خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ: حیات و ادبی خدمات

ڈاکٹر ندیم احمد انصاری

(صدر شعبۂ اردو، الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن، ممبئی)
خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ غوری اردو کے ممتاز، قادرالکلام اور پُر گو شاعر اور سوانح نگار ہیں، لیکن اُردو زبان و ادب میں انھیں فراموش کر دیا گیا۔ موصوف حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ تھے۔ مقامِ معرفت اپنے بافیض شیخ کے فیض سے حاصل کیااور ان کی مبسوط سوانح بھی قلم بند کی۔ خواجہ صاحب کی تربیت خالص دینی اور مشرقی طرز پر ہوئی اور اعلیٰ تعلیم علی گڑھ کالج میں حاصل کی۔سات برس ڈپٹی کلکٹری کے عہدے پر فائز رہے،پھر اپنا تبادلہ تنخواہ کی کمی کے ساتھ محکمۂ تعلیم میں کرالیا۔ پہلے مکاتبِ اسلامیہ کے ڈپٹی انسپکٹر مقرر ہوئے، پھرانگریزی اسکولوں کے انسپکٹر آف اسکولس(یوپی) مقررہوئے اور پنشن پاکر سبک دوش ہوئے۔سرکاری افسر ہونے کے باوجود اذکار و اشغال کے پابند اور ’خان صاحب‘ اور ’خان بہادر‘ کے القاب سے ملقّب تھے۔ انھوں نے شاعری کو کبھی مشغلہ نہیں بنایا، بعض موقعوں پر اپنے شیخ سے شاعری ترک کرنےکا مشورہ بھی کیا، لیکن انھوں نے شاعری کو چھوڑا اور نہ شاعری نے انھیں۔خواجہ صاحب کی شاعری تصنع سے پاک اور فطری تھی۔
خواجہ صاحب کی تاریخِ پیدائش ۱۹؍ شعبان المعظم ۱۳۰۱ ھ، مطابق ۱۲؍ جون ۱۸۸۴ ء اور تاریخی نام ’مرغوب احمد‘ ہے ۔والد مرحوم اپنے کو شیخ لکھا کرتے تھے اور اکثر اہلِ برادری میں ناموں کے ساتھ بزرگوں کے زمانے سے ’شیخ‘ لفظ استعمال ہوتا رہا۔ والدہ صاحبہ قاضیوں کے خاندان کی تھیں۔
خواجہ صاحب نے لکھا ہے کہ میرے اہلِ خاندان اپنے آپ کو خواجہ غوری اس لیے کہتے ہیں کہ ہمارے اجداد میں سے بہ عہدِشاہ ہمایوں ایک صاحب اِلٰہ دادابن خواجہ غوری تھے، جن کا کتبہ ہمارے قصبے کی مسجد میں بہ حیثیت بانی مسجد کے لگا ہوا ہے اور اُنھیں کے نام سے ہماری آبائی جائیداد ’تھوک الٰہ داد‘ کہلاتی ہے اور یہی نام اس جائیداد کا کاغذاتِ دیہی میں بھی درج ہے، نیز جس محلّے میں ہم لوگ رہتے ہیں وہ محلّہ بھی ’غوری پاڑہ‘ کے نام سے مشہور چلا آتا ہے۔
اپنے قصبے کا ذکر کرتے ہوئے خواجہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں کا قصبہ ’آصف آباد‘ عرف ’ندبئی‘ بھی -جوراج پوتانہ کی ریاست ’بھرت پور‘ میں واقع ہے-  حسبِ اخبار و آثار سلطان شہاب الدین غوری فاتحِ ہندوستان کے زمانے سے آباد ہے۔ چناں چہ میں نے ایک ثقہ اہلِ وطن سے یہ روایت سُنی تھی کہ جب سلطان شہاب الدین غوری نے راجپوتانہ کا یہ حصہ فتح کیا تو اُن کے ہم راہی لشکری اور اُمرا اسی نواح میں بارہ مختلف مقامات پر آباد ہو گئے اور وہ بارہ بستیاں مسلمانوں کی اب تک موجود ہیں، جن میں سے ایک ہمارا قصبہ بھی ہے ، جس میں مختلف قبیلوں کے مختلف محلّے ہیں۔ مثلاً غوری پاڑہ، قاضی پاڑہ، بھیم پاڑہ، سید پاڑہ وغیرہ۔
