ترویحے کی مروج دعاؤں سے متعلق وضاحت(پہلی قسط)
ترویحے کی دعائیں
زماہِ رمضان المبارک کے موقع پر شہرمدراس اور جنوبی ہندکی اکثر مساجد میں نماز تراویح کی ہر دو اور چار رکعتوں کے درمیان کچھ دعائیں، تسبیحات اور صلوات کے نام سے پڑھنے کا رواج ہے، یہ تسبیحات اجتماعی طور پر بالجہر بلند آواز سے پڑھنے کا معمول ہے، ملاحظہ کیجئے: ان تسبیحات کو بعینہ آپ کے سامنے نقل کیا جاتا ہے:۱ پہلے دوگانہ کے بعد اس دعا کو ایک مرتبہ پڑھا جاتا ہے۔’’فضل من اللہ ونعمة ومغفرة ورحمة وعافیة وسلامة، لاإله إلا اللہ واللہ أکبر، اللہ أکبروللہ الحمد۔(برخواجهٔ عالم صلوات اللھم صل وسلم وبارك علیه)۲ پہلے ترویحہ کے بعد یہ تسبیح تین بار پڑھی جاتی ہے:اشھد أن لا إله إلا اللہ وحدہ لا شریك له واشھد أن محمدا عبدہ ورسوله،پھر دعا کے بعد اس کو ایک بار پڑھا جاتا ہے، البدر محمد مصطفی صلی الله علیه وآله واصحابه وسلم، والله أکبر الله اکبر، ولله الحمد۔(برخواجہ ٔعالم صلوات) ۳ دوسرے ترویحہ کے بعد یہ تسبیح تین بار پڑھی جاتی ہے:اللّٰھم صل علی محمد وعلی آل محمد، وبارك وسلم وصل علی جمیع الأنبیاء والمرسلین والملٰئکة المقربین وعلی کل ملك برحمتك یا ارحم الراحمین۔پھر دعا کے بعد پڑھتے ہیں:خلیفة رسول الله بالتحقیق خیر البشر بعد الأنبیاء بالتصدیق أمیر المومنین أبوبکر الصدیق لا إله إلا الله والله اکبر الله اکبر ولله الحمد۔ (برخواجۂ عالم…) ۴تیسرے ترویحہ کے بعد یہ تسبیح تین بار پڑھی جاتی ہے: سبحان اللہ والحمدللہ ولاإله إلا اللہ واللہ أکبر ولاحول ولاقوة إلا باللہ العلي العظیم. پھر دعاکے بعد پڑھتے ہیں: مزین المنبر والمحراب أمیر المؤمنین عمر بن الخطاب لاإله إلا اللہ واللہ أکبر، اللہ أکبر وللہ الحمد.(برخواجۂ عالم صلوات…) ۵ چوتھے ترویحہ کے بعد یہ تسبیح تین بار پڑھی جاتی ہے: سبحان اللہ وبحمدہ سبحن اللہ العظیم وبحمدہ استغفر اللہ ربی من کل ذنب وخطیئة وأتوب إلیه۔ پھر دعا کے بعد پڑھتے ہیں:جامع القرآن کامل الحیاء والایمان ذو النورین أمیر المؤمنین عثمان بن عفان لاإله إلا اللہ واللہ أکبر، اللہ أکبر وللہ الحمد.(برخواجۂ عالم صلوات…) ۶ پانچویں ترویحہ کے بعد یہ تسبیح تین بار پڑھی جاتی ہے: استغفر اللہ، استغفر اللہ استغفر اللہ العلی العظیم الذی لااله الا ھو الحي القیوم، غفار الذنوب، ستار العیوب، علام الغیوب، کشاف الکروب، یا مقلب القلوب والابصار وأتوب الیه‘‘پھر دعاکے بعد پڑھتے ہیں:أسد اللہ الغالب مظھر العجائب والغرائب، امام المشارق والمغارب أمیر المؤمنین علی بن أبي طالب لاإله إلا اللہ واللہ أکبر، اللہ أکبر وللہ الحمد۔(برخواجۂ عالم صلوات…)
اس سلسلے میں دریافت طلب امر یہ ہے کہ۱ ان تسبیحات کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا ان تسبیحات کو ترویحات میں پڑھنا درست ہے؟۲ کیا قرآن وحدیث، آثارِ صحابہ؇ وتعاملِ سلف سے ان تسبیحات کا ثبوت ملتا ہے؟ ۳ کیا صحابہ وتابعین اور تبعِ تابعین، فقہائے کرام اور ائمۂ مجتہدین کے مبارک زمانہ میں ان تسبیحات کا رواج رہا؟۴ اگر نہیں، تو یہ کس کی ایجاد ہے؟اور اس کا رواج مسلمانوں کے درمیان کب سے شروع ہوا؟ ۵ مصلیوں کو ان ہی تسبیحات کا پابند بنانا کیسا ہے؟۶ کیا یہ تسبیحات تراویح کے لیے جزوِ لازم ہیں؟۷ ان تسبیحات کو ترک کر دینے پر اعتراضات کرنا اور اختلافات پیدا کرنا اور اس رواج کو برقرار رکھنے پر اصرار کرنا شرعاً کیسا ہے؟۸ ان تسبیحات کے بغیر تراویح کو ناقص ونامکمل سمجھنا کیساہے؟۹ تراویح کے سلسلہ میں قرآن وحدیث اور آثارِ صحابہ؇ سے کیا کوئی خاص دعاء یا کوئی مخصوص تسبیح منقول ہے؟۱۰ اگر قرآن وسنت سے کوئی تسبیح اور دعاء منقول ہو تو اس کو کس طرح پڑھا جائے؟ کیا اجتماعی طور پر بلند آواز سے یا انفرادی طور پر الگ الگ آہستہ آواز سے؟ ان دونوں میں افضل اور اولیٰ طریقہ کونسا ہے؟ وضاحت بیان فرمائیں۔۱۱ ہر چار رکعت (ترویحہ) کے بعد دعا کرنا کیسا ہے؟ کیا ہر ترویحہ پر دعا ضروری ہے؟ یا آخر میں صرف ایک مرتبہ دعا کرلینا کافی ہے؟ گزارش ہے کہ مندرجۂ بالا سوالات کے سلسلہ میں شرعی احکام کی وضاحت فرمائی جائے۔
لتراویح کے متعلق اس طرح کے ایک سوال کے جواب میںحضرت اقدس مولانا مفتی سید عبدالرحیم صاحب تحریر فرماتے ہیں: یہ سب باتیں سنت کے مطابق نہیں ہیں؛ رسمی ورواجی ہیں، لہٰذا قابلِ ترک ہیں۔ دو رکعت پر ترویحہ نہیں ہے، البتہ چار رکعت کے بعد ترویحہ ہے اور اس قدر بیٹھنے کا حکم ہے کہ نمازیوں پر بار نہ گذرے۔ اور اس میں اجتماعی ذکر اور دعا نہیں ہے، لوگ انفرادی طور پر جو چاہیں پڑھیں، چاہے تلاوت کریں یا نفل پڑھیں یا ذکر واذکار میں مشغول رہیں یا درود شریف پڑھتے رہیں یا خاموش بیٹھے رہیں۔ سب جائز ہے۔ ایک چیز کا سب کو پابند بنا دینا شریعت کی دی ہوئی آزادی پر پابندی لگانا ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ۴/۳۹۰،۳۹۱)
جاری