دینی غیرت و حمیت: ضرورت و اہمیت

مفتی ندیم احمد انصاری

غیرت ایمان کا حصہ اور عظیم شے ہے، آج ہمارے قلوب اس سے محروم ہیں اور اسی لیے ہم باطل سے مرعوب ومبہوت ہوتے جا رہے ہیں۔ دین میں بے جا تاویلیں کی جا رہی ہیں اور دعوت میں مصلحت اور مداہنت سے کام لیا جا رہا ہے، اور یہ نبوی پیشین گوئی پوری طرح صادق آرہی ہے؛ حضرت ثوبانؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایاارشاد: قریب ہے کہ تم پر دنیا کی قومیں چڑھ آئیں گی،جیسے کھانے والوں کو کھانے کے پیالے پر دعوت دی جاتی ہے۔ کسی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم اس زمانے میں بہت کثرت سے ہوںگے، لیکن سیلاب کے جھاگ کی طرح۔ اللہ تعالیٰ تمھارے دشمن کے سینوں سے تمھاری ہیبت و رعب نکال دےگا اور اللہ تعالیٰ تمھارے دلوں میں وہن ڈال دےگا۔ کسی کہنے والے نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہن کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے کراہیت۔‏[ابوداود]

اللہ تعالیٰ غیّور ہیں

اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر دینی غیرت و حمیت پیدا کریں۔ مومن کا خدا بھی نہایت غیّور ہے اور رسول و اصحابِ رسول بھی نہایت غیرت والے تھے۔ حضرت اسما بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی بھی اللہ سے بڑھ کر غیرت مند نہیں ہے۔[مسلم] حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے بیان کیا: سب سے زیادہ غیرت مند اللہ کی ذات ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نے بےحیائی کے کاموں کو -جو کھلے ہوں یا چھپے ہوں-حرام کیا ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنی تعریف کو سب سے زیادہ پسند کرتا ہے، اسی لیے اس نے اپنی تعریف کی ہے۔[بخاری]

اللہ تعالیٰ کی غیرت

اللہ تعالیٰ کی ذات ارحم الراحمین نیز تاثرات سے پاک ہے، لیکن بہ وجہ غیرت شرک کا شائبہ تک برداشت نہیں کرتی۔ صاف لفظوں میں فرما دیا:﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا؀﴾ بے شک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور اس سے کم تر ہر بات کو جس کے لیے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے۔ اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے وہ ایسا بہتان باندھتا ہے جو بڑا زبردست گناہ ہے۔ [النساء]ایک جگہ فرمایا: ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۭوَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا؁﴾ بےشک اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور اس سے کم تر ہر گناہ کی جس کے لیے چاہتا ہے بخشش کردیتا ہے۔ اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے، وہ راہِ راست سے بھٹک کر بہت دور جا گرتا ہے۔ [النساء]

اللہ تعالیٰ کی غیرت کیاہے؟

حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ غیرت کرتا ہے اور اللہ کی غیرت یہ ہے کہ کوئی مومن حرام فعل کرے ۔[بخاری] حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے امتِ محمدیہ! جس وقت تم میں سے کوئی مرد یا عورت زنا کرتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کسی کو غیرت نہیں آتی۔ اے امتِ محمدیہ ! جو کچھ میں جانتا ہوں تم وہ جان لو تو ہنسو کم اور روؤ زیادہ۔ [بخاری ]

اللہ کی غیرت جوش میں

عظمت و کبریائی اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں، یہ کسی اور کو زیب نہیں دیتیں۔حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے،رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اللہ عز و جل فرماتے ہیں: تکبّر میری چادر ہے اور عظمت میرا ازار، جو کوئی مجھ سے اس کے بارے میں جھگڑا کرے گا، میں اسے آگ میں پھینک دوںگا۔[ابوداود] مسلم شریف ہے؛حضرت ابوسعید خدریؓاور حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا : عزت اللہ تعالیٰ کا ازار ہے اور بزرگی اس کی چادر ( یعنی یہ دونوں اس کی صفتیں ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) ، جو کوئی ان میں مجھ سے جھگڑےگا، میں اسے عذاب دوںگا۔[مسلم]

حضرت نبی کریم ﷺ کی غیرت

فاطمہ بنتِ اسود مخزومیہ کی چوری ثابت ہو جانے کے بعد حضرت اسامہ بن زیدؓ کے ذریعے جب حضرت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ان کی سفارش کروائی گئی تو رحمۃ للعالمین ہونے کے باوجود آپ ﷺ نے فرمایا تھا: اگر (میری بیٹی) فاطمہؓنے یہ کام کیا ہوتا تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔[بخاری] ایک روایت میں اس طرح ہے کہ حضرت اسامہؓنے حضرت نبی کریم ﷺ سے ایک عورت کی سفارش کی تو آپ نے فرمایا: تم سے پہلی قومیں اس لیے ہلاک ہوئیں کہ وہ چھوٹے لوگوں پر حد جاری کرتے تھے اور بڑے لوگوں کو چھوڑ دیتے تھے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! اگر (میری بیٹی) فاطمہؓیہ کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹتا۔[بخاری]

