمہ سے باعزت بری کیا تھا۔

اس وقت ملک کو ضرورت ہے فرقہ ورانہ ہم آہنگی کی،رواداری کی، مہنگائی سے چھٹکارے کی، فرقہ پرستوں سے حفاظت کی، جمہوری اقدار کو بحال کرنے کی اور پیار و آشتی کی، پھر کیا وجہ ہے کہ ان مسائل سے صرفِ نظر کرکے بھڑکاؤبیانات دے کر ملک کی فضا کو مسموم کیا جاتا ہیاور کیوں کسی انسان کا انسان ہونا ان درندہ صفت انسانوں کو نظر نہیں آتا! آخر کب تک ملک کے عوام کو انھیں مسائل میں الجھا کر رکھا جائے گا؟ کب تک ان کی زندگی کی بنیادی ضرورتیں عدم توجہی کا شکار رہیں گی؟ کب انھیں رہنے کے لیے مکان اور کھانے کے لیے کھانا نصیب ہوگا؟ کب تک ملک کے سچّے محبِ وطنوں کو دہشت گردی کی گالی دی جاتی رہے گی؟کب تک انھیں سرِ عام قتل کیا جاتا رہے گا؟ کب تک ان کے گھر والے عدلیہ سے انصاف کی بھیک مانگتے رہیں گے؟اور کب ملک کے عوام کو ان کے جمہوری حاصل ہوں گے؟

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here