بعثتِ نبویﷺ کے مقاصد کو سمجھنے کی کوشش کیجیے!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مقاصد بعثت کو سمجھنے کی کوشش کریں، ندیم احمد انصاری، rasoolullah-s-a-w-ki-baisat-ke-maqasid-ko-samajhne-ki-koshish-karienندیم احمد انصاری
رحمۃ للعالمین حضرت محمدﷺاس عالمِ رنگ و بو میں سراپا رحمت بن کر تشریف لائے، جن کے جود و کرم کی ضیاپاشیاں ہر طرف عام ہیں۔آپ نے جہنم کی طرف جاتی انسانیت کو کمر پکڑ پکڑ کر بچایا۔۔آئیے آج مختصراً اس بات کا ذکر کریں کہ آخر خلاصۂ کائنات، فخرِموجودات، احمد مجتبیٰ، محمد مصطفی ﷺکے اس دنیا میں تشریف لانے کا مقصد کیا تھا؟
حضر ت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا فرمائی تھی:(ترجمہ) اے ہمارے رب! ان میں انھیں میں سے ایک رسول بھیج، جو ان کے پاس آپ کی آیتیں پڑھے، انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انھیں پاک کرے، بے شک آپ بہت زبردست اور حکمت والے ہیں۔(البقرہ)یہ مضمون انھیں الفاظ سے سورۂ آلِ عمران (۱۶۴)اور سورہ جمعہ کی آیات(۲) میں بھی وارد ہوا ہے، جن میں رسول اللہﷺ کے دنیا میں بھیجے جانے کے مقاصد اور آپﷺ کے فرائض و ذمّے داریوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ نیزرسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا:میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس وقت خاتم النبیین ہو چکا تھا، جب کہ حضرت آدم ؑ کا پتلا بھی تیار نہیں ہوا تھا،میں حضرت ابراہیم ؑ کی دعا اور اپنی ماں کے خواب کا ثمرہ ہوں۔ (مسند احمد)حضرت ابو اُمامہؓ نے ایک مرتبہ عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اپنی نبوت کی ابتدا کے متعلق ہمیں کچھ بتلائیے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:میںمیرے والد (جدِّ امجد) حضرت ابراہیم ؑ کی دعا، حضرت عیسیٰ ؑ کی دی ہوئی خوش خبری اور میری ماں کادیکھا ہوا خواب ہوں۔(مسند احمد) آپ کی والدہ کا خواب بھی عرب میں پہلے ہی مشہور ہو گیا تھا اور وہ لوگ کہتے تھے کہ آمنہ کے بطن سے کوئی بڑا شخص پیدا ہوگا، بنی اسرائیل کے نبیوں کو ختم کرنے والا۔حضرت عیسیٰ ؑنے تو بنی اسرائیل کے درمیان خطبہ پڑھتے ہوئے آپﷺ کا مبارک نام بھی لیا تھا اور ارشاد فرمایا تھا کہ لوگو! میں تمھاری طرف اللہ کا رسول ہوں، مجھ سے پہلی کتاب ’توراۃ‘ کی میں تصدیق کرتا ہوں اور میرے بعد آنے والے نبی کی میں تمھیں بشارت دیتا ہوں، جن کا نام’ احمد‘ ہے۔ اس آیت میں کتاب سے مراد قرآن اور حکمت سے مراد سنت و حدیث ہے۔ حضرت حسن، قتادہ، مقاتل بن حیان اور ابو مالک رحمہم اللہ کا یہی فرمان ہے اور حکمت سے مراد دین کی سمجھ بوجھ بھی ہے۔ پاک کرنے سے مراد طاعت و اخلاص کی تعلیم دیناوغیرہ ہے۔(تفسیرابن کثیر)
