آخر شعبان یا یومِ شک کا روزہ: احکام و مسائل

آخر شعبان یا یومِ شک کا روزہ: احکام و مسائل
ندیم احمد انصاری

مادیت پرستی کے اس دور میں احتیاط اور ورع و تقویٰ پر عمل کرنے والے خال خال ہیں۔ یہ وہ دور ہے جس میں رمضان المبارک کے روزہ خوروں نے مختلف حیلے بنا رکھے ہیں، ایسے میں احتیاط پر عمل کون کرے؟ پھر یومِ شک کا روزہ رکھنے میں خواص کے لیے بھی ہدایت کی گئی ہے کہ اس کو مخفی رکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ راقم الحروف نے کسی مسلمان سنی العقیدہ کو اپنی آج تک کی زندگی میں یومِ شک کا روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا، اور اسی لیے اس پر تفصیل سے کچھ عرض کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ اِدھر چند روز قبل بعض اہلِ علم نے اس بحث کی طرف رخ کیا تو یہ چند مسائل سپردِ قلم کر دیے گئے، جو افادۂ عام کی خاطر یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین کی صحیح سمجھ اور تفقہ فی الدین نصیب فرمائے۔ آمین

یومِ شک سے کیا مراد ہے؟
یومِ شک سے مراد شعبان کی تیس تاریخ ہے جب کہ انتیس شعبان کی شام کو موسم آلودہ ہو اور رمضان المبارک کا چاند نظر نہ آیا ہو۔ اس دن روزہ رکھنا ممنوع ہے۔یوم الشک، وھو یوم الثلاثین من شعبان اذا غم علی الناس فلم یروا الھلال اختص بتحریم صیامہ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ)

احادیثِ مبارکہ
حضرت ابو ہریرہؓروایت کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا:تم میں سے کوئی رمضان سے ایک دو دن پہلے روزہ نہ رکھےالبتہ اگر کسی کا ان دنوں میں روزہ رکھنے کا معمول ہوتو وہ شخص روزہ رکھ سکتا ہے۔عن أبی ہریرۃ ؓ عن النبی ﷺ أنہ قال: لا یتقد من أحدکم رمضان بصوم یوم أویومین الا أن یکون رجل کان بصوم صوماً، فلیصم ذلک الیوم۔ (بخاری، مسلم، ابوداود، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)

حضرت عمار رضی اللہ فرماتے ہیں؛ جس نے شک کے دن روزہ رکھا ، اس نے ابو القاسم (حضرت محمد )ﷺ کی نافرمانی کی۔ اس باب میں حضرت ابو ہریرہ اور حضر ت انس رضی اللہ عنہما سے بھی روایات منقول ہیں۔ قال عمار: ومن صام الیوم الذی یشک فیہ فقد عصیٰ أباالقاسم ۔ وفی الباب : عن أبی ہریرۃ و أنس ۔امام ابو عیسیٰ ترمذی ؒ فرماتے ہیں : حدیث ِ عمارؓ حسن صحیح ہے اور اسی پر اہلِ علم کا عمل ہے ۔ جن میں صحابہ کرامؓ اور تابعین ؒ وغیرہ شامل ہیں ۔ سفیان ثوریؒ ، مالک بن انس ؒ ، عبد اللہ بن مبارک ؒ ، شافعیؒ ، احمدؒ اور اسحاق ؒ کا بھی یہی قول ہے کہ یوم الشک کا روزہ رکھنا مکروہ ہے الخ۔ حدیث عمار حدیث حسن صحیح ، والعمل علی ہذا عند أکثر أہل العلم من أصحاب النبی ﷺ ومن بعدہم من التابعین ، وبہ یقول سفیان الثوری و مالک بن أنس ، وعبد اللّٰہ بن مبارک ، والشافعی ، وأحمد ، و اسحاق کرہوا أن یصوم الرجل الیوم الذی یشک فیہ ، ورأی أکثرہم ان صامہ وکان من شہر رمضان أن یقضی یوماً مکانہ ۔( ترمذی)