حضرت ابوبکرصدیقؓکی غیرت

حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی اور حضرت ابوبکرؓخلیفہ ہوئے اور عرب کے بعض قبیلے کافر ہوگئے تو حضرت عمرؓنے کہا: آپ لوگوں سے کس طرح جنگ کریں گے حالاں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جہاد کروں یہاں تک کہ وہ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ کہیں، جس نے لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ کہا اس نے مجھ سے اپنا جان ومال بچالیا، مگر کسی حق کے عوض، اور اس کا حساب اللہ کے ذمّے ہے۔ حضرت ابوبکرؓنے فرمایا: اللہ کی قسم! میں ہر اس شخص سے جہاد کروں گا جس نے نماز اور زکوۃ کے درمیان تفریق ڈالی، زکوۃ تو مال کا حق ہے، اللہ کی قسم! اگر انھوں نے ایک رسّی بھی روکی جو وہ رسول اللہ ﷺکے زمانے میں دیتے تھے تو میں ان سے جنگ کروں گا۔ حضرت عمرؓنے فرمایا: اللہ کی قسم! اللہ نے حضرت ابوبکرؓکا سینہ کھول دیا تھا، پس میں نے بھی جان لیا کہ یہی حق ہے۔ [بخاری]

حضرت عمرؓ کی غیرت

صلحِ حدیبیہ کے موقع پر سہیل بن عمرو رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور کہا: مجھے قریش نے آپ کی طرف اس لیے بھیجا ہے تاکہ میں آپ سے ایسا فیصلہ تحریر کرواؤں جس پر میں اور آپ راضی ہوں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ٹھیک ہے، لکھو: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ راوی کہتے ہیں : سہیل بن عمرو کہنے لگے: میں تو اللہ کو نہیں جانتا اور نہ ہی مجھے رحمن کی معرفت ہے، میں تو اسی طرح لکھوں گا جس طرح ہم لکھتے ہیں یعنی باسمک اللّٰھم۔ لوگوں کو اس بات پر غصہ آگیا اور کہنے لگے: ہم تمھارے ساتھ کسی بھی طرح کا معاہدہ نہیں کریں گے یہاں تک کہ تم رحمٰن و رحیم کا اقرا ر کرو۔ سہیل نے کہا : پھر تو میں تمھارے ساتھ کسی طرح کا معاہدہ نہیں کروں گا اور لوٹ جاؤں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لکھو باسمک اللّٰھم،یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد رسول اللہ نے باہم صلح کی ہے۔ سہیل نے کہا: میں اس بات کا اقرار نہیں کرتا، اگر میں آپ کو اللہ کا رسول جانتا ہوتا تو میں آپ کی مخالفت نہ کرتا اور نہ ہی آپ کی نافرمانی کرتا،میں تو محمد بن عبداللہ لکھوں گا۔ اس بات پر بھی لوگوں کو غصہ آیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تم لکھومحمد بن عبداللہ ۔ اس پر حضرت عمر بن خطابؓکھڑے ہوگئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟کیا ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: کیوں نہیں،ایسا ہی ہے۔ حضرت عمرؓنے عرض کیا: پھر ہم کس بنیاد پر اپنے دین میں یہ بات گوارا کر رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں اللہ کا رسول ہوں اور میں ہرگز اس کی نافرمانی نہیں کروں گا، اور وہ ہرگز مجھے ضایع نہیں ہونے دے گا۔ حضرت ابوبکرؓایک کونے میں بیٹھے ہوئے تھے، حضرت عمرؓان کے پاس پہنچے اور کہا:اے ابوبکرؓ! انھوں نے فرمایا : جی! حضرت عمرؓ نے کہا : کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟ کیا ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے؟ حضرت ابوبکرؓنے فرمایا : کیوں نہیں ،ایسا ہی ہے۔ حضرت عمرؓنے کہا:پھر کس وجہ سے ہم اپنے دین میں یہ بات گوارا کر رہے ہیں؟ حضرت ابوبکرؓنے فرمایا: اے عمرؓ! اپنا یہ خیال چھوڑ دو، اس لیے کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں ؟ اللہ پاک آپ کو ہرگز ضایع نہیں ہونے دیں گےاور آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی ہرگز نافرمانی نہیں کریں گے۔[مصنف ابن ابی شیبہ] اس سے معلوم ہوا کہ ایمانی غیرت و حمیت تو ہونی چاہیے، لیکن اکابر کی موجودگی میں اصاغر کو صرف جذبات میں آکر بھی کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here