اس آیت میں پہلی بات قابلِ غور یہ ہے کہ تلاوت کا تعلق الفاظ سے ہے اور تعلیم کا معانی سے، یہاں تلاوت و تعلیم کو الگ الگ بیان کرنے سے یہ حاصل ہوا کہ قرآنِ کریم میں جس طرح معانی مقصود ہیں، اسی طرح اس کے الفاظ بھی مستقل مقصود ہیں۔ ان کی تلاوت و حفاظت فرض اور اہم عبادت ہے۔۔کیوں کہ تلاوت الفاظ کی ہوتی ہے، معانی کی نہیں۔ اس لیے جس طرح رسول کے فرائض میں معانی کی تعلیم داخل ہے، اسی طرح الفاظ کی تلاوت و حفاظت بھی ایک مستقل فرض ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ قرآنِ کریم کے نزول کا اصل مقصد اس کے بتائے ہوئے نظامِ زندگی پر عمل کرنا اور اس کی تعلیمات کو سمجھنا اور سمجھانا ہے، محض اس کے الفاظ رٹ لینے پر قناعت کرکے بیٹھ جانا قرآنِ کریم کی حقیقت سے بے خبری اور اس کی بے قدری ہے لیکن اس کے ساتھ یہ کہنا کسی طرح صحیح نہیں کہ جب تک قرآنِ کریم کے الفاظ کے معانی نہ سمجھے، طوطے کی طرح اس کے الفاظ پڑھنا فضول ہے۔ یہ میں اس لیے واضح کر رہا ہوں کہ آج کل بہت سے حضرات قرآنِ کریم کو دوسری کتابوں پر قیاس کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک کسی کتاب کے معنی نہ سمجھیں تو اس کے الفاظ کا پڑھنا پڑھانا وقت ضائع کرنا ہے، مگر قرآنِ کریم میں ان کا یہ خیال صحیح نہیں ہے، کیوں کہ قرآن الفاظ اور معنی دونوں کا نام ہے، جس طرح ان کے معانی کا سمجھنا اور اس کے دیے ہوئے احکام پر عمل کرنا فرض اور اعلیٰ عبادت ہے، اسی طرح اس کے الفاظ کی تلاوت بھی ایک مستقل عبادت ہے اور ثوابِ عظیم ہے۔یہی وجہ ہے کہ رسولِ کریمﷺ اور صحابہ کرامؓ۔۔جو معانیِ قرآن کو سب سے زیادہ جاننے والے اورسمجھنے والے تھے۔۔انھوں نے محض معنی سمجھ لینے اور عمل کر لینے کو کافی نہیں سمجھابلکہ ساری عمر تلاوتِ قرآن کو حرزِ جاں بنائے رکھا، بعض صحابہؓ کا تو حال یہ تھا کہ وہ روزانہ ایک قرآن مجید ختم کرتے تھے۔۔خلاصہ یہ کہ اس آیت میں فرائضِ رسول بیان کرتے ہوئے تلاوتِ آیات کو مستقل فرض کی حیثیت دے کر اس پر تنبیہ کر دی گئی ہے کہ قرآنِ کریم کے الفاظ کی تلاوت اور ان کی حفاظت اور ان کو ٹھیک اس لب ولہجہ میں پڑھنا، جس پر وہ نازل ہوئے ہیں۔۔ضروری ہے۔
دوسرا فرض تعلیمِ کتاب کو قرار دیا گیااور اس کے ذریعے بتلا دیا کہ محض تلاوتِ آیات کاسُن لینا فہم قرآن کے لیے عربی زبان جاننے والوں کے واسطے بھی کافی نہیںبلکہ تعلیمِ رسول ہی کے ذریعے قرآنی تعلیم کا صحیح علم حاصل ہو سکتا ہے، قرآن کو تعلیماتِ رسول سے جُدا کرکے خود سمجھنے کی فکر خود فریبی کے سوا کچھ نہیں، اگر مضامینِ قرآنی کو بتلانے سکھانے کی ضرورت نہ ہوتی تو رسول کے بھیجنے ہی کی کوئی حاجت نہ تھی، اللہ کی کتاب کسی دوسری طرح بھی انسانوں تک پہنچائی جا سکتی تھی، مگر اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے، وہ جانتے ہیں کہ مضامینِ قرآنی کی تعلیم و تفہیم کے لیے دنیا کے دوسرے علوم و فنون سے زیادہ تعلیمِ استاد کی ضرورت ہے۔۔اس لیے قرآنِ کریم میں رسول اللہﷺ کو دنیا میں بھیجنے کا مقصد یہ قرار دیا کہ وہ قرآنِ کریم کے معانی و احکام کی شرح کرکے بیان فرمائیں، ارشا دہے:(مفہوم)ہم نے آپ کو اس لیے بھیجا ہے کہ آپ لوگوں کے سامنے اللہ کی نازل کی ہوئی آیات کے مطالب بیان فرمائیں۔(النحل) تعلیمِ کتاب کے ساتھ آپ کے فرائض میں دوسری چیز تعلیمِ حکمت بھی رکھی گئی ہے۔نیز اس آیت اور اس کے ہم معنی دوسری آیات میں صحابہ ؓو تابعین ؒنے حکمت کی تفسیر سنتِ رسولﷺ سے کی ہے، جیسا کہ ذکر کیا گیا اورجس سے واضح ہوا کہ رسولِ کریمﷺ کے ذمّے جس طرح معانیِ قرآن کا سمجھانا و بتلانا فرض ہے، اسی طرح پیغمبرانہ تربیت کے اصول و آداب‘ جن کا نام سنت ہے، اُن کی تعلیم بھی آپ کے فرائضِ منصبی میں داخل ہے۔
