سحری کی فضیلت اور اس میں تاخیر کرنا

سحری کی فضیلت اور اس میں تاخیر کرنا
افادات: مفتی احمد خانپوری مدظلہ
عن أنس؄ قَالَ، قَالَ رسولُ اللهﷺ : تَسَحَّرُوا، فَإنَّ فِی السُّحُورِ بَرَكَةً۔(متفقٌ عَلَيْهِ ) (ریاض الصالحین:۱۲۲۹)
حضرت أنس؄سےمنقول ہےکہ نبیٔ کریم ﷺنےارشاد فرمایا: سحری کھاؤ،اس لیے کہ سحری میں برکت ہے۔
سحری کوبرکت والاکھاناکہاگیاہے،اس لیے کہ جوآدمی بغیر سحری کھائے روزہ رکھے گا تب بھی روزہ تو ہوجائے گا،لیکن ہوسکتاہے کہ بغیرسحری کے روزہ رکھنے کی صورت میںکمزوری لاحق ہو،اوراللہ تعالیٰ کے احکام کی بجاآوری میں رکاوٹیں پیداہوں،اس لیےکہ اگر سحری کھالیں گے تو دن بھرقوت رہے گی،اوراللہ تعالیٰ کے احکامات پورے کرنے میں کمزوری رکاوٹ نہیں بنےگی، اور یوں اس کی برکت کا ظہور ہوگا۔دوسرایہ کہ بعض لوگ بھوک کی وجہ سے دوسروں پرگرم ہوجاتےہیں، ان کا مزاج بگڑ جاتاہے،اب اگر سحری کرلیں گےتومزاج کے بگڑنے سے حفاظت ہوگی۔ تیسری بات یہ ہے کہ جب سحری کے ارادہ سے اٹھیں گے تواللہ تعالیٰ دوچار رکعات پڑھنے کی بھی توفیق دیں گے، اس بہانے سے تہجد بھی ہوجائے گی،اورکچھ نہ کچھ دعا بھی ہوجائے گی۔پھراگراس موقع پر کوئی غریب مسکین آجائے گاتواس کے ساتھ بھلائی کرتے ہوئےدوچارلقمہ میںاس کوبھی شریک کرلیںگے توصدقہ کا ثواب بھی مل جائے گا۔ مطلب یہ ہے کہ اس کے طفیل میں بہت ساری بھلائیاں ہوجائیں گی، اس لیے اس کو برکت والاکھاناکہاگیاہے۔
عن زيدِ بن ثابتٍ ؄ قَالَ : تَسَحَّرْنَا مَعَ رسولِ اللهِ ﷺ ثُمَّ قُمْنَا إِلَى الصَّلاَةِ . قِيلَ : كَمْ كَانَ بينهما؟ قَالَ : قَدْرُ خَمْسين آيةً . (متفقٌ عَلَيْهِ )(ریاض الصالحین:۱۲۳۰)
حضرت زیدبن ثابت ؄فرماتے ہیںکہ ہم نے نبیٔ کریم ﷺکے ساتھ سحری کھائی ،پھرہم نمازکے لیے اٹھے۔پوچھاگیاکہ: تمھاری سحری اورنمازکے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟توجواب دیاکہ قرآنِ پاک کی پچاس آیتوں کی مقدار ۔(گویادس پندرہ منٹ)اس سے معلوم ہواکہ سحری بالکل آخری وقت میں کھائی جائے،اوراس میںوہی حکمت ہے جواوپربیان کی کہ روزہ میں زائد وقت لگنے نہ پائے۔
عن ابن عمر؆ قَالَ: كَانَ لرسولِ الله ﷺمُؤَذِّنَانِ ؛ بِلاَلٌ وَابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَقَالَ رسول الله ﷺ: إنْ بِلالاً يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ۔ قَالَ : وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَهُمَا إِلاَّ أنْ يَنْزِلَ هَذَا وَيَرْقَى هَذَا.(متفقٌ عَلَيْهِ ) (ریاض الصالحین:۱۲۳۱)
حضرت عبداللہ بن عمر؆فرماتے ہیںکہ نبیٔ کریم ﷺکے دومؤذن تھے،ایک حضرت بلال اوردوسرے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم؆۔ حضورِاکرم ﷺنے ایک مرتبہ فرمایا کہ بلال رات میں اذان دیتے ہیں(یعنی ان کی اذان ایسے وقت میں ہوتی ہے کہ صبح صادق نہیں ہوئی ہوتی،اس لیے ان کی اذان سن کر کھاناپینابندکرنے کی ضرورت نہیں ،بلکہ) کھاتےپیتے رہویہاںتک کہ ابنِ امِ مکتوم اذان دیں۔اس روایت کے ناقل حضرت ابن عمر؆ فرماتے ہیں کہ دونوں کی اذان میں صرف اتناہی فرق ہوتاتھاکہ ایک اذان دے کر اترتاتھااور دوسرا چڑھتا تھا۔
حضرت بلال؄صبح صادق کودیکھ کراندازہ سےاذان دیتے تھے اورعبداللہ ابن ام مکتوم؄چوںکہ نابیناتھےاس لیےجب تک لوگ باربارکہہ کر ان کو اذان دینے کےلیے تیار نہ کرتے تھے وہاں تک وہ اذان نہیں دیتے تھے،اس لیے حقیقی صبح صادق ہونے کے بعد ہی عبداللہ بن ام مکتوم؄ کی اذان ہوتی تھی۔
ہمارے اوراہلِ کتاب کے روزے میںفرق
عن عمرو بن العاص ؄ أنَّ رسول الله ﷺ قَالَ: فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وصِيَامِ أهْلِ الكِتَابِ ، أكْلَةُ السَّحَر۔(رواه مسلم ) (ریاض الصالحین:۱۲۳۲)
حضرت عمروبن عاص؄فرماتے ہیں کہ نبیٔ کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:ہمارے اوراہلِ کتاب کے روزے میں سحری کھانے کا فرق ہے۔وہ سحری نہیں کھاتے اورہم سحری کھاتے ہیں۔پچھلی مجلس میں بتلادیاتھاکہ ان کے یہاں رات میںجیسے ہی آدمی کی آنکھ لگ جاتی تھی اورروزہ شروع ہوجاتاتھا ،شروع اسلام میں بھی یہی حکم تھا،بعد میں یہ حکم ختم ہوگیا۔
[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here