مختلف آرا

یومِ شک کے روزے کے متعلق مختلف آرا ہیںکہ اس دن روزہ رکھنا افضل ہے یا نہ رکھنا!اس کی تطبیق میں علما فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے شعبان میں روزے رکھے یا وہ مسلسل روزے رکھتا تھاتو اس کے لیے روزہ رکھنا افضل ہے،ورنہ افطار کرناافضل ہے، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ کی روایت سے ظاہر ہوتا ہے۔اختلف العلماء فی یوم الشک ہل صومہ أفضل أم الفطر؟قالوا:ان کان صام شعبان ،أووافق صوماً کان یصومہ فصومہ أفضل،لحدیث’’لا یتقدم أحدکم الخ‘‘وان لم یکن کذلک قال محمد بن مسلمۃ:الفطر أفضل بناء علی الحدیث۔وقال نصیر بن یحییٰ:الصوم أفضل۔لما روینا عن عائشۃ وأبی ہریرۃوعن أبی یوسف،وھو المختار:أن المفتی یصوم ہو خاصتہ،ویفتی العامۃ بالتلوم—الانتظار —الی ماقبل الضحوۃ الکبریٰ،لاحتمال ثبوت الشہر،وبعد ذلک لا صوم،وہو یمکنہ الصوم علی وجہ یخرج من الکراہۃ،وہو نیۃ النفل والتطوع،ولا کذلک العامۃ۔(فقہ الحنفی و ادلتہ، مزید دیکھیے المبسوط السرخسی،البنایۃ،شرح فتح القدیر،عقود الجواہر المنیفۃفی أدلۃ مذہب أبی حنیفۃ،امداد الاحکام)

حنفیہ کا اصل مسلک

حضرت عمار رضی اللہ عنہ والی مذکورہ بالا حدیث اگر چہ مرفوع نہیں لیکن موقوف ہے اور موقوف مرفوع کے حکم میں ہے ،لأن الصحابی لا یقول ذٰلک من قبل رأیہ ، فیکون من قبیل المرفوع۔(بذل المجہود)اسی وجہ سے حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ عوام اس دن روزہ نہ رکھیں، البتہ دوسرے دلائل کی روشنی میں خواص اہلِ فتویٰ کے لیے اجازت دی گئی ہے ۔قال فی رد المختار : استحب صومہ للخواص، قال فی الفتح وقیدہ فی التحفۃ بکونہ علی وجہ لا یعلم العوام ذٰلک،کی لا یعتادوا صمہ ، فیظنہ الجھال زیادۃ علی رمضان ویدل علیہ قصۃ أبی یوسف المذکورۃ فی الامداد۔ (شامی) اور اگر خواص بھی اس حدیث کی بنا پر روزہ نہ رکھیں، تو کچھ حرج نہیں ۔ہاں ! اگر کسی کی عادت ہے کہ وہ کسی خاص دن روزہ نہ رکھا کرتا ہے اور وہ دن یوم الشک میں آگیا تو وہ رکھ سکتا ہے۔قال علیہ الصلا ۃ و السلام : لا تقدموا رمضان بصوم یوم و لا یومین الا رجل کان یصوم صوما فیصومہ ، رواہ الستۃ ۔(فتح القدیر، فتاویٰ عثمانی)

