مفتی ندیم احمد انصاری
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس دنیا میں -جو کہ دارالاسباب ہے-ایسا نظام بنایا ہے کہ ہر انسان کو دوسرے انسانوں کی ضرورت پڑتی رہتی ہے، بلکہ بہت سی صورتوں میں تو دیگر مخلوق کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ انسان چوں کہ سوچتا سمجھتا ہے یا اس کی حِسّ دیگر مخلوقات سے زیادہ ہوتی ہے، اس لیے انسان کو انسان کا احسان ماننے اور اس کا شکر ادا کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔ خالقِ کائنات کا شکر ادا کرنے کے ساتھ یہ بھی ضروری قرار دیا گیا کہ انسان بندوں کا بھی شکر ادا کرے۔ صاف صاف کہہ دیا گیا کہ جو انسان بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا، وہ گویا اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔ مطلب یہ ہے کہ جس شخص کی طبیعت میں بندوں کی ناشکری ہو، وہ اللہ کی بھی ناشکری کرتا ہے، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ ایسے بندوں کا شکر قبول نہیں کرتا، جو بندوں کے احسانات کا شکر ادا نہیں کرتا۔
بندوں کا شکر
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: وہ شخص اللہ کا شکر گزار نہیں ہوسکتا جو بندوں کا شکر گزار نہ ہو۔[ابوداود] حضرت ابوسعید ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے لوگوں کا شکر ادا نہیں کیا، اس نے اللہ کا شکرادا نہیں کیا ۔[ترمذی ] اس لیے اللہ و رسول اللہ ﷺ کا حکم مان کر ہمیں ہر اس انسان کا شکر ادا کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے جس نے ہم پرکوئی بھی احسان کیا ہو، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا۔
والدین کا شکر
والدین کو ربِ مجازی کہا گیا ہے اور ارشاد فرمایا گیا: وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ ۚ حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰي وَهْنٍ وَّفِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے بارے میں یہ تاکید کی ہے-(کیوں کہ) اس کی ماں نے اسے کم زوری پر کم زوری برداشت کر کے پیٹ میں رکھا، اور دو سال میں اس کا دودھ چھوٹتا ہے-کہ تم میرا شکر ادا کرو اور اپنے ماں باپ کا، میرے پاس ہی (تمھیں) لوٹ کر آنا ہے۔ [لقمان] اللہ تعالیٰ نے پہلے تو یہ بیان فرمایا ہے کہ ہم نے ہی انسان کو یہ تاکید کی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے والدین کا بھی شکر ادا کرے، کیوں کہ اگرچہ اسے پیدا تو اللہ تعالیٰ نے کیا ہے لیکن ظاہری اسباب میں والدین ہی اس کا سبب بنے ہیں، پھر والدین میں سے بھی خاص طور پر ماں کی مشقتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ کتنی محنت سے اس نے بچے کو پیٹ میں اٹھائے رکھا اور دو سال تک اسے دودھ پلایا، اور بچے کی پرورش میں دودھ پلانے کا زمانہ ماں کے لیے سب سے زیادہ محنت کا ہوتا ہے، اس لیے ماں بہ طور خاص اولاد کی طرف سے اچھے سلوک کی مستحق ہے، لیکن اس اچھے سلوک کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان اپنے دین اور عقیدے کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے کے بجائے ماں باپ کا حکم ماننا شروع کردے، اسی لیے اس آیت میں والدین کا شکر ادا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنا شکر ادا کرنے کی تاکید فرمائی ہے، کیوں کہ والدین تو صرف ایک ذریعہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کی پرورش کے لیے پیدا کردیا ہے، ورنہ خالقِ حقیقی تو خود اللہ تعالیٰ ہیں، لہٰذا ایک ذریعے کی اہمیت کو خالقِ حقیقی کی اہمیت سے بڑھایا نہیں جاسکتا۔ [توضیح القرآن]
حضرت مغیرہ بن شعبہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی، لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا، حقوق ادا نہ کرنا اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا حرام، نیز تمھارے لیے فضول گفتگو کرنا، کثرت سے سوال کرنا اور مال کو ضایع کرنا ناپسندیدہ قراردیا ہے۔[بخاری]نیز حضرت عبداللہ بن عمروؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی رضا والد کی رضامندی میں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔[ترمذی]
استاذ کا شکر
