عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دیا کرو

عورتوں کو ان کا مہر خوش دلی سے د یا کرو
ندیم احمد انصاری

مہر کے معاملے میں کئی غلط فہمییاں پنپ رہی ہیں،بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اسی وقت دیا جاتا ہے جