مولانا ندیم احمد انصاری
رسول اللہﷺ کی صفات و کمالات کا مکمل بیان کرنا تو کسی انسان کے بس میں نہیں، لیکن اس میں کسی بھی درجے کی کوشش کرنا انتہائی خوش بختی کی علامت اور دنیا و آخرت کی ایسی نعمت ہے‘ جسے حاصل کرنے کی ہر مسلمان کو ہر لمحہ کوشش کرنی چاہیے۔باری تعالیٰ نے آپ ﷺ کو سب سے اکمل، سب سے اجمل، سب سے اعلم، سب سے ارفع، سب سے اعلیٰ سب سے انور، سب سے احسب، سب سے انسب، سب سے افصح نیز زبان و بیان میں جس قدر الفاظ کسی مخلوق کی توصیف میں بیان کیے جا سکتے ہیں،جس قدر آج تک آپﷺ کی تعریف بیان کی گئی، جس قدر آج آپﷺ کی تعریف بیان کی جا رہی ہے اور جس قدر قیامت تک آپﷺ کی تعریف بیان کی جائے گی، جس قدر آپﷺ کی توصیف میں لوگوں نے سوچا، جس قدر آج لوگ آپﷺ کی توصیف کے بارے میں سوچ رہے ہیں اورجس قدر لوگ قیامت تک آپﷺ کی توصیف کے بارے میں سوچیں گے،جس قدر آپﷺ کی بڑائی لکھی گئی، جس قدر آپﷺ کی بڑائی لکھی جا رہی ہے اور جس قدر آپ ﷺ کی بڑائی قیامت تک لکھی جائے گی-آپﷺ کی ذات والا صفات ان سب سے بہت زیادہ بلند و بالا ہے۔ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:إنک لعلیٰ خلق عظیم۔اس وقت رسول اللہﷺ کی چند خصوصیات کا اختصار کے ساتھ بیان کرنا مقصود ہے،کاش خدا قیامت میں کہہ دیں؎جا تجھے بخش دیا تو ہے ثنا خوانِ نبی
حضرت جابرؓسے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا :اے جابر! اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور (کے فیض) سے پیدا کیا۔ ایک حدیث میں فرمایا:بے شک ! میں حق تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین ہوچکا تھا اور حضرت آدم علیہ السلام کا ابھی پتلا بھی تیا ر نہ ہوا تھا۔ (نشرالطیب)نیز آپﷺ کا ارشاد ہے:اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے اسماعیل علیہ السلام کو ،ان کی اولاد میں سے بنی کنانہ کو ، بنی کنانہ میں سے قریش کو، قریش میں سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھے منتخب و قبول فرمایا ہے۔(طبقات ابن سعد) رسول اللہ حضرت محمدﷺ کی نبوت عالمگیر اور آفاقی ہے، جس کے لیے آپﷺ کا انتخاب حضرتِ آدمؑ کی پیدائش سے قبل ہی ہو چکا تھا۔حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت محمد ﷺ کا مبارک نام عرش پر لکھا دیکھا، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو بتایا:اگر محمد نہ ہوتے تو میںتمھیںبھی پیدا نہ کرتا۔رسول اللہ ﷺارشاد فرماتے ہیں:میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ثمرہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دی ہوئی خوش خبری ہوں ۔(نشر الطیب) اسی لیے آپﷺ کو اُن تمام صفات سے متصف کیا گیا تھا، جو کسی مخلوق کے لیے ممکن ہو سکتی ہیں۔بقول شاعر؎
کوئی بہتر ہے تو بہتر سے بھی بہتر تو ہے
سب سے اعلیٰ ہے تری شان رسولِ عربی
حضرت نبی کریمﷺ کو پورے عالم اور اس کی دونوں قوم‘ جنات و انسان کی طرف بھیجا گیا۔ آپﷺ کا اختیار و اقتدار پوری دنیا کی دونوں قوموں پر حاوی فرمایا گیا۔ قرآن مجید نے آپﷺ کی بعثت و نبوت کے عام ہونے کا اعلان اس طرح فرمایا:{قُلْ یٰاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ}آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو! میں اللہ کا رسول ہوں، تم سب کی طرف۔ اللہ وہ ذات ہے، جس کے قبضے میں ہے ‘ملک آسمان اور زمین کا۔(الاعراف)
qاس طرح آپ کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ حضرت نبی کریمﷺ ساری کائنات کے نبی ہیں۔ آپ کو رسول اور رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا گیا، گویا جہاں جہاں خدا کی خدائی رہے گی، وہاں وہاں مصطفیٰ کی مصطفائی رہے گی۔ کوئی اذان اُس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک اُس میں أشہد أن لا الٰہ الّا اللّٰہ کے ساتھ أشہد أن محمداً رسول اللّٰہ نہ کہا جائے۔ کسی کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا، جب تک اللہ کی توحید کے ساتھ آپﷺ کی رسالت کا اقرار نہ کیا جائے۔ کوئی اللہ کا محبوب نہیں بن سکتا، جب تک کہ آپﷺکی کامل اتباع نہ کرے۔
