عدالتِ صحابہؓ و مشاجراتِ صحابہؓ اور جمہور امت

مولانا ندیم احمد انصاری

لفظ ’مشاجرۃ‘شجر سے مشتق ہے، جس کے اصل معنی تنے دار درخت کے ہیں، جس کی شاخیں اطراف میں پھیلتی ہیں۔ باہمی اختلافات و نزاع کو اسی مناسبت سے ’مشاجرۃ‘ کہا جاتا ہے کہ درخت کی شاخیں سبھی ایک دوسرے سے ٹکراتی اور ایک دوسرے کی طرف بڑھتی ہیں۔ حضرات صحابۂ کرامؓکے درمیان جو اختلافات پیش آئے اور کھلی جنگوں تک نوبت پہنچ گئی، علماے امت نے ان کو باہمی حروب اور اختلافات کو جنگ و جدال سے تعبیر نہیں کیا، بلکہ از روئے ادب ’مشاجرہ‘ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے، کیوں کہ درخت کی شاخوں کا ایک دوسرے میں گھسنا اور ٹکرانا مجموعی حیثیت سے کوئی عیب نہیں، بلکہ درخت کی زینت اور کمال ہے۔ (مقامِ صحابہ)

الصحابۃ کلہم عدول

لفظ ’عدول‘ عدل کی جمع ہے۔ یہ اصل میں مصدر ہے، حصے برابر کرنے کے معنی میں۔ اور محاورات میں اس شخص کو ’عدل‘ کہا جاتا ہے جو حق و انصاف پر قایم ہو۔ یہ لفظ قرآنِ کریم میں بھی بار بار آیا ہے، حدیث میں بھی۔ کتبِ تفسیر میں بھی اس پر بحث ہے اور اصولِ حدیث، اصولِ فقہ اور عام فقہ میں اس کے اصطلاحی اور شرعی معنی کی تعیین کی گئی ہے۔ (مقامِ صحابہ) صحابۂ کرامؓکا تعدیل و تنقید سے بالا تر ہونا اس وجہ سے ہے کہ یہ حضرات حاملانِ شریعت ہیں، اگر ان کی عدالت مشکوک ہو جائے، تو شریعتِ محمدیہ صرف آں حضرت ﷺ کے عہدِ مبارک تک ہی محدود ہو کر رہ جائے گی، قیامت تک آنے والی نسلوں اور دور دراز کے ملکوں اور خطوں میں عام نہیں ہو سکتی۔(مقامِ صحابہ)

الصَّحابۃُ کُلُّھم عدُولٌ اجماعی مسئلہ ہے۔ آپﷺ کاارشاد ہے:أصحابی کالنجوم بأیھم اقتدیتم إھتدیتم، اوکما قال علیہ السلام۔تمام صحابہؓکی مثال ستاروں کی سی ہے کہ جس ستارے کی پہچان کرکے سمت معلوم کرنا چاہو، کرسکتے ہو، یعنی راہِ ہدایت معلوم کرسکتے ہو۔(نظام الفتاویٰ) نیز أصحابی کالنجومکا مضمون صحیح ہے، مگر الفاظ حدیث کے نہیں۔ اور صحابہ کرامؓکے افعال دو قسم کے ہیں؛ بعض تو اتباعِ نصوص کی وجہ سے اور بعض بنا بر اجتہاد۔ پھر اجتہادی امور بھی دو قسم کے ہیں؛ ایک وہ جن پر کسی ایک فریق کا صواب یا خطا پر ہونا ظنِ غالب سے متعین نہیں ہوا، ایسے اجتہادی امور میں مجتہد کے لیے کسی ایک قول کا اختیار کرلینا صحیح ہے؛ جو مجتہد کے نزدیک ترجیح رکھتا ہو، اور دُوسری قسم وہ ہے کہ ایک فریق کا خطا پر ہونا ظنِ غالب سے ثابت ہوجائے، ایسے اقوال و افعال میں مخطی کا اتباع نہیں کیا جائے گا، البتہ ان کو اپنے اجتہاد کی بنا پر معذور بلکہ ماجور قرار دیا جائے گا، اس لیے بایھم اقتدیتم اھتدیتم کو اس شرط کے ساتھ مشروط کیا جائے گا کہ ان کا خطا پر ہونا غلبۂ ظن سے ثابت نہ ہو، البتہ یوں کہا جائے گا کہ انھوں نے بھی اتباعِ ہدایت کا قصد کیا، لہٰذا ان پر ملامت نہیں۔الصحابة کلھم عدول اہلِ سنت کا قاعدۂ مسلّمہ ہے اور ان اکابر کے کلھم عدول ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ معصوم تھے۔ جس ہدایت کو ہم صحابہ کرامؓسے منسوب کرتے ہیں وہ دو چیزیں ہیں؛ ایک یہ کہ وہ کبائر سے پرہیز کرتے تھے اور اُن کے نفوسِ طیبہ میں اجتناب عن الکبائر کا ملکہ راسخ ہوچکا تھا، دوم یہ کہ اگر کسی سے بہ تقاضاے بشریت احیاناً کسی کبیرہ کا شاذ و نادر کبھی صدور ہوا، تو انھوں نے فوراً اس سے توبہ کرلی اور بہ برکتِ صحبتِ نبوی ان کے نفوس اس گناہ کے رنگ سے رنگین نہیں ہوئے اور التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ ارشادِ نبوی ہے، اس لیے ان ارتکابِ کبیرہ کے باوجود توبہ کی وجہ سے عادل رہے، فاسق نہیں ہوئے۔ حضرت نانوتویؒ اور دیگر اکابر نے اس پر طویل گفتگو فرمائی ہے۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل)