عوام و خواص میں فرق

اسی لیے علما نے لکھا ہے کہ عوام کو یومِ شک کا روزہ نہیں رکھنا چاہیے، جب کہ خواص اس دن روزہ رکھ سکتے ہیں۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے اس بابت سوال کیا گیا تو حضرت موصوف نے تحریر فرمایا کہ اس حدیث سے اتنا تو معلوم ہوگیا کہ بعض عوارض کے سبب بعض افراد تقدم کے مستثنیٰ ہیں ۔ پس اگر کسی دوسری دلیل سے دوسرے بعض افراد مستثنیٰ ہوں توحدیث لاتقدموا رمضان بصوم یوم اویومین کے معارض نہیں اور صومِ یوم الشک کے باب میں دوسری دلیل موجود ہے اور وہ دلیل ان حضرات کا عمل ہے؛ علیؓ، عائشہؓ ، عمروؓا بن عمرؓ ، انس بن مالکؓ، اسما ءبنت ابی بکرؓ ، ابوبکرؓ ، معاویہؓ ، عمروبن العاصؓ۔یہ اصحاب ہیں جن کا عمل مالا یدرک بالقیاس میں مرفوعِ حکمی ہےاور مایدرک بالقیاس میں دلیل ہے، حدیث مرفوع کے مؤل ہونے کی اوران تابعین سے بھی یہ عمل منقول ہے۔ مجاہد ، طاؤس ، سالم بن عبداللہ ، میمون بن مہران ، مطرب بن الشخیر، بکر بن عبداللہ المزنی ، ابوعثمان نہدی۔ یہ سب نام نیل الاوطار ، ج : ۴ ، ص : ۷۷ میں شمار کیے ہیں ۔ پس حدیث لاتقدموا غیرِ صوم یوم الشک۔ غیرصوم یوم معتاد پرمحمول ہوگی۔ یہ تو اہلِ علم سے منقول ہے اور احقر عرض کرتا ہے کہ اگر غور کیا جائے تو حدیث لاتقدموا الخ کو صوم یوم الشک سے کچھ تعلق ہی نہیں، کیوں کہ معنی حدیث کے یہ ہیں کہ رمضان سے پہلے روزہ مت رکھو! تو ظاہر ہے کہ وہ غیرِ رمضان کا روزہ ہوگا اور یوم الشک پر غیر رمضان ہونے ہی کا حکم نہیں کرسکتے۔جو شخص اُس کا روزہ رکھتا ہے وہ بحیثیت یومِ رمضان ہونے کے رکھتا ہے، نہ کہ غیرِ رمضان کا تعظیم واستقبالِ رمضان کے لیے۔ اور احتیاط امورِ دیانات میں خود منصوص ومطلوبِ شرعی ہے جب تک کہ کوئی مفسدہ لازم نہ آوے۔ اور خواص میں یہ مفسدہ محتمل نہیں اورعوام میں محتمل ہے۔ لہٰذا قواعدِ شرعیہ نے دونوں میں فرق فرمادیا۔ رہا یہ کہ اس فعلِ خواص سے عوام کو ابتلا ہوگا، سو یہ اس وقت محتمل ہے کہ عوام کو اس کی اطلاع ہو۔ سو وہ خواص اس کی اطلاع کیوں کریں،بلکہ پوچھنے پر بھی ٹال سکتے ہیں یاانکار کرسکتے ہیں اورایسا جحود مذموم نہیں ۔ (امدادالفتاویٰ)

الموسوعۃ الفقہیہ میں ہےکہ یوم شک میں نفل کے علاوہ کوئی روزہ نہیں رکھا جائے گا۔ اس دن اگر کوئی شخص رمضان کے علاوہ کسی دوسرے واجب کا روزہ رکھے گا تو مکروہ ہوگا اور اگر بعد میں اس دن کا رمضان ہونا ثابت نہ ہو، تو جو روزہ رکھا ہے وہ صحیح ہو جائے گابلکہ اگر رمضان ہونا ثابت ہو جائے تو اصح قول کے مطابق رمضان کا روزہ ادا ہو جائے گا، بہ شرط یہ کہ روزے دار مقیم ہو۔ اگر مسافر ہو تو مطلقاً جس واجب کا روزہ رکھا ہے، وہ صحیح ہو جائے گا۔ رہا نفلی روزہ رکھنا-تو اگر صائم کا تعلق خواص میں سے ہو یعنی ایسا شخص جو روزے کے نفل یا فرض ہونے میں تردد کا شکار نہ ہو،، تو اس کے لیے اس دن نفلی روزہ رکھنا جائز بلکہ مندوب ہے، ورنہ مکروہ-البتہ اگر کوئی شخص کسی دن روزہ رکھنے کا عادی ہو اور وہ یومِ شک میں پڑ جائے، تو کراہت نہ ہوگی۔ جیسے کوئی شخص ہر سنیچر یا پیر کے دن روزہ رکھتا ہو اور پیر یومِ شک کو واقع ہو، تو اس میں کوئی کراہت نہ ہوگی۔ قال الحنفیۃ: لا یصام یوم الشک لغیر النفل، فاذا صامہ عن واجب آخر غیر رمضان کرہ و وقع عما صامہ اذا لم تثبت رمضانیۃ بعد ذلک، فان تثبت صح عن رمضان فی القول الاصح، ان کان الصائم مقیماً، فان کان مسافراً صح عن الواجب الذی صامہ مطلقاً۔ اما صوم نفلاً، فان کان الصائم من الخواص- وھم الذین یستطیعون الجزم بصومہ نفلاً- جاز بل ندب، وان کان من غیر الخواص الذین یترددون فی الجزم بصومہ نفلاً کرہ، الا ان یوافق صوماً اعتادوہ من قبل فلا کراھۃ، کمن اعتاد صوم یوم الاثنین یوم الشک، فانہ لا کراھۃ۔(الموسوعۃ الفقہیۃ الکوتیۃ)

