مولانا ندیم احمد انصاری
آزمائش اس دنیا کا لازمہ ہے۔ اس لیے کہ یہ عمل کی جگہ ہےاور آخرت بدلے کی۔جو انسان جس قدر اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعوے دار ہوگا، اسے اسی قدر ابتلا و آزمائش سے گزرنا ہوگا۔ مومن کوآزمائش و ابتلا کا سامنا کسی گناہ کے سبب نہیں، بلکہ گناہوں سے معافی اور درجات کی بلندی کے سبب ہوتا ہے۔شرط یہ ہے کہ صبر کا دامن تھامے ہوئے اس مرحلے سے گزرا جائے۔ یہ باتیں رحمۃ للعالمین، خاتم النبیین ﷺ نے اپنے ارشادات میں بہت واضح طور پر بیان فرمائی ہیں۔ اس وقت امتِ مسلمہ نازک دور سے گزر رہی ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ اس سلسلے کی بعض احادیث پیش کی جائیں۔
مومن اور منافق کی مثال
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن کی مثال کھیتی کی مانند ہے کہ ہوا اسے ہمیشہ جھکاتی رہتی ہے، کبھی دائیں کبھی بائیں۔ مومن ہمیشہ آزمائش میں رہتا ہے۔ منافق کی مثال صنوبر کے درخت کی سی ہے کہ کبھی نہیں ہلتا، یہاں تک کہ جڑ سے کاٹ دیا جائے۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: مَثَلُ الْمُؤْمِنِ كَمَثَلِ الزَّرْعِ لَا تَزَالُ الرِّيَاحُ تُفَيِّئُهُ وَلَا يَزَالُ الْمُؤْمِنُ يُصِيبُهُ بَلَاءٌ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ مَثَلُ شَجَرَةِ الْأَرْزِ لَا تَهْتَزُّ حَتَّى تُسْتَحْصَدَ.(ترمذی)
گناہوں سے پاکی کا سبب
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:مومن مرد اور عورت پر ہمیشہ آزمائش رہتی ہے کبھی اس کی ذات میں، کبھی اولاد میں اور کبھی مال میں، یہاں تک کہ وہ جب اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرتا ہے تو گناہوں سے پاک ہوتا ہے۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: مَا يَزَالُ الْبَلَاءُ بِالْمُؤْمِنِ وَالْمُؤْمِنَةِ فِي نَفْسِهِ وَوَلَدِهِ وَمَالِهِ حَتَّى يَلْقَى اللَّهَ وَمَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ. (ترمذی)
درجات کی بلندی کا سبب
ابراہیم سلمی اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں -اور ان کی صحبت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھی-کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے : بے شک بندے کا مقام و مرتبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلیٰ لکھا جاتا ہے، مگر انسان اپنے اعمال سے اس تک نہیں پہنچ پاتا تو اللہ تعالیٰ اس بندے کو اس کے جسم ،مال یا اولاد کی وجہ سے آزمائش میں مبتلا کرتے ہیں۔( ابن نفیل نے یہ الفاظ مزید بیان کیے) پھر وہ اس پر صبر کرتا ہے (اس بات میں وہ دونوں متفق ہیں) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کو اس مقام پر پہنچاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے لکھا جا چکا ہوتا ہے۔ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ السُلَمِیُّ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ وَکَانَتْ لَہُ صُحْبَہٌ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ ﷺ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ ﷺ یَقُولُ : إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا سَبَقَتْ لَہُ مِنَ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ مَنْزِلَۃٌ لَمْ یَنَلْہَا بِعَمَلِہِ ابْتَلاَہُ اللَّہُ فِی جَسَدِہِ ، أَوْ فِی مَالِہِ ، أَوْ فِی وَلَدِہِ ۔ زَادْ ابْنُ نُفَیْلٍ : ثُمَّ صَبَرَ عَلَی ذَلِکَ ۔ ثُمَّ اتَّفَقَا : حَتَّی یُبْلِغَہُ الْمَنْزِلَۃَ الَّتِی سَبَقَتْ لَہُ مِنَ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ۔ (سنن کبریٰ بیہقی)
آزمائش پر بے انتہا ثواب
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن جب آزمائش والوں کو ان مصیبتوں کا بدلہ دیا جائے گا تو اہلِ عافیت تمنا کریں گے کاش ان کی کھالیں دنیا میں قینچیوں سے کاٹ دی جاتیں، تاکہ انھیں بھی اسی طرح اجر ملتا۔عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: يَوَدُّ أَهْلُ الْعَافِيَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِينَ يُعْطَى أَهْلُ الْبَلَاءِ الثَّوَابَ لَوْ أَنَّ جُلُودَهُمْ كَانَتْ قُرِضَتْ فِي الدُّنْيَا بِالْمَقَارِيضِ.(ترمذی)