فقہا و محدثین کی تصریحات میں عدل اور عدالت کی ایک ہی تفسیر ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ مسلمان عاقل بالغ ہو اور کبیرہ گناہوں سے مجتنب ہو، کسی صغیرہ گناہ پر مُصرنہ ہو اور بہت صغیرہ گناہوں کا عادی نہ ہو، یہی مفہومِ شرعی ہے ’تقوے‘ کا۔ ’عدل‘ کا بالمقابل ’فسق‘ ہے، جس شخص کی عدالت کو ساقط قرار دیا جائے گا، تو اصطلاحِ شرع میں اس کو ’فاسق‘ کہا جائے گا۔ (ماخوذ از مقامِ صحابہ)

حضرت مولانا عبد الحیی لکھنویؒ تحریر فرماتے ہیں کہ ’الصحابۃ کلھم عدول‘یہ عقیدہ کسی عقیدے یا علمِ کلام کی کتاب میں مذکور نہیں، البتہ حضرات محدثینؒ اصولِ حدیث میں راویوں کی تحقیق و تعدیل کے بیان کرتے وقت ذکر کیا کرتے ہیں، جس کسی نے عقائد میں ذکر کیا ہے، اسی جگہ سے لیا ہوگا۔ اور عدالت کے معنی ہیں ’روایت کے اندر کذب کے ارادے سے پرہیز کرنا‘ اور در حقیقت تمام صحابہؓاسی عدالت کے ساتھ موصوف تھے اور حضور کی طرف کسی جھوٹی نسبت کرنے کو بہت بڑا گناہ سمجھتے تھے۔ (مجموعہ فتاوی عبد الحیی اردو)

لیکن حضرت مفتی محمد شفیع عثمانیؒ صاحب کا ارشاد ہے کہ بعض علما نے جو عدمِ عصمت اور عمومِ عدالت کے تضاد سے بچنے کے لیے عدالت کے مفہوم میں یہ ترمیم فرمائی کہ یہاں عدالت سے مراد تمام اوصاف و اعمال کی عدالت نہیں، بلکہ صرف روایت میں کذب نہ ہونے کی عدالت ہے، یہ لغت و شرع پر ایک زیادتی ہے، جس کی کوئی ضرورت اور کوئی وجہ نہیں۔ اور ان حضرات کے پیشِ نطر بھی اس ترمیم کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اس کی رو سے کسی صحابی کو اپنے عمل و کردار کی حیثیت سے ساقط العدالۃ یا فاسق قرار دینا چاہتے ہیں۔ ان کے کلمات دوسرے مواقع میں خود اس کی نفی کرتے ہیں۔ (مقامِ صحابہ)