تیسرا مقصد رسول اللہﷺ کی بعثت کا’تزکیہ‘ ہے، جس کے معنی ہیں’ظاہری و باطنی نجاست سے پاک کرنا‘۔ ظاہر نجاست سے تو عام مسلمان واقف ہیں، باطنی نجاست کفر اور شرک، غیر اللہ پر اعتمادِ کُلّی اور اعتقادِ فاسد نیز تکبر و حسد، بغض اور حبِّ دنیا وغیرہ ہیں۔اگرچہ علمی طور پر قرآن و سنت کی تعلیم میں ان سب چیزوں کا بیان آگیا ہے لیکن تزکیہ جُدا گانہ فرض قرار دے کر اس طرف اشارہ کر دیا گیا کہ جس طرح محض الفاظ کے سمجھنے سے کوئی فن حاصل نہیں ہوتا، اسی طرح نظری و علمی طور پر فن حاصل ہوجانے سے اس کا استعمال اور کمال حاصل نہیں ہوتا، جب تک کسی مربی کے زیرِ نظراس کی مشق کرکے عادت نہ ڈالے۔۔اس لیے کہ خواہ تعلیم کتنی ہی صحیح ہو محض تعلیم سے عادۃً اصلاحِ اخلاق نہیں ہوتی، جب تک کسی تربیت یافتہ مربی کے زیرِ نظر عملی تربیت حاصل نہ کرے۔ عمل کی ہمت و توفیق کسی کتاب کے پڑھنے یا سمجھنے سے پیدا نہیں ہوتی، اس کی صرف ایک ہی تدبیر ہے کہ اللہ والوں کی صحبت اور ان سے ہمت کی تربیت حاصل کرنا، اسی کا نام’ تزکیہ‘ ہے۔
قرآنِ کریم نے تزکیہ کو مقاصدِ رسالت میں ایک مستقل مقصد قرار دے کر تعلیماتِ اسلام کی نمایاں خصوصیات کوبتلایا ہے، کیوں کہ محض تعلیم اور ظاہری تہذیب تو ہر قوم و ملت میں کسی نہ کسی صورت سے کامل یا ناقص طریق پر ضروری سمجھی جاتی ہے، اس میں اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس نے صحیح اور مکمل تعلیم پیش کی، جو انسان کو انفرادی زندگی سے لے کر عائلی پھر قبائلی زندگی اور اس سے آگے بڑھ کر سیاسی و ملکی زندگی پر حاوی اور بہترین نظام کی حامل ہے، جس کی نظیر دوسری اقوام و مِلل میں نہیں پائی جاتی۔
اب اگر اس پر غور کیا جائے کہ آپﷺ نے ان مقاصد کو کس حد تک پورا کیا؟ تو ہر شخص جانتا ہے کہ رسول اللہﷺ کے اس دنیا سے تشریف لے جانے سے پہلے ہی تلاوتِ آیات کا یہ درجہ ہو گیا تھا کہ تقریباً پورے جزیرۃ العرب میں قرآن پڑھا جا رہا تھا، ہزاروں اس کے حافظ تھے جو روزانہ یا تیسرے روز پورا قرآن ختم کرتے تھے، تعلیمِ کتاب و حکمت کا یہ مقام تھاکہ دنیا کے سارے فلسفے قرآن کے سامنے ماند ہو چکے تھے توریت و انجیل کے تحریف شدہ صحائف افسانہ بن چکے تھے، قرآنی اصول کو عزت و شرف کا معیار مانا جاتا تھا، تزکیہ کا عالم یہ تھا کہ ساری بد اخلاقیوں کے مرتکب افراد تہذیبِ اخلاق کے معلم بن گئے تھے، جو رہزن تھے وہ رہبر بن گئے تھے اور چور و ڈاکو لوگوں کے اموال کے محافظ بن گئے تھے۔الغرض! حضرت خلیل اللہ نے جن مقاصد کے لیے دعا فرمائی اور رسولِ کریمﷺ کو جن کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا تھا،وہ تینوں مقصد آپﷺ کے عہد مبارک ہی میں نمایاں طور پر کامیاب ہوئے، پھر آپ کے بعد آپﷺ کے صحابہ کرامؓ نے تو ان کو مشرق سے مغرب اور جنوب سے شمال تک ساری دنیا میں عام کر دیا۔(ماخوذ ازمعارف القرآن،بتغیر)
یہ تاریخی حقائق اور پس منظر ہمارے لیے دعوتِ فکر ہے کہ ہم جو کہ خود کو اسی حبیبِ خدا و خاتم الانبیاء کا نام لیوا اور پیرو کہتے ہیں، جنھیں آپﷺ کا امتی ہونے پر فخر ہے،کیا ہم ان مقاصدِ بعثتِ نبوت کو آج اور تابناکیوں کے ساتھ پورا کرنے کی فکر میں ہیں؟
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here