عام مسلمان کے لیے افضل عمل

عام مسلمان کے لیے افضل یہ ہے کہ یومِ شک کو زوال کے قریب تک کھانے پینے وغیرہ سے رکا رہے۔ اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ مہینہ ثابت ہو جائے۔ پھر اگر رمضان المبارک ثابت ہو جائے تو اس کے روزے کی نیت کر لے، ورنہ خواص نفل کی نیت کر سکتے ہیں، البتہ عوام اگر پہلے سے اس دن روزہ رکھنے کے عادی ہوں(جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا) تو وہ بھی نفل کی نیت کر لیں، ورنہ اس دن روزے سے گریز کریں۔ والافضل للمسلم ان یمسک یوم الشک الی قرب الزوال لاحتمال ثبوت الشھر، ثم ان ثبت رمضان نواہ عنہ، وان لم یثبت نواہ الخواص نفلاً، اما العوام فان صادف صوماً یصومونہ من سابق نووہ نفلاً ایضاً، والا افطروا فیہ۔(الموسوعۃ الفقہیۃ الکوتیۃ)یہ حکم عوام کے لیے بطریقِ استحباب و افضلیت ہے، بطریقِ واجب نہیں ہے، جیسا کہ خواص کے لیے نفلی روزہ مستحب ہے، واجب نہیں ہے۔(عمدۃ الفقہ)

ایک مسئلہ

شک کے روز چاند کی شہادت کے انتظار میں کھانے پینے وغیرہ منہیات سے رُکنے والے شخص کا دوپہر تک نیت کرنے سے بھول کر کھانا پینا ایسا ہے جیسا نیت کرکے نیت کرنے کے بعد بھول کر کھانا پینا۔ پھر اگر ظاہر ہوا کہ یہ رمضان کا دن ہے اور بھول کر کھانے پینے کے بعد اس نے روزے کی نیت (دوپہر سے پہلے) کر لی، تو جائز ہے۔ اس لیے کہ بھول کر کھانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور یہی صحیح ہے۔ بعض نے کہا کہ جائز نہیں اور بعض نے اس پر جزم کیا ہے، لیکن پہلا قول یعنی جائز ہونا ہی معتمد ہے۔(عمدۃالفقہ)

یومِ شک کا روزہ حرام تو نہیں

مختصر یہ کہ یو مِ شک میں روزہ رکھنا حرام تو نہیں ہے، البتہ بلارؤیتِ ہلال شک وتردد کی صورت میں تیس شعبان کو یکم رمضان سمجھ کر روزہ رکھنا مکروہ (تحریمی) ہے ۔وکرہ فیہ أی یوم الشک کل صوم من فرض وواجب إلا صوم نفل جزم بہ بلا تردید بینہ وبین صوم آخرالخ۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح)

اہلِ کتاب اور روافض کی مشابہت

اگر (یومِ شک میں)یہ پکّی نیت کی کہ رمضان کا روزہ رکھتا ہے تو مکروہِ تحریمی ہے، اس لیے کہ اس میں اہلِ کتاب کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے، کیوں کہ انھوں نے اپنے روزوں میں کچھ دن بڑھا لیے ہیں،اور فتاویٰ قاضی خاں میں ہے کہ شک کے روز رمضان کے روزے کی نیت سے روزہ رکھنے میں روافض کے ساتھ بھی تشبہ پایا جاتا ہے، کیوں کہ وہ رمضان سے ایک روز قبل روزہ رکھتے ہیں۔(ماخوذ از عمدۃ الفقہ)

