سیلاب زدہ یا پریشان لوگوں میں قربانی کرنے پر دوہرے ثواب کی امید

مولانا ندیم احمد انصاری

کئی ہفتوں سے بہار کے متعدد اضلاع میں سیلاب کی جو صورتِ حال ہے، اس سے ہر با خبر واقف ہے۔ بعض احباب جو متاثرہ افراد کی خدمت اور باز آبادکاری میں لگے ہوئے ہیں، وہ مسلسل وہاں کی خبریں بہم پہنچا رہے ہیں۔ کس طرح لوگ بے سر و سامان ہو گئے، اسے دیکھ کر کلیجا منھ کو آتا ہے۔ سچ پوچھیے تو اس پَل پَل کی خبر کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کے لیے دعا گو ہوں اور ان کی ہر ممکن مدد کے لیے آگے آئیں۔ یہ اور بات ہے کہ دنیا پرستی نے ایسے نازک حالات میں بھی ہمیں سیلفی اور فُڈ کِٹ کی تصویر کشی میں اس قدر مشغول کر دیا ہے کہ خیال ہوتا ہے کہ شاید دینے والا خدا سے اجر و ثواب پانے کے لیے ثبوت اکٹھے کر رہا ہے۔ خدا نہ کرے کہ ہاتفِ غیبی سے آواز آئے کہ تجھے خبروں میں چھپنا مقصود تھا، وہ ہو چکا، اب اس کا کوئی اجر و ثواب نہیں۔ معاملہ اگر اتنا ہی ہوتا تو بھی آسان تھا، لیکن اگر یہ کہہ دیا گیا کہ تو نے یہ سب اس لیے کیا کہ لوگ تجھے سخی کہیں، تو دنیا میں کہا جا چکا،لیکن تونے نیکی جتا کر جو گناہ کیا، اب اس کی سزا بھگت، تو کیا بنے گا؟ اللہ کی پناہ!اس تمہید کا مقصد کسی کی دل آزاری یا کسی کی ذات کو نشانہ بنانا ہرگز نہیں، بلکہ اس جانب توجہ دلانا ہے کہ ہم نیکی برباد اور گناہ لازم تو نہیں کر رہے!

عید الاضحی قریب ہے، جس میں ہر صاحبِ نصاب مسلمان مرد و عورت پر قربانی واجب ہوتی ہے اور الحمد للہ مسلمان بڑھ چڑھ کر اس فریضے کو ادا کرتے ہیں۔ اس کے لیے عید الاضحی کے موقع پر مختلف مدارس اور دیگر رفاہی اداروں کے سفیر مختلف شہروں میںجاتے ہیں اور قربانی کے لیے رقم جمع کرتے ہیں۔ جو چاہتا ہے ان سے قربانی کی رسید وصول کر انھیں رقم دے دیتا ہے۔ اس موضوع پر ہمارا مدلل و جامع رسالہ – قربانی میں شرکت کے اہم مسائل- جو www.afif.in پر موجود ہے، ایک بار ضرور پڑھ لینا چاہیے۔گذشتہ ہفتے کے کالم میں ہم نے لکھا تھا کہ اصول کی رعایت کے ساتھ اگر یہ اجتماعی قربانیاں کی جائیں تو کوئی حرج بھی نہیں،لیکن تکلیف تب ہوتی ہے جب بعض فراڈ اور دھوکے باز لوگوں کا انکشاف ہوتا ہے کہ وہ بڑے شہروں سے خطیر رقم لے گئے اور لوگوں کی قربانیاں ضایع کر دیں۔ چند ٹکوں کی خاطر ایسا کرنے والے کو دو گناہ ہوں گے؛ایک دھوکا دہی کا، دوسرا قربانی کے فریضے کو ضایع کرنے کا۔اگر رقم وصول کرنے والا دینی مسائل سے باخبر، قابلِ اعتماد اور نیک شخص ہے تو شوق سے اجتماعی قربانی میں حصہ لیجیے۔

اس تفصیل کے بعد عرض یہ کرنا ہے کہ موجودہ حالات میں بہار یا دیگر علاقوں میں جہاں سیلاب سے لوگ پریشان ہیں، ان کے درمیان خاص طور سے اجتماعی قربانیاں کرکے گوشت سے نوازنا وقت کی ضرورت ہے۔ اس میں دوہرے ثواب اور اجر کی امید ہے؛ قربانی کا اور اللہ کے بندوں کے کام آنے کا۔ بس یہ خیال رہے کہ قربانی کے لیےجسے وکیل بنایا جائے وہ قابلِ اعتماد اور خدا کا خوف رکھنے والا ہو۔ اگر آپ کو اس کی امانت و دیانت پر بھروسا ہے، تو رقم اس کے حوالے کرنے میں کوئی مضایقہ نہیں۔ اگر ایسا نہیں تو آپ کی قربانی ہی قربان ہونے کا اندیشہ ہے۔اس وقت بہار کے متعدد اضلاع اور ملک کے جو حصے سیلاب یا اس طرح کی کسی آفت کی زد میں آئے ہوئے ہیں، ان کے درمیان منظم طور پر ایسی قربانی کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔

سچ تو یہ ہے کہ جن کا کُل متاعِ زندگی سیلاب کی نذر ہو گیا، ان کے حق میں یہ بہت حقیر بات ہے۔ لیکن جو بہت کچھ نہیں کر سکتا کیا وہ کچھ بھی نہ کرے؟اگر نیت درست اور اخلاص کامل ہو تو اس قدر کرنے پر بھی خدا کی ذات سے اجرِ عظیم کی امید ہے۔ ان مصیبت زدہ افراد میں گوشت کی تقسیم کے لیے مسلم و غیر مسلم میں تفریق کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔مسئلے کی رو سے ایسا کرنا جائز اور درست ہے۔ سب خدا کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى.اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد (باپ) اور ایک عورت (ماں) سے پیدا کیا ہے۔ (الحجرات: 13) اس لیے اگر وہ آپ کی امداد قبول کرنے پر راضی ہیں تو سب کو خدا کی رضا کی خاطر بلاتفریقِ مذہب و ملت خوب نوازیے۔غیر مسلم اگر فقیر ہو تو ان کو نفلی صدقہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ تالیفِ قلب کی نیت سے تو اس سے زیادہ کی گنجائش نکل سکتی ہے۔

غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دینا

سورۂ حج میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:(مسلمانو) ان جانوروں میں سے خود بھی کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو بھی کھلاؤ۔(الحج)عام قربانی کا گوشت ہو یا خاص حج کی قربانیاں، ان سب کا اصل حکم یہی ہے کہ قربانی کرنے والا خود اور ہر مسلمان غنی یا فقیر اس میں سے کھا سکتے ہیں، لیکن مستحب یہ ہے کہ کم از کم ایک تہائی حصہ غربا فقرا کو دے دیا جائے۔نیز فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ قربانی کا گوشت مال دار یا فقیر مسلمان یا ذمی کو دیا جا سکتا ہے۔(ہندیہ)علامہ ابنِ قدامہؒ نے بھی لکھا ہے کہ یہ جائز ہے کہ اس [قربانی کے گوشت]سے کافر کو کھلایا جائے۔۔۔ کیوں کہ یہ نفلی صدقہ ہے۔ اس لیے یہ ذمی اور قیدی کو کھلانا جائز ہے، جیسے دیگر صدقات انھیں دیے جا سکتے ہیں۔(المغنی)

غیر مسلموں سے نیکی کرنا منع نہیں

قرآن مجید میں فرمایا گیا:اللہ تمھیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ جن لوگوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی، اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا، ان کے ساتھ تم کوئی نیکی یا انصاف کا معاملہ کرو، یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔(الممتحنہ)ایک خاص صورت کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور اگر وہ تم پر یہ زور ڈالیں کہ تم میرے ساتھ کسی کو (خدائی میں) شریک قرار دو جس کی تمھارے پاس کوئی دلیل نہیں تو ان کی بات مت مانو، اور دنیا میں ان کے ساتھ بھلائی سے رہو، اور ایسے شخص کا راستہ اپناؤ جس نے مجھ سے لو لگا رکھی ہو، پھر تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے، اس وقت میں تمھیں بتاؤں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔ (لقمان)اور سیرتِ پاک میں حضرت نبی کریمﷺسے ثابت ہے کہ آپ نے اسماء بنت ابو بکر کو اپنی ماں کے ساتھـ صلہ رحمی کرنے حکم دیا، اور وہ اس وقت کافرہ تھی اور حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنے قریبی کافر کو ایک جوڑا تحفے میں دیا۔

رسول اللہ ﷺ کی تاکید

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے لیے ان کے گھر میں ایک بکری ذبح کی گئی۔ جب وہ آئے تو پوچھا : کیا تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے گھر (گوشت کا) ہدیہ بھیجا ؟ کیا تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے گھر ہدیہ بھیجا ہے ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : مجھے جبرائیل علیہ السلام پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی ہمیشہ تاکید کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ یہ اسے وارث بنادیں گے۔(ترمذی)

قربانی کی فضیلت

عام قربانی کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ عید الاضحی کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل جانور کی قربانی کرنا ہے، یہ قربانی قیامت کے دن اپنے بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گی اور یہ بہت ہی خوشی کی بات ہے کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کردیا جاتا ہے، اس لیے خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔ (ترمذی)جب عام قربانی کی یہ فضیلت ہے تو اندازہ کیجیے کہ جس قربانی میں خدا کی مخلوق کی حاجت براری اور تالیفِ قلب کی نیت بھی شامل ہو، اس کی کتنی فضیلت ہوگی!

٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here