راہِ عمل اور راہِ نجات

لیکن ایک قدرتی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب صحابۂ کرامؓسب کے سب واجب التعظیم اور عدل و ثقہ و متقی و پرہیزگار ہیں، تو ان کے آپس میں کسی مسئلے میں اختلاف آجائے تو ہمارے لیے طریقِ کار کیا ہونا چاہیے؟ یہ تو ظاہر ہے کہ دو متضاد اقوال میں دونوں کو صحیح سمجھ کر دونوں ہی کو معمول نہیں بنایا جا سکتا۔ عمل کرنے کے لیے کسی ایک کو اختیار کرنا، دوسرے کو چھوڑنا لازم ہے، تو اس ترک و اختیار کا معیار کیا ہونا چاہیے؟ نیز اس میں دونوں طرف کے بزرگوں کا ادب و احترام اور تعظیم کیسے قایم رہے گی؟ جب کہ ایک کے قول کو مرجوح قرار دے کر چھوڑا جائے گا۔ خصوصاً یہ سوال ان معاملات میں زیادہ سنگین ہو جاتا ہے، جن میں ان حضرات کا اختلاف باہمی جنگ و خوں ریزی تک پہنچ گیا۔ ان میں ظاہر ہے کہ کوئی ایک فریق حق پر ہے، دوسرا خطا پر۔ اس خطا و صواب کے معاملے کو طے کرنا عمل و عقیدے کے لیے ضروری ہے، مگر اس صورت میں دونوں فریق کی یک ساں تعظیم و احترام کیسے قایم رکھا جا سکتا ہے؟ جن کو خطا پر قرار دیا جائے، اس کی تنقیص ایک لازمی امر ہے۔

جواب یہ ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ دو مختلف اقوال میں سے ایک کو حق یا راجح اور دوسرے کو خطا یا مرجوح قرار دینے میں کسی ایک فریق کی تنقیص لازم ہے۔ اسلافِ امت نے ان دونوں کاموں کو اس طرح جمع کیا ہے کہ عمل اور عقیدے کے لیے کسی ایک فریق کے قول کو شریعت کے مسلمہ اصولِ اجتہاد کے مطابق اختیار اور دوسرے کو ترک کیا، لیکن جس کے قول کو ترک کیا ہے اس کی ذات اور شخصیت کے متعلق کوئی ایک جملہ بھی ایسا نہیں کہا جس سے ان کی تنقیص ہوتی ہو۔ خصوصاً مشاجراتِ صحابہؓ میں تو جس طرح امت کا اس پر اجماع ہے کہ دونوں فریق کی تعظیم واجب اور دونوں فریق میں سے کسی کو برا کہنا ناجائز ہے، اسی طرح اس پر بھی اجماع ہے کہ جنگِ جمل میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ حق پر تھے، اس کا مقابلہ کرنے والے خطا پر۔ اسی طرح جنگِ صفین میں حضرت علی کرم اللہ وجہہؓحق پر تھے اور ان کے مقابل حضرت معاویہؓاور ان کے اصحاب خطا پر۔ البتہ ان کی خطاؤں کو اجتہادی خطا قرار دیا، جو شرعاً گناہ نہیں، جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب ہو، بلکہ اصولِ اجتہاد کے مطابق اپنی کوشش صَرف کرنے کے بعد بھی اگر ان سے خطا ہو گئی، تو ایسے خطا کرنے والے بھی ثواب سے محروم نہیں ہوتے، ایک اجر ان کو بھی ملتا ہے۔بہ اجماعِ امت ان حضرات صحابہؓ کے اس اختلاف کو بھی اسی طرح کا اجتہادی اختلاف قرار دیا گیا ہے، جس سے کسی فریق کے حضرات کی شخصیتیں مجروح نہیں ہوتیں۔ اس طرح ایک طرف خطا و صواب کو بھی واضح کر دیا گیا، دوسری طرف صحابۂ کرامؓکے مقام اور درجے کا پورا احترام بھی ملحوظ رکھا گیا اور مشاجراتِ صحابہؓمیں کفِ لسان اور سکوت کو اسلم قرار دے کر اس کی تاکید کی گئی کہ بلا وجہ ان روایات و حکایات میں خوض کرنا جائز نہیں، جو باہمی جنگ کے دوران ایک دوسرے کے متعلق نقل کی گئی ہیں۔ (مقامِ صحابہ)