مزید حالات بیان کرتے ہوئے خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ احقر ابتداء ً ًڈپٹی کلکٹری کے عہدے پر مامور ہوا تھا، پھر سات برس اس عہدے پر رہ کر نصف تنخواہ پر محکمۂ تعلیم میں اپنی خدمات خود درخواست کر کے منتقل کرا لیں، کیوں کہ وہاں فیصلے کرنے پڑتے تھے، لیکن النصیب یصیب۔ الحمد للہ اس محکمے میں بھی ببرکتِ دعائے حضرت والا (مولانا تھانوی) عہدۂ انسپکٹری ترقی پا چکا ہوں، جو محکمۂ تعلیم میں ایک عہدۂ جلیلہ سمجھا جاتا ہے۔ موجودہ مشاہرہ بھی بفضلہٖ تعالیٰ چھے سو ساٹھ (۶۶۰) روپے تک پہنچ چکا ہے اور تیس روپے سالانہ ترقی ہے۔غرض اللہ تعالیٰ اپنے گدھوں کو بھی خشکہ دے رہا ہے۔
الحمدللہ حضرت والا کے فیضِ صحبت اور برکتِ تعلق کی بہ دولت ہمیشہ نہایت تدین اور محنتِ شاقہ کے ساتھ اپنا کارِمنصبی انجام دیا، اس لیے از راہِ قدردانی گورنمنٹ نے حکام کی پرزور سفارشوں پر ’خاں صاحب‘ کا خطاب بھی بلا درخواست دے دیا ہے اور تاج پوشی کے موقع پر تمغہ بھی ملا ہے۔ گو یہ احقر ہرگز کسی قابل نہیں، لیکن محض حضرت والا کے تعلق کی برکت سے بفضلہٖ تعالیٰ دینی اور دنیوی دونوں لحاظ سے لوگ عموماً بہت عزت اور وقعت اور محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جس سے مجھ کو نہایت خجالت ہوتی ہے۔
خواجہ صاحب کو۱۹؍جولائی ۱۹۴۴ء کو امرتسر میں بخار اور سینے میں درد ہوا، اول تو یونانی پھر ڈاکٹری علاج شروع ہوا۔ نمونیہ تجویز ہوا، ضعف کی کوئی انتہا نہ رہی۔ خدا خدا کر کے کچھ افاقہ شروع ہوا۔مولانا محمد حسن صاحب امرتسری نے حقِ تیمار داری ادا کر دیا۔ غرض مرض میں اور ضعف میں تخفیف ہوئی اور افاقۂ کلی نہ ہوا تھا کہ ۵؍اگست ۱۹۴۴ء کو خواجہ صاحب نے وطن کی واپسی کا قصد فرمایا۔مولانا محمد حسن صاحب نے اپنے بھتیجے مولوی محمد عرفان کو ہمراہ کر دیا کہ راستے میں کوئی تکلیف نہ ہو، چناں چہ ۸؍ اگست ۱۹۴۴ء کو خواجہ صاحب اپنے وطن اُورئی پہنچ گئے ۔ وہاں پہنچ کر کچھ راستے کی تکان، کچھ مرض کا بقیہ پہلے سے موجود تھا ہی، اُورئی پہنچ کر بخار بھی عود کر آیا اور سینے کا درد بھی، وہاں بھی علاج ہوتا رہا۔ آخر ۱۷؍اگست ۱۹۴۴ء کو صبح ۹؍بجے چہکتا ہوا بلبلِ چمنستانِ اشرفی اور خسروِ اشرفی اس دارِ فانی سے رخصت ہو کر اپنے محبوب شیخ سے جا ملا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

شاعری

خواجہ صاحب نے تفننِ طبع کے لیے اپنے انداز کی شاعری کی،شاعری میں ان کا کوئی استاذ نہ تھا، البتہ ذوق سلامت اور فطرت سنجیدہ تھی، جس نے کلام میں چار چاند لگا دیے، ہر شخص اپنے مذاق و مزاج کے مطابق ان کے کلام سے محظوظ ہو سکتا ہے۔ صوفیائے عارفین ان کے کلام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور شعرا و اصحابِ ذوق فنِ شعر کی باریکیوں کو سراہتے ہیں۔
خواجہ صاحب صاحبِ دیوان شاعر ہیں، پہلے حسنؔ تخلص کرتے تھے، پھر مجذوبؔہو گئے۔ حمد، مناجات، نعت، مرثیہ، غزل ، نظم مختلف اصناف میںطبع آزمائی کی۔کلام میں لطافت، متانت، روانی، معنی آفرینی، فکر و تخیل سبھی کچھ موجود ہے۔ حضرت تھانوی کے تقریباً دو سو خلفا ہوئے، سبھی مجذوبؔ کا عارفانہ کلام درد و محبت کے ساتھ پڑھا؍سنا کرتے تھے۔ آج بھی مشائخِ سلوک کے یہاں عموماً اور سلسلۂ تھانوی میں خصوصاً مجذوبؔکا کلام انتہائی مقبول ہے۔
قدر مجذوبؔ کی خاصانِ خدا سے پوچھو
شہرۂ عام تو اِک قسم کی رسوائی ہے
بلکہ مولانا انعام الرحمن تھانوی کا بیان ہے:
آپ جس طرح علما اور مشائخ کے طبقے میں اپنے تدین و تقویٰ اور نیک نفسی کے لیے مشہور و متعارف ہیں، اسی طرح ہند و پاکستان کے شعر و ادب کے حلقوں میں بھی اپنی شاعرانہ معراجِ فکر کے باعث پورے طور پر معروف و رو شناس ہیں۔ اربابِ علمِ سلوک اور اصحابِ شعر و ادب ان سے یکساں طور پر واقف ہیں اور وہ دونوں حلقوں میں مقبولیت و عقیدت مندی کی نظروں سے دیکھے جاتے ہیں۔۔۔ وہ بلا امتیازِ مذہب و ملت ہر انسان کے لیے مجذوب ہونے کے باوجود جاذب تھے، ہر ہر مجمع میں ان کی ہستی ایسی نمایاں ہوتی تھی کہ ہر شخص متوجہ ہونے پر مجبور ہوتا تھا۔ وہ بلند اخلاق و وسیع القلب تھے، جس کے سبب ہر شخص گروید ہ (و) متاثر ہوتا تھا۔ بڑے بڑے علما اور معاصر شعرا بھی ان کا ادب و احترام کرتے تھے۔
خواجہ صاحب کا کلام ان کی وصیت کے مطابق اولاً’کلامِ مجذوب‘ کے نام سے شائع ہوا اور پھر ’کشکولِ مجذوب‘ کے نام سے مسلسل شائع ہوتا رہا،اب یہی ان کا کُل شعری جہان ہے، جو سالک و احسان اور محبت و عرفان سے پُر ہے۔
جو مجذوبؔ کا ہے کلامِ محبت
وہ دنیا کو ہے اِک پیامِ محبت
کشکول کی پہلی اشاعت ناسازگار حالات میں ہوئی، اس وقت یہ غنیمت سمجھا گیا کہ جس صورت میں بھی ہو ایک دفعہ شائع ہو جائے۔ اس کے بعدجن لوگوں کے پاس خواجہ صاحب کے کلام کا کوئی قلمی ذخیرہ موجود تھاان سے وہ حاصل کیا گیانیز مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی کے مرتبہ مجموعے ’مجذوب اور ان کا کلام‘کے ایسے حصے کو جو سابق اشاعت میں نہ تھا، اس میں شامل کر لیا گیا اور کثیر ترمیمات و اضافات کے بعد جدید ایڈیشن شائع ہوا۔
مولانا نجم الحسن تھانوی لکھتے ہیں:
خواجہ صاحب کا کچھ کلام تو ان کی حیات میںطبع ہوا، جس میں رسالہ ’نمکدانِ ظرافت‘، ’نفیرِ غیب‘، ’مراقبۂ موت‘، ’دو از دہ اذکارِ عبرت‘، ’جذباتِ مجذوب حصہ اول و دوم‘، ’فریادِ مجذوب‘، ’فغانِ بیوہ‘ وغیرہ شامل ہیں، ان کی وفات کے بعد حضرت مولانا سید ظہور الحسن صاحب نے ایک مجموعہ اس طرح مرتب فرمایا کہ جہاں جہاں سے ان کا کلام ملا، اس کو جمع کر کے چھاپ دیا اور نام اس کا ’کشکولِ مجذوب‘ رکھا۔
پروفیسر شمس الرحمن فاروقی خواجہ صاحب کے کمالِ فن کا اعتراف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