qدوسری خصوصیت خاتم الانبیا کی یہ ہے کہ پچھلے انبیا کی خلافت و نیابت جس طرح خاص خاص ملکوں اور قوموں میں محدود ہوتی تھی، اسی طرح ایک خاص زمانے کے لیے مخصوص ہوا کرتی تھی، جب دوسرا رسول آجاتا توپہلے رسول کی خلافت و نیابت ختم ہوکر آنے والے رسول کی خلافت قائم ہو جاتی تھی۔ ہمارے رسولﷺ کو حق تعالیٰ نے خاتم الانبیاء بنا دیا کہ آپﷺکی خلافت و نیابت قیامت تک قائم رہے گی۔ آپ کا زمانہ بھی کوئی مخصوص زمانہ نہیں، بلکہ جب تک زمین و آسمان قائم رہیں گے اور زمانے کا وجود رہےگا،آپ کی نبوت و رسالت بھی باقی و قائم رہے گی۔
q تیسری خصوصیت رحمۃ للعالمین کی یہ ہے کہ پچھلے انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات و شریعت ایک زمانے تک محفوظ رہتی اور چلتی تھیں، رفتہ رفتہ اُس میں تحریفات ہوتے ہوئے وہ کالعدم ہو جاتی تھیں، اُس وقت کوئی دوسرا رسول اور دوسری شریعت بھیجی جاتی تھی، لیکن آپﷺ کا لایا ہوا دین، آپﷺکی لائی ہوئی شریعت قیامت تک محفوظ رہے گی۔ قرآن مجید‘ جو کہ آں حضرتﷺ پر نازل ہوا، اُس کے الفاظ اور معانی سب کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمّے لی اور ارشاد فرمایاہے:{ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ} ہم نے ہی قرآن نازل فرمایا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔(الحجر:۹)یہی نہیںبلکہ آں حضرت ﷺ کی تعلیمات و ارشادات‘ جنھیں ’حدیث‘کہا جاتا ہے، اس کی حفاظت کا بھی اللہ تعالیٰ نے ایک خاص انتظام فرمایا ہے کہ قیامت تک آپﷺکی تعلیمات و ارشادات کو جان سے زیادہ عزیز سمجھنے والی ایک جماعت ہمیشہ باقی رہے گی، جو آپﷺکے علوم و معارف اور آپﷺکے ارشاد فرمودہ شرعی احکام صحیح صحیح‘ لوگوں کو پہنچاتی رہے گی، کوئی اس جماعت کو مٹا نہ سکے گا، اللہ تعالیٰ کی تائید ِ غیبی ہمیشہ اُن کے ساتھ رہے گی۔ خلاصہ یہ کہ پچھلے انبیاء علیم السلام کی کتابیں اور صحیفے سب مسخ و محرَّف ہو جاتے اور بالآخر دنیا سے گُم ہو جاتے یا غلط سلط باقی رہتے تھے، آں حضرتﷺ کی لائی ہوئی کتاب’قرآن‘ اور آپ کی بتلائی ہوئی ہدایات ’حدیث و سنت‘، سب کی سب اپنے اصل خد وخال کے ساتھ قیامت تک موجود و محفوظ رہیں گی، اسی لیے اس زمین پر آپﷺ کے بعد نہ کسی نئے نبی اور رسول کی ضرورت ہے، نہ کسی اور خلیفۃ اللہ کی گنجائش۔
qچوتھی خصوصیت آں حضرتﷺ کی یہ ہے کہ پچھلے انبیاء کی خلافت و نیابت جو محدود زمانے کے لیے ہوتی تھی، ہر نبی و رسول کے بعد دوسرا رسول من جانب اللہ اور نیابت کا کام سنبھالتا تھا، خاتم الانبیاءﷺ کا زمانۂ خلافت و نیابت تاقیامت ہے، اس لیے قیامت تک آپﷺ ہی اس زمین میں خلیفۃ اللہ ہیں اور آپﷺ کی وفات کے بعد نظامِ عالم کے لیے جو نائب ہوگا، وہ خلیفۃ الرسول اور آپ کا نائب ہوگا۔ صحیح بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: بنی اسرائیل کی سیاست و حکومت اُن کے انبیاء کرتے تھے‘ ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا نبی آجاتا تھا اور خبردار رہو! میرے بعد کوئی نبی نہیں پیدا ہوگا، ہاں میرے خلیفہ ہوں گے اور بہت ہوں گے۔
qپانچویں خصوصیت آں حضرتﷺ کی یہ ہے کہ آپﷺ کے بعد آپ کی امت کے مجموعے کو اللہ تعالیٰ نے وہ مقام عطا فرمایا ہے جو انبیاء علیہم السلام کا ہوتا تھا، یعنی امت کے مجموعے کو معصوم قرار دے دیا کہ آپﷺ کی پوری امت کبھی گمراہی اور غلطی پر جمع نہ ہوگی۔ یہ پوری امت جس مسئلے پر اجماع و اتفاق کرے، وہ حکمِ خداوندی کا مظہر سمجھا جائے گا، اسی لیے کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہﷺکے بعد اسلام میں تیسری حجت اجماعِ امّت قرار دی گئی ہے، کیوں کہ حضرت نبی کریمﷺ کا ارشاد ہےکہ میری امت کبھی گمراہی پر مجتمع نہ ہوگی۔اس کی مزید تفصیل اُس حدیث سے معلوم ہو تی ہے، جس میں یہ ارشاد ہے کہ میری امت میں ہمیشہ ایک جماعت حق پر قائم رہے گی۔ دنیا کتنی ہی بدل جائے، حق کتنا ہی مضمحل ہو جائے، مگر ایک جماعت ہمیشہ حق کی حمایت کرتی رہے گی اور انجام کار وہی غالب رہے گی۔(مستفاد از معارف القرآن)