دو ٹوک فیصلہ

مشاجراتِ صحابہ کے معاملے میں صحابہ و تابعین اور ائمۂ مجتہدین کا عقیدہ اور فیصلہ ہے کہ خواہ اس وجہ سے کہ ہم اُن پورے حالات سے واقف نہیں؛ جن میں یہ حضراتِ صحابہؓگزرے ہیں، یا اس وجہ سے کہ قرآن و سنت میں ان کی مدح و ثنا اور رضوانِ خداوندی کی بشارت اس کو مقتضی ہے کہ ہم ان سب کو اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے سمجھیں، اور ان سے کوئی لغزش بھی ہوئی ہے تو اس کو معاف قرار دے کر ان کے معاملے میں کوئی ایسا حرف زبان سے نہ نکالیں، جس سے ان میں سے کسی کی تنقیص یا کسرِ شان ہوتی ہو، یا جو ان کے لیے سببِ ایذا ہو سکتی ہے، کیوں کہ ان کی ایذا رسول اللہﷺ کی ایذا ہے۔ بڑا بد نصیب ہے وہ شخص، جو اس معاملے میں محقق مفکر بہادری کا مظاہرہ کرے اور ان میں سے کسی کے ذمّے الزام ڈالے۔ (مقامِ صحابہ)

امام نوویؒ کی صراحت

امام محی الدین ابو زکریا یحییٰ بن شرف النوویؒ تحریر فرماتے ہیں:اہل السنۃ اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حسنِ ظن رکھا جائے، ان کے آپسی اختلافات میں خاموشی اختیار کی جائے اور نزاعات کی تاویل کی جائے۔ وہ بلا شبہ سب مجتہد اور صاحبِ رائے تھے، معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا، اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیشِ نظر تھی، بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ لڑائی ضروری ہے، تاکہ وہ امرِ الٰہی کی طرف لوٹ آئے۔ اس اجتہاد میں بعض راہِ صواب پر تھے اور بعض خطا پر ، مگر خطا کے باوجود وہ معذور تھے ،کیوں کہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد خطا پر بھی گنہ گار نہیں ہوتا۔ حضرت علیؓان جنگوں میں حق پر تھے، اہلِ سنت کا یہی موقف ہے۔ یہ معاملات بڑے مشتبہ تھے، یہاں تک کہ صحابۂ کرامؓکی ایک جماعت اس پر حیران و پریشان تھی، جس کی بنا پر وہ ہر دو فریق سے علیحدہ رہی اور قتال میں حصہ نہیں لیا۔ اگر انھیں صحیح بات کا یقین ہو جاتا تو وہ حضرت علیؓکی معاونت سے پیچھے نہ رہتے۔( شرح مسلم)

حافظ ابنِ حجرؒ کی صراحت

حافظ ابنِ حجرؒ تحریر فرماتے ہیں:اہل السنۃ اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہؓکے درمیان ہونے والے حوادث کی بنا پر ان میں کسی صحابی پر بھی طعن و تشنیع سے اجتناب واجب ہے، اگرچہ یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں صحابی کا موقف موقفِ حق تھا۔ کیوں کہ انھوں نے ان لڑائیوں میں صرف اپنے اجتہاد کی بناپر حصہ لیا، اور اللہ تعالیٰ نے خطا کرنے والے مجتہد کو معاف فرمادیا ہے، بلکہ یہ بات ثابت ہے کہ مجتہد کے اجتہاد میں خطا ہوجائے، تب بھی اسے ایک گنا اجر ملے گا، اور جس کا اجتہاد درست ہوگا، اسے دو گنا اجر ملے گا۔(فتح الباری)

حضرت مجدد الف ثانیؒ کی صراحت

مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندیؒ تحریر فرماتے ہیں:یہ اکابر (یعنی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین) رسول اللہ ﷺ کی صحبت کی تاثیر سے ہوا وہوس، کینہ و حرص سے پاک صاف ہوگئے تھے، ان حضرات کے اختلافات کو دوسروں کی مصالحت سے بہتر سمجھنا چاہیے۔(مکتوب: 67 ،دفتر دوم)اور ان نزاعات کو، جو اُن کے درمیان واقع ہوئے ہیں، نیک محمل پر محمول کرنا چاہیے اور ہوا وتعصب سے دور سمجھنا چاہیے،کیوں کہ وہ مخالفتیں تاویل واجتہاد پر مبنی تھیں، نہ کہ ہوا و ہوس پر۔ یہی اہلِ سنت کا مذہب ہے۔(مکتوباتِ امام ربانی، مکتوب: 251)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here