معاشرے میں استاذ کا شکر بھی کم ہی ادا کیا جاتا ہے، اگر اس کی فیس ادا کی جاتی ہوپھر تو گویا کوئی احسان مانا ہی نہیں جاتا، جب کہ استاذ باپ کی طرح ہوتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ۚ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍحقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان اُنھیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انھیں پاک صاف بنائے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے، جب کہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناً کھلی گم راہی میں مبتلا تھے۔ [آلِ عمران]اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بعثتِ نبوت کے جو مقاصد ارشاد فرمائے ہیں، علومِ نبوت کا سچّا وارث اور حقیقی استاذ یہ تمام فرائض انجام دیتا ہے۔ نیز حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تمھارے لیے ایسا ہی ہوں جیسا باپ اپنے بیٹے کے لیے، میں تمھیں تمام امور کے متعلق تعلیم دیتا ہوں (یہاں تک کہ ) جب تم قضاے حاجت کے لیے جاؤ تو قبلے کی طرف منھ یا پیٹھ نہ کرو، اور تین پتھر استعمال کرنے کا حکم دیا، اور گوبر اور ہڈی استعمال کرنے اور دائیں ہاتھ سے استنجا کرنے سے منع کیا۔[ابن ماجہ]اس حدیث میں معلمِ انسانیتﷺ نے اپنی ذات کو امت کے حق میں استاذ کی حیثیت سے پیش کیا۔مذکورہ بالا آیت اور اس حدیث کو ملا کر یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ استاذ شاگرد کے لیے باپ کی مانند ہے، بلکہ بعض مرتبہ حقیقی والدین تو صرف دنیا میں لانے کا ذریعہ بنتے ہیں اور استاذ آخرت بناتا ہے۔
شوہر کا شکر
بیویاں اکثر شوہر کا شکر ادا کرنے سے گریز کرتی ہے۔ حضرت ابوسعید خدریؓسے روایت ہے، ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ عیدالاضحی یا عیدالفطر میں نکلے، (واپسی میں) عورتوں کی جماعت پر گزر ہوا تو آپﷺ نے فرمایا: اے عورتو ! صدقہ دو ، اس لیے کہ میں نے تمھیں دوزخ میں زیادہ دیکھا ہے۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایسا کیوں ؟ آپﷺ نے فرمایا: تم کثرت سے لعن طعن کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو ۔[بخاری] حضرت ابن عباسؓکہتے ہیں، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو میں نے اس میں زیادہ تر عورتوں کو پایا، وجہ یہ ہے کہ وہ کفر کرتی ہیں۔ عرض کیا گیا: کیا اللہ کا کفر؟ آپﷺ نے فرمایا: شوہر کا کفر کرتی ہیں اور احسان نہیں مانتیں،اگر تم کسی عورت کے ساتھ ایک لمبے زمانے تک احسان کرتے رہو، اس کے بعد کوئی بات تم سے (خلاف) دیکھ لے، تو فوراً کہہ دے گی کہ میں نے تم سے کبھی کوئی بھلائی نہیں پائی۔[بخاری]
بیوی کا شکر
شوہر کو بھی بہت کم یہ توفیق ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کا شکر ادا کرے، اکثر شوہر ساری زندگی بیوی سے فایدہ اٹھانے کے باوجود کبھی اس کے لیے شکریے کا کوئی کلمہ زبان سے نہیں نکالتے۔ یاد رہنا چاہیے کہ حضرت عائشہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو، اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے زیادہ بہتر ہوں، الحدیث۔[ترمذی] شوہر کبھی بیوی کی چھوٹی چھوٹی سی بات کو دل سے لگا کر بیٹھ جاتا ہے اور اس کا شکر ادا نہیں کرتا، جب کہ حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی مومن مرد کسی مومن عورت کو دشمن نہ رکھے، اگر کوئی ایک عادت اسے ناپسند ہوگی تو اس کی دوسری عادت سے خوش ہوجائے گا، یا اس کے علاوہ اور کچھ فرمایا۔[مسلم]
شکر ادا کرنے کا طریقہ
آخر میں اس کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ بندوں کا شکر ادا کیسے کیا جائے؟ یہاں اس سلسلے کی تین احادیث پیش کی جا رہی ہیں، جن میں بندوں کا شکر ادا کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے:
محسن کے لیے دعا کرے
حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (۱)جو شخص اللہ کے نام پر پناہ طلب کرے تو اس کو پناہ دو (۲)جو شخص اللہ کے نام پر تم سے کچھ مانگے اس کو عطا کرو (۳)جو شخص تمھاری دعوت کرے، اسے قبول کرو (۴)جو شخص تمھارے ساتھ احسان کا معاملہ کرے، اسے اس کا بدلہ دو، اگر اس کا بدلہ چکانے کی طاقت نہ ہو تو اس کے حق میں دعاے خیر کرتے رہو، یہاں تک کہ تم محسوس کرو کہ اس کا بدلہ پورا ہوگیا۔[ابوداود]
محسن کوجَزَاكَ اللهُ کہے
حضرت اسامہ بن زیدؓسے روایت ہے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کے ساتھ نیکی کا سلوک کیا گیا اور اس نے نیکی کرنے والے سے کہا-جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا: اللہ تعالیٰ تمھیں اچھا صلہ دے-اس نے پوری تعریف کی۔[ترمذی]
محسن کی تعریف کرے
حضرت جابرؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر کسی شخص کو کوئی چیز دی گئی اور اس میں قدرت واستطاعت ہو تو اس کا بدلہ دے، ورنہ اس کی تعریف کرے، اس لیے کہ جس نے تعریف کی، اس نے شکر ادا کیا اور جس نے کسی نعمت کو چھپایا اس نے ناشکری کی، اور جس شخص نے کسی ایسی چیز سے اپنے آپ کو آراستہ کیا جو اسے عطا نہیں کی گئی تو گویا اس نے مکر کا لباس اوڑھ لیا۔[ترمذی]