مختلف صورتوں کا حکم

یومِ شک میں اگر روزہ رکھ لیا تو اس صورت میں نیت کے اختلاف کے باعث مختلف احکام جاری ہوں، جو حسبِ ذیل ہیں؛
۱ اگر مطلق روزے کی نیت یعنی نیت میں کوئی تعین نہیں کیا، تب بھی مکروہ ہے، کیوں کہ مطلق اپنی مقداروں یعنی اپنے تعینات- فرض و واجب وغیرہ- کو شامل ہے۔ پھر اگر ظاہر ہوا کہ وہ دن شعبان کا تھا، تو اس کا روزہ نفل ہو جائے گا اور اگر ظاہر ہوا کہ رمضان کا دن تھا تو رمضان کا روزہ ادا ہوگا۔
۲اگر اصل نیت میں شک کیا یعنی تردیدی نیت کی، مثلاً یوں نیت کی کہ اگر کل رمضان کا دن ہے تو روزہ رکھوں گا اور اگر شعبان کا دن ہے تو روزہ نہیں رکھوں گا، تو اس صورت میں روزے دار نہیں ہوگا۔جیسا کہ اگر یوں نیت کی کہ اگر کل کو کھانا نہ ملا تو روزہ رکھوں گا، ورنہ نہیں، تو یہ شخص روزے دارہ نہیں ہوگا، کیوں کہ اس کے ارادے و نیت میں یقین و عزم نہیں ہے۔ پس اگر اس صورت میں وہ دن رمضان کا ظاہر ہوا تو اس شخص پر اس کی قضا لازم ہے۔ لیکن یہ حکم اس وقت ہے کہ جب کہ اس نے نصف النہار سے پہلے اپنی نیت کی تجدید نہ کی ہو، یعنی نئے سرے سے صحیح نیت نہ کی ہو۔ پس اگر رمضان کے روزے پر پکّا ارادہ رکھتے ہوئے نئے سرے سے دوپہر سے پہلے نیت کر لی جائے، تو جائز ہے اور فرض روزہ ادا ہو جائے گا۔
۳اگر وصفِ نیت میں شک و تردد کیا- مثلاً یوں نیت کی کہ کل رمضان ہے تو رمضان کا روزہ ہے اور اگر شعبان ہے تو دوسرے کسی واجب کا روزہ ہے، یا یوں نیت کی کہ اگر کل کا دن رمضان کا دن ہے تو رمضان کا روزہ ہے اور اگر شعبان کا دن ہے تو نفل روزہ ہے- تو بھی مکروہ ہے، یعنی روزے کی نیت میں یقین پایا جانے کی وجہ سے وہ کراہت کے ساتھ روزہ ادا ہو جائے گا، کیوں کہ اصل نیت میں تردید نہیں ہے بلکہ وصف میں تردید ہے، جو لغو ہو کر اصل نیت باقی رہ جائے گی۔ پس روزے کے وصف میں یعنی فرض اور کوئی دوسرا واجب ہونے میں یا فرض اور نفل میں تردید کی وجہ سے وہ روزہ مکروہ ہوگا، کیوں کہ پہلی صورت میں دو مکروہوں یعنی فرض و واجب ہونے میں یا فرض میں تردید ہے اور دوسری صورت میں مباح کے ساتھ مکروہ یعنی فرض روزے کی نیت ہے اور یہ کراہت تنزیہی ہے، کیوں کہ کراہتِ تحریمی صرف اسی صورت میں ثابت ہوتی ہے جب کہ یہ یقین کیا ہو کہ رمضان کا روزہ ہے اور کسی صورت میں نہیں۔ پھر اگر یہ ظاہر ہو کہ یہ رمضان کا دن ہے تو دونوں مذکورہ صورتوں میں وہ روزہ رمضان کا ادا ہوگا، کیوں کہ اصل نیت موجود ہے اور وہ رمضان المبارک کے روزے میں کافی ہے، اس لیے کہ اس کی نیت میں تعین لازمی نہیں ہے،اور اگر ظاہر ہوا کہ یہ شعبان کا دن ہےتو پہلی صورت میں واجب اس سے ساقط نہیں ہوگا،کیوں کہ تردید کی وجہ سے وصفِ نیت لغو ہو گیا اور اصل نیت کسی واجب روزے کے لیے کافی نہیں ہوتی، بلکہ اس کا تعین لازمی ہوتا ہے اور دونوں صورتوں میں -یعنی رمضان و دیگر واجب یا رمضان و نفل کی تردیدی نیت کرنے میں- وہ روزہ نفل ہو جائے گا، لیکن غیر مضمون بالقضا ہوگا، یعنی اگر اس کو توڑ دے گا تو اس کی قضا لازم نہیں آئے گی۔(ماخوذ از عمدۃ الفقہ)

٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here