آج کل کے شاعر اس بات کو نہیں سمجھتے کہ شاعر کی ترقی کے دو مدارج ہوتے ہیں؛ پہلا درجہ حکمت کا ہے، جب شاعر علومِ عقلیہ و نقلیہ میں یک گونہ مہارت حاصل کر لیتا ہے اور معاملاتِ دنیا و دین کے باریک امتیازات کو سمجھنے لگتا ہے تو کہا جاتا تھا کہ اسے ’حکمت‘حاصل ہو گئی ہے، اس کے بعد دوسرا درجہ ’کمال‘ کا تھا، یعنی جب شاعر اپنی وہبی اور اکتسابی حکمت کو شعر کی زبان میں ادا کر نے کے لائق ہو جاتا تو کہا جاتا کہ اب وہ ’درجۂ کمال‘ کو پہنچ گیا ہے۔۔۔حضرت مجذوب کا کلام شروع سے آخر تک یکساں ہےاور اس اعتبار سے ان کے دیوان کو اساتذۂ قدیم کے دواوین سے مشابہ قرار دینا چاہیے، حیرت ہوتی ہے کہ معاملاتِ سلوک، سرکاری نوکری کی ذمّے داریوں اور دنیا کے روز مرّہ کاموں میں مصروفیت کے باوجود مجذوب صاحب کا کلام کہیں سے بھی نومشقی یا خام کاری کا پتہ نہیں دیتا، مشکل سے مشکل زمینوں میں طویل سے طویل غزلیں اور نعتیہ نظمیں بھی روانی اورشستگی میں سادہ روزمرّہ پرمبنی غزلوں سے بالکل مختلف نہیں معلوم ہوتیں۔

سوانح نگاری

’اشرف السوانح‘ مصنفہ خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی اولین اور مفصل سوانح حیات ہے، اس پر صاحبِ سوانح نے از خود نظرِثانی کی ہے۔یہ صرف سوانحِ حیات نہیں بلکہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے علمی و روحانی کمالات، مجددانہ کارنامے، اصولِ تربیت و سلوک، عارفانہ نکات، زریں اقوال، مریض و مسموم قلوب کے لیے مسنون و مجرب تعلیمات کا تریاق، حضراتِ سلف کا علمی عملی ذخیرہ اور یادگار، حقیقی اسلام کا مکمل درس اور دنیا و آخرت کے سنوارنے کا مکمل لائحۂ عمل ہے۔
اس طرح یہ ایک اہم، لازوال اور یادگار تصنیف ہے اور یہ اس زمانے کی تصنیف ہے جب کہ اردو زبان میں سوانح نگاری ابتدائی مراحل میں تھی، حالی و شبلی اور ان کے معاصرین اس میں قیمتی اضافے اور تجربے کر رہے تھے۔
علامہ سیدسلیمان ندوی نے خواجہ صاحب اور ’اشرف السوانح‘ کے متعلق لکھا ہے:
ان (خواجہ صاحب)کی سب سے بڑی یادگار اشرف السوانح کی تین جلدیں ہیں، جو بظاہر تو اپنے شیخ کے احوال و سوانح ہیں، مگر درحقیقت اس میں شیخ کے جمیع اصولِ تعلیم و ہدایات و نصائح و وصایا کو اس ترتیب سے جمع کیا ہے کہ وہ سلوک کی بہترین کتاب ہو گئی ہے۔ اشرف السوانح کا چوتھا حصہ جو شیخ کے آخری حالات اور وفات پر مشتمل ہے، شیخ کی وفات کے بعد بڑے سوز و گداز سے انھوں نے لکھا تھا۔

دیگر ادبی خدمات

خواجہ صاحب کی ادبی خدمات میں شاعری اور سوانح نگاری کے علاوہ ایک نصابی کتاب کی ترتیب بھی شامل ہے۔ خواجہ صاحب انسپکٹر آف اسکولس تھے، یہ کتاب اسی سلسلے میں بطور نصاب تیار کی گئی۔یہ کتاب ۳۴۳؍صفحات کو محیط ہے۔
سببِ تالیف بیان کرتے ہوئے شری نرائن چترویدی لکھتے ہیں:
محکمہ توسیع تعلیم یو پی نے گذشتہ دو سال میں تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ لوگوںکو خواندہ بنایا اور ان نوخواندہ لوگوں میں خواندگی قائم رکھنے کے لیے کچھ خاص طرح کی کتابیں تیار کی جا رہی ہیں، لیکن چوں کہ دیہات کے لوگ عام طور پر نظموں اور ترانوں سے زیادہ دل چسپی رکھتے ہیں، اس لیے حکومت ممالک متحدہ کے ایجوکیشن سکریٹری جناب این سی مہتا صاحب آئی سی ایس نے اپنا یہ خیال ظاہر فرمایا کہ مقبولِ عام نظموں اور ترانوں کا ایک عمدہ مجموعہ خاص طور پر نوخواندہ لوگوں کے لیے تیار کیا جائے۔ حسبِ ایما آں جناب میں نے اپنے محترم دوست جناب خواجہ عزیز الحسن صاحب غوری مجذوبؔ سابق انسپکٹر مدارس سے یہ استدعا کی کہ وہ یہ کام اپنے ہاتھوں میںلیں۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ مجذوبؔ صاحب نے میری استدعا قبول کی اور یہ قابلِ قدر مجموعہ تیار کر دیا، جو آپ کے سامنے ہے۔
اس کتاب کی ترتیب میں حامد اللہ افسر میرٹھی اور عبد الرحمن قریشی سب ڈپٹی انسپکٹر مدارس خواجہ صاحب کے معاون رہے۔ کتاب میں درجِ ذیل موضوعات پر نظموں کا عمدہ انتخاب پیش کیا گیا ہے: (۱)حمد باری تعالیٰ (۲)مناجات (۳)نعتِ رسولِ خدا(۴)اخلاق(۵)درسِ عبرت (۶)نصائح(۷)درسِ عمل(۸)حبِ وطن(۹)محبت(۱۰)مناظرِ قدرت(۱۱)ظرافت(۱۲)متفرقات۔ان حصص اور ان میںشامل تخلیقات کو دیکھنے سے  خواجہ صاحب کے ادبی ذوق کی بالیدگی کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ نونہالوں کی ادبی و ذہنی تربیت کے لیے یہ ایک عمدہ انتخاب ہے۔
خواجہ صاحب نے پیش لفظ میںلکھا ہے کہ انتخاب کا معیار میںنے کیا رکھا ہے؟ اس سوال کا جواب مشکل ہے، میں خود نہیں کہہ سکتا کہ میں نے انتخاب میں کیا معیار قائم کیا ہے؟ ہاں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ
جس قدر تنکے مِرے دل میں چبھے
چُن لیے اپنے نشیمن کے لیے
لیکن ایسے تنکے اور بھی لا تعداد تھے اور میرے دل میں چبھنے کی گنجائش بھی بہت تھی، لیکن اس کتاب میں اس سے زیادہ گنجائش نہ تھی۔
ترتیبِ نصاب کے علاوہ خواجہ صاحب انسپکٹر آف اسکولس ہونے کی حیثیت سے جب اسکولوں کا دورہ کرتے، اس وقت بھی طالبِ علموں کی ادبی تربیت کا خاص خیال رکھتےتھے۔ایسے ہی ایک دلچسپ واقعے کے ذکر پر بات کو ختم کیا جاتا ہے۔
ایک اردو اسکول کی کلاس میں معائنہ فرما رہے تھے، کلاس ٹیچر، ہیڈ ماسٹر، ڈپٹی انسکپٹرمدارس سب موجود تھے، ایک طالبِ علم سے درسی کتاب پڑھوائی، لفظ ’یتیم‘ آیا، معنی دریافت فرمائے گئے۔ طالبِ علم نے جواب دیا کہ جس کے باپ زندہ نہ ہوں، اس کو یتیم کہتے ہیں۔ کلاس ٹیچرسے دریافت فرمایا: اس نے بھی یہی جواب دیا۔ہیڈ ماسٹر سے پوچھا، اس نے بھی یہی جواب دیا۔ فرمایا: پھرآپ بھی یتیم ہیں!اس کے بعد فرمایا: میرے بھی باپ زندہ نہیں، میں بھی یتیم ہوں۔ غرض کہ اس جگہ جتنے آدمی ہیں، سب یتیم ہیں!سب سن کر خاموش ہو گئے، شرمندہ ہو کر رہ گئے، پھر فرمایا: جس معصوم، نابالغ کے باپ زندہ نہ ہوں، اس کو یتیم کہتے ہیں، نہ کہ ہم جیسے بن باپ کے بوڑھوں کو۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here