رمضان المبارک میں دعاؤں کا خصوصی اہتمام کیجیے

ندیم احمد انصاری

ماہِ مبارک جاری ہے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ماہِ رمضان کے قریب ارشاد فرمایا کہ رمضان کا مہینہ آگیا ہے،جو برکت والا ہے!اللہ تعالیٰ اس ماہ میں (خصوصیت سے)تمھاری طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اپنی رحمت نازل فرماتے ہیں،خطاؤں کو بخش دیتے ہیں،دعائیں قبول فرماتے ہیں،تمھارے تَنافُس کو دیکھتے ہیں اور فرشتوں سے فخر فرماتے ہیں،تو تم اللہ تعالیٰ کو اپنی نیکیاں دکھلاؤ۔شقی وبدبخت ہے وہ شخص ،جو اس مبارک مہینے میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم رہ جائے۔(مجمع الزوائد)اور ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا کہ اللہ عز و جل رمضان کی ہر رات میں چھے لاکھ آدمیوں کو دوزخ کی آگ سے آزاد کرتے ہیںاور جب رمضان کی آخری رات ہو تی ہے تواتنے لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دیتے ہیں،جتنے لوگوں کو ایک رمضان سے آخر رمضان تک آزاد کیا ہے(یعنی تقریباً ایک کروڑ اسّی لاکھ لوگوں کو)۔(شعب الایمان بیہقی)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:رمضان کی پہلی رات ہی شیاطین اور سر کش جنوں کو جکڑ دیا جاتا ہے، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، کوئی دروازہ کھلا نہیں رہتا، اسی طرح جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور کوئی دروازہ بھی بند نہیں رہتا اور ایک آواز لگانے والا صدا لگاتا ہے:اے خیر کے متلاشی! آگے بڑھ، اور اے شر پسند باز رہ! اور اللہ تعالیٰ ہر رات لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد فرماتا ہے۔(ترمذی)

دعا ضرور قبول ہوتی ہے

دعا عبادتوں کا مغز بلکہ عین عبادت ہے، اسی لیے اس مبارک اور نیکیوں کے موسم میں جس قدر دعا کا اہتمام کیا جائے باعثِ خیر و برکت ہے۔ رمضان المبارک کے دن و رات میں عاجزی و محتاجگی کے اظہار کے ساتھ خوب دعائیں کرنی چاہئیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ۔اور جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق پوچھیںتو میں قریب ہوں، دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں، جب بھی وہ مجھے پکاریں، انھیں چاہیے کہ میرے احکام مانیں اور مجھ پر بھروسا رکھیں، تا کہ وہ رشد و ہدایت پائیں۔(البقرۃ)علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ وہ اپنے بندوں کے قریب ہے اوردعا کرنے والے کی دعا کوسنتا ہے۔ وہ جب بھی پکارے اللہ تعالی اسے قبول کرتا ہے۔ اس میں اللہ تعالی اپنے بندوں کو ربوبیت کی خبردے رہا ہے اورانھیں اس کا سوال اوران کی دعا کی قبولیت کا شرف بخش رہا ہے، کیوں کہ جب بندے اپنے رب سے دعا کرتے ہیں تو وہ اس کی ربوبیت پر ایمان لا کرایسا کرتے ہیں۔ اس آیت میں پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے عبادت واستعانت میں جس چيز کا حکم دیا ہے، وہ اس میں اس کی اطاعت کرتے ہوئے اس کی بات تسلیم کریں ،دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اوراس کی الوہیت پر ایمان، اوریہ ایمان رکھنا کہ وہ ان کا رب ہے الٰہ ہے ، اوراسی لیے کہا جاتا ہے کہ دعا اس وقت قبول ہوتی ہے، جب اعتقاد صحیح ہو اوراطاعت بھی مکمل پائی جاتی ہو ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے دعا کی آيت کے آخر میں اسے اپنے اس فرمان میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے: {فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي}لہٰذاانھیں چاہیے کہ وہ میری بات تسلیم کریں اورمجھ پر ایمان رکھیں۔( دیکھیے مجموع الفتاوی )

