اللہ تعالیٰ اپنے فضل و احسان سے جب کسی مسلمان کو حرمین شریفین کی حاضری کی سعادت مقدر فرمائے-حج کی صورت میں ہو یا عمرے کی صورت میں-اسے چاہیے کہ جانے سے پہلے مناسک اور حاضری کے آداب سیکھ لے اور ان پر عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ دربارِ خداوندی یا دربارِرسول میں یوں ہی منھ اٹھا کر چلے جانا سخت بےادبی ہے۔ جس طرح پاسپورٹ بنوانے اور ویزا لگوانے کے بعد اپنی راحت کا بندوبست کیا جاتا ہے اور اچھے سے اچھے ہوٹل وغیرہ میں قیام و طعام کا نظم کرنے کے لیے موٹی رقم خرچ کی جاتی ہے، اس ساری تگ و دو کو ضایع ہونے سے بچانے کے لیے کچھ رقم کسی معتبر عالم و مفتی کی خدمت میںپیش کر کے اس کا کچھ وقت حاصل کرنا اور اس سے درخواست کرنا چاہیے کہ وہ مختصر وقت میں ضروری مسائل سکھا دے۔
مسائل سیکھے بغیر حج و عمرہ کرنا
بہت سے لوگ مسائل سیکھے بغیر حج و عمرے کے لیے چلے جاتے ہیں، بعض ایک دن پہلے پوچھتے ہیں کہ آیندہ کل ہمارا سفر ہے کیا کیا کرنا ہے؟کچھ بتا دیجیے! جب کہ رسول اللہﷺنے مناسک سیکھنے کی خصوصی تاکید فرمائی ہے۔حضرت جابرؓسے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو قربانی کے دن اپنی سواری پر بیٹھ کر کنکریاں مارتے ہوئے دیکھا، آپ ﷺ فرما رہے تھے :تم مناسک سیکھ لو ، اور فرمایا:مجھے معلوم نہیں، شاید میں اپنے اس حج کے بعد حج نہ کرسکوں۔عَن جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَرْمِي عَلَى رَاحِلَتِهِ يَوْمَ النَّحْرِ، يَقُولُ: لِتَأْخُذُوا مَنَاسِكَكُمْ فَإِنِّي لَا أَدْرِي لَعَلِّي لَا أَحُجُّ بَعْدَ حَجَّتِي هَذِهِ. [ابوداود]
علامہ نوویؒ فرماتے ہیں: جس نے اس میں کوتاہی کی، ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ بغیر حج ادا کیے ہی واپس آئے گا، کیوں کہ لاعلمی اور عدم معرفت کی بنا پر کوئی رکن یا شرط یا اس کے مثل کسی چیز میں خلل ہو سکتا ہے ۔ بہت سے لوگ بغیر مناسک سیکھے وہاں پہنچ جاتے ہیں اور مکہ کے عوام کی تقلید کرنے لگتے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ اُنھیں مناسک کا علم ہے اور دھوکے میں پڑ جاتے ہیں، یہ سخت غلطی ہے۔وَمَنْ أَخَلَّ بِهَذَا خِفْنَا عَلَيْهِ أَنْ يَرْجِعَ بِغَيْرِ حَجٍّ، لإِخْلاَلِهِ بِشَرْطٍ مِنْ شُرُوطِهِ أَوْ رُكْنٍ مِنْ أَرْكَانِهِ، أَوْ نَحْوِ ذَلِكَ، وَرُبَّمَا قَلَّدَ كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ بَعْضَ عَوَامِّ مَكَّةَ وَتَوَهَّمَ أَنَّهُمْ يَعْرِفُونَ الْمَنَاسِكَ فَاغْتَرَّ بِهِمْ، وَذَلِكَ خَطَأٌ فَاحِشٌ. [الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ]
معلّم پرزیادہ اعتماد کرنا