گناہوں کا کفارہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ جب یہ آیت- مَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا يُّجْزَ بِهٖ ۙ وَلَا يَجِدْ لَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا۔ جو بھی برا عمل کرے گا، اس کی سزا پائے گا، اور اللہ کے سوا اسے اپنا کوئی یارو مددگار نہیں ملے گا۔ (النساء)-نازل ہوئی تو مسلمانوں پر شاق گزرا۔ چناں چہ انھوں نے حضرت نبی کریم ﷺ سے اس کا اظہار کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمام امور میں افراط وتفریط سے بچو اور استقامت کی دعا کرو۔ مومن کی ہر آزمائش میں اس کے گناہوں کا کفارہ ہے، یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا چبھ جائے یا کوئی مشکل پیش آجائے(اس پر بھی اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں)۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ سورة النساء آية 123 شَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ فَشَكَوْا ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ: قَارِبُوا وَسَدِّدُوا وَفِي كُلِّ مَا يُصِيبُ الْمُؤْمِنَ كَفَّارَةٌ حَتَّى الشَّوْكَةَ يُشَاكُهَا أَوِ النَّكْبَةَ يُنْكَبُهَا.(ترمذی)
دل برداشتہ نہ ہوں
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ کو شدید بخار تھا۔ میں نے اپنا ہاتھ آپ پر رکھا تو چادر کے اوپر بھی حرارت محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول آپ کو اتنا شدید بخار ہے! آپ نے فرمایا: ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ آزمائش بھی دُگنی ہوتی ہے اور ثواب بھی دگنا ملتا ہے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش کن پر ہوتی ہے ؟ آپ نے فرمایا: انبیاے کرام علیہم السلام پر۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! ان کے بعد ؟ آپ نے فرمایا :ان کے بعد نیک لوگوں پر۔ بعض نیک لوگوں پر فقر کی ایسی آزمائش آتی ہے کہ اوڑھے ہوئے کمبل کے علاوہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا، اور نیک لوگ آزمائش سے ایسے خوش ہوتے ہیں جیسے تم لوگ وسعت اور فراخی سے۔ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ يُوعَكُ، فَوَضَعْتُ يَدِي عَلَيْهِ، فَوَجَدْتُ حَرَّهُ بَيْنَ يَدَيَّ فَوْقَ اللِّحَافِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا أَشَدَّهَا عَلَيْكَ؟ قَالَ: إِنَّا كَذَلِكَ يُضَعَّفُ لَنَا الْبَلَاءُ وَيُضَعَّفُ لَنَا الْأَجْرُ۔ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً؟ قَالَ: الْأَنْبِيَاءُ۔ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ الصَّالِحُونَ، إِنْ كَانَ أَحَدُهُمْ لَيُبْتَلَى بِالْفَقْرِ حَتَّى مَا يَجِدُ أَحَدُهُمْ إِلَّا الْعَبَاءَةَ يُحَوِّيهَا، وَإِنْ كَانَ أَحَدُهُمْ لَيَفْرَحُ بِالْبَلَاءِ كَمَا يَفْرَحُ أَحَدُكُمْ بِالرَّخَاءِ.(ابن ماجہ)
اپنے آپ کو ذلیل نہ کرے
اس لیے ہمیں بھی نیکوکاروں کی روش اپنانی چاہیے، البتہ از خود کوئی مصیبت مول لینے کی کوشش نہ کرے۔حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن کے لیے مناسب نہیں کہ اپنے آپ کو ذلیل کرے ؟ ہم نے عرض کیا: اپنے آپ کو ذلیل کرنے سے کیا مراد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:(اپنے آپ کو ذلیل کرنا یہ ہے کہ آدمی)جس آزمائش کو برداشت نہیں کرسکتا، خود اس کے درپے ہو۔ عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: لَا يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يُذِلَّ نَفْسَهُ، قَالُوا: وَكَيْفَ يُذِلُّ نَفْسَهُ؟ قَالَ: يَتَعَرَّضُ مِنَ الْبَلَاءِ لِمَا لَا يُطِيقُهُ.(ابن ماجہ)
آزمائش سے حفاظت کی ایک دعا
آزمائش کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم کسی اور کو مصیبت میں مبتلا دیکھنے پر بھی خدا سے رجوع نہیں کرتے۔ اگر ہم اُس وقت بھی خدا سے رجوع کر لیں تو امید ہے کہ ہم تک وہ مصیبت نہ پہنچے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی کو مصیبت و آزمائش میں مبتلا دیکھ کر (آہستہ سے) یہ کلمات کہے الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلَاکَ بِهِ وَفَضَّلَنِي عَلَی کَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلًا ( تمام تعریفیں اسی ذات کے لیے ہیں جس نے مجھے اس مصیبت سے نجات دی جس میں تجھے مبتلا کیا اور مجھے اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی) تو وہ شخص جب تک زندہ رہے گا اس مصیبت میں مبتلا نہیں ہوگا۔عَنْ عُمَرَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، قَالَ: مَنْ رَأَى صَاحِبَ بَلَاءٍ، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلَاكَ بِهِ، وَفَضَّلَنِي عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلًا، إِلَّا عُوفِيَ مِنْ ذَلِكَ الْبَلَاءِ كَائِنًا مَا كَانَ مَا عَاشَ. (ترمذی)