افطاری کے وقت دعا

افطار یعنی روزہ کھولنے کا وقت دعا کی قبولیت اور اجابت کا وقت ہے۔ ابن ماجہؒ نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ روزے دار کے لیے اُس کے افطار کے وقت جو دعا ہے وہ ردّ نہیں کی جاتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ افطار کے وقت دعا و اذکار سے غافل نہیں رہنا چاہیے اور روزے دار کو اس وقت حسبِ منشا دعائیں مانگنی چاہئیں۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ نے روزوں کے احکام کے درمیان میں اس آیت کو ذکر کر کے دعا کرنے کی ترغیب دی ہے، اور رہنمائی فرمائی ہے کہ روزوں کی تعداد پوری ہوتے وقت بلکہ ہر روزے کی افطار کے وقت دعا کریں۔(تفسیر ابن کثیر)اورایک حدیث میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا:یقیناً روزے دار کےلیے افطاری کے وقت کی دعا ردّ نہیں کی جاتی۔ (ابن ماجہ) اورحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: تین آدمیوں کی دعائیں رد نہیں ہوتیں؛ روزے دار کی افطار کے وقت، عادل حاکم کی اور مظلوم کی دعا۔(ترمذی)تاہم ان دعاؤں کی خاص فضیلت و افادیت ہے جو آں حضرتﷺ سے مروی ہیں، ان میں سے ایک دعا یہ ہے جو حضرت معاذ بن زہرہؒ کی روایت میں مذکور ہے؛ اللھم لک صمت وعلی رزقک افطرت۔اس دعا کو افطار کے شروع میں پڑھنا چاہیے، اگرچہ اس روایت کے تحت ملا علی قاریؒ نے ابنِ ملک کا یہ قول نقل کیا ہے کہ آں حضرتﷺ اس دعا کو روزہ کھولنے کے بعد پڑھتے ۔ایک دعا وہ ہے جو حضرت ابن عمرؓ کی روایت میں مذکور ہے، ذھب الذمأ وابتلت العروق، ثبت الاجر إن شاء اللہ۔ اس دعا کو افطار سے فارغ ہونے کے بعد پڑھنا چاہیے۔(دیکھیےمظاہر حق جدید)

وتروں کے بعد جہراً اجتماعی دعا کرنا

بعض مقامات ہر رمضان المبارک میں وتروں کے بعد جہراً اجتماعی دعا کی جاتی ہے، جب کہ دعا میں اصل حکم اخفا کا ہے، تاہم کسی خاص مصلحت سے جہر کی بھی گنجائش ہے، لیکن اس جہر کو ایسا لازم نہ سمجھا جائے کہ جہر نہ کرنے پر امام پر نکیر ہو یا اجتماعی دعا کا ایسا التزام ہو کہ اس میں شرکت نہ کرنے والوں کو ناگوار نظروں سے دیکھا جائے، جیسا کہ جنوب کے بہت سے علاقوں میں اس کا رواج ہے، تو التزام کی ایسی صورت میں پابندی سے جہری دعا سے منع کیا جائے گا، تاکہ لوگ غیر واجب کو واجب نہ سمجھنے لگیں۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: {اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْیَۃً} [الاعراف]۔۔۔من أصر علی أمر مندوب، وجعلہ عزما ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال۔ (مرقاۃ المفاتیح )

طاق راتوں میں تداعی کے ساتھ اجتماعی دعا کرنا

بعض مقامات پر رمضان المبارک میں طاق راتوں کے اندر بہت ہی اہتمام کے ساتھ تہجد میں اجتماعی دعا کا اہتمام ہوتا ہے اور لوگ دور دراز سے اجتماعی دعا میں شرکت کے لیے آتے ہیں، اسی طرح لیلۃ الجائزہ میں بھی بہت اہتمام اور زور شور سے اجتماعی دعا ہوتی ہے،جب کہ ان راتوں میں باقاعدہ تداعی اور اعلان کے ساتھ اجتماعی دعا ثابت نہیں ہے، البتہ اگر تداعی کے بغیر لوگ عبادت یا وعظ ونصیحت سننے کی غرض سے جمع ہوجائیں اور اخیر میں دعا کرلیں، تو اس میں شرعاً حرج معلوم نہیں ہوتا ہے۔(شامی زکریا)

شبِ قدر کی دعا

شبِ قدر میں بھی دعاؤں کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ اس موقع کی ایک خاص دعا بھی حدیث میں وارد ہوئی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ شبِ قدر کون سی رات ہے، تو کیا دعا کروں؟آپ ﷺ نے فرمایا اس طرح دعا کرنا: اللَّهُمَّ إِنَّکَ عُفُوٌّ کَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي۔اے اللہ تو معاف کرنے والا اور معافی کو پسند کرنے والا ہے،مجھے معاف فرما دیجیے۔(ترمذی)

خلاصہ

خلاصہ یہ کہ ماہِ رمضان المبارک دعاؤں کی قبولیت کا خاص مہینہ ہے، اس ماہ میں جس طرح دیگر عبادات میں خوب بڑھ چڑھ کر وقت لگانا باعثِ خیر و برکت ہے، اسی طرح اس میں دعاؤں کی بھی کثرت ہونی چاہیے، اور آخری عشرے اور طاق راتوں میں تو مزید اضافہ ہو جانا چاہیے۔ اپنے لیے، اپنے احباب کے لیے، بلکہ پورے عالَم کے لیے خوب خوب دعائیں کی جائیں، کیوں کہ ان دنوں اور راتوں میں اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں ہوتی ہے اور بخشش کا بہانہ ڈھونڈتی ہے اور بعض دفع تو بے بہانہ بھی عطا کر دیتی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here