بہتر یہ ہے کہ کسی مفتی یا عالم کی معیت میں یہ مبارک سفر کیا جائے تاکہ ہر وقت اس سے استفادہ اور رہنمائی حاصل کی جا سکے، ورنہ کم از کم ان کے رابطے میں ضروری رہے۔ وہاں جو معلّم ہوتے ہیں ان میں سے اکثر کم علم بلکہ جاہل ہوتے ہیں، وہ اکثر مسائل بلاتحقیق، اپنی رائے سے اور غلط بتاتے ہیں، یہ باتیں ہم نے پہلے پڑھی اور سنی تھیں، حال ہی میں اس کا تجربہ بھی ہو گیا۔ اسی لیے علما نے لکھا ہے کہ مناسک کے متعلق معتبر جامع اور واضح کتابیں اس مبارک سفر میں اپنے ساتھ رکھے اور ان کا ہمیشہ بار بار مطالعہ کرتا رہے اورجو بات سمجھ میں نہ آئے کسی معتبر عالم سے سمجھ لیا کرے ، معمولی لکھے پڑھے اورعام لوگوں پر بھروسہ نہ کرے ، بلکہ مکہ معظمہ میں جو معلم لوگ حج کرانے والے ہوتے ہیں ان پر بھی اعتماد نہ کرے کیوں کہ یہ لوگ اکثر مسائلِ حج سے پوری طرح واقف نہیں ہوتے اور اگر ان کو وہ مسائل معلوم بھی ہوں تو اہتمام نہیں کرتے، اس لیے جہاں تک ہوسکے مسئلے کی تحقیق کسی معتبر عالم سے ہی کیا کرے اور ہوسکے توایسے عالم کی صحبت اختیار کرے جو اس کو مسائل سکھاتا رہے۔[عمدۃ الفقہ]
زمزم سے وضو کرنا
مکہ مکرمہ میں بعض لوگوں کو دیکھا کہ زمزم سے وضو کر لیتے ہیں، جو شخص باوضو اور پاک ہو وہ اگر محض برکت کے لیے زمزم سے وضو یا غسل کرے تو جائز ہے، لیکن بے وضو شخص کا زمزم سے وضو یا جنبی کا غسل کرنا عام حالات میں جب کہ دوسرا پانی موجود ہو، مکروہ ہے، زمزم نہایت متبرک ہے، اس کا احترام کرنا چاہیے۔(يرفع الحدث) مطلقا (بماء مطلق) … (وماء زمزم) بلا كراهة وعن أحمد يكره. وقال عليه في الرد: (قوله: بلا كراهة) أشار بذلك إلى فائدة التصريح به مع دخوله في قوله وآبار وسيذكر الشارح في آخر كتاب الحج أنه يكره الاستنجاء بماء زمزم لا الاغتسال. اهـ. فاستفيد منه أن نفي الكراهة خاص في رفع الحدث بخلاف الخبث. [شامی]
صفوں کے درمیان خالی جگہ رہنا
رسول اللہ ﷺ نے صفوں کو درست کرنے اور خالی جگہ پُر کرنے کی بہت تاکید فرمائی ہے، حرمین شریفین میں لوگ اس کا کم اہتمام کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر مسجد کے اندر یا مسجد کے صحن اور ملحقات میں صفوں کے درمیان خالی جگہ باقی رہ جائے تو اس سے امام کی اقتدا باطل نہیں ہوتی، نماز ہوجاتی ہے، کیوں کہ مسجد اور اس کا صحن ایک مکان کے حکم میں ہے۔وفي المجتبى: وفناء المسجد له حكم المسجد يجوز الإقتداء فيه ، وإن لم تكن الصفوف متصلة ولا تصح في دار الضيافة إلا إذا اتصلت الصفوف، ا هـ . وبهذا علم أن الاقتداء من صحن الخانقاه الشيخونية بالإمام في المحراب صحيح ، وإن لم تتصل الصفوف ؛ لأن الصحن فناء المسجد ، وكذا اقتداء من بالخلاوي السفلية صحيح ؛ لأن أبوابها في فناء المسجد ولم يشتبه حال الإمام ، الخ.[البحرالرائق]
ہوٹل وغیرہ میں امامِ حرم کی اقتدا کرنا
بعض لوگ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں اپنے اپنے ہوٹل وغیرہ میں بلکہ حدودِ حرم میں کہیں بھی صرف لاؤڈاسپیکر کی آواز سن کر حرمین شریفین کے امام کی اقتدا میں نماز ادا کر لیتے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہوٹل یا جہاں آپ نماز ادا کر رہے ہیں وہاں تک صفیں لگی ہوئی ہیں تب تو امام کی اقتدا میں نماز ادا کرنا جائز ہے اور اگر درمیان میں دو صف یا اس سے زائد کا فاصلہ ہے تو امام کی اقتدا میں نماز ادا کرنا جائز نہ ہوگا ،اس قدر فاصلہ اقتدا سے مانع ہوگا۔ولو اقتدی خارج المسجد بإمام فی المسجد: إن کانت الصفوف متصلة جاز، وإلا فلا؛ لأن ذلک الموضع بحکم اتصال الصفوف یلتحق بالمسجد. ھذا إذا کان الإمام یصلی فی المسجد، فأما إذا کان یصلی فی الصحراء: فإن کانت الفرجة التی بین الإمام والقوم قدر الصفین فصاعدا -لایجوز اقتداؤھم بہ؛ لأن ذلک بمنزلة الطریق العام أو النھر العظیم فیوجب اختلاف المکان.[بدائع الصنائع]
سجدۂ تلاوت کی جگہ رکوع میں چلے جانا
ائمۂ حرمین شریفین عموماً جمعے کی فجر میں مسنون قراءت کرتے ہیں، اس میں آیتِ سجدہ آتی ہے، امام آیتِ سجدہ پڑھ کر سجدۂ تلاوت ادا کرتا ہے لیکن بعض نہ جاننے والے رکوع میں چلے جاتے ہیں، انھیں اس وقت دھیان دینا چاہیے، البتہ اگر امام نے آیتِ سجدہ تلاوت کی اور سجدے میں چلا گیا لیکن مقتدی نے امام کے ساتھ سجدۂ تلاوت نہیں کیا تو بھی مقتدیوں کی نماز ہو جاےگی، نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں، اگر قصداً امام کے ساتھ سجدۂ تلاوت نہیں کیا تو توبہ واستغفار لازم ہے۔(ولو تلاها في الصلاة سجدها فيها لا خارجها)؛ لما مر. وفي البدائع: وإذا لم يسجد أثم فتلزمه التوبة.[الدرالمختار]
نمازی کے سامنے سے بےدھڑک گزرنا
جو مسجد چالیس گز (شرعی) اور اتنی ہی چوڑی ہو وہ مسجدِ کبیر ہے، جو اس سے چھوٹی ہو وہ مسجدِ صغیر ہے۔ [فتاوی محمودیہ] اس مسئلے میں مسجدِ حرام کی کوئی تخصیص نہیں، بلکہ دوسری بڑی مساجد کی طرح اس میں بھی نمازی کے مقام سے دو صفوں کی جگہ چھوڑ کر گزرنا جائز ہے، اس حد کے اندر گزرنا جائز نہیں، مگر طواف کرنے والے سجدے کی جگہ کو چھوڑ کر گزر سکتے ہیں۔ اگر شدید مجبوری کی حالت نہ ہو تو اس میں بھی کھلے عام نمازی کے سجدے کی جگہ کے اندر سے گزرنے سے حتی الامکان اجتناب کرنا چاہیے بلکہ اس صورت میں نمازی کے آگے کسی رومال، کپڑے یا چھڑی وغیرہ سے یا کسی دوسرے شخص کو آگے کر کے سترہ بنا کر گزرنا چاہیے، بہ وقتِ ضرورت اس کی گنجائش ہے۔ [احسن الفتاویٰ]
ہوائی جہاز میں نماز قضا یا ترک کر دینا
بعض لوگ حج و عمرے کے مبارک سفر میں بھی نمازوں کا اہتمام نہیں کرتے، ذرا ذرا سی بات یا صرف غفلت کی بنیاد پر ان کی نماز قضا یا ترک ہو جاتی ہے، یہ نہایت ہی افسوس کی بات ہے، جب کہ ائیرپورٹ پر اور بعض ہوائی جہازوں تک میںنمازوں کے لیے انتظام رہتا ہے اور ہوائی جہاز میں فرض، واجب، سنت اور نفل نماز پڑھنا جائز ہے، یہ خیال رہے کہ ہوائی جہاز میں بھی استقبالِ قبلہ اور قیام شرط ہے، ان دو شرطوں میں سے کوئی ایک شرط اگر عذر کے بغیر فوت ہوجائے تو فرض اور واجب نماز ادا نہ ہوگی،نیزاگر ہوائی جہاز میں فرض یا واجب نماز قبلہ رو، کھڑے ہوکر، فرش پر رکوع سجدے کے ساتھ ادا کرنا ممکن نہ ہو تو فی الوقت نمازیوں کی مشابہت اختیار کرے یعنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ہی اشارے سے نماز پڑھ لے، بعد میں اُس نماز کو دوہرا لے۔و في التجنيس:رجل أراد أن يتوضأ فمنعه إنسان عن أن يتوضأ بوعيد، قيل: ينبغي أن يتيمم و يصلي ثم يعيد الصلاة بعد ما زال عنه؛ لأن هذا عذر جاء من قبل العباد فلا يسقط فرض الوضوء عنه، اهـ. فعلم منه أن العذر إن كان من قبل اللہ تعالى لا تجب الإعادة و إن كان من قبل العبد وجبت الإعادة.[البحر الرائق]
[کالم نگار الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے صدر ومفتی ہیں]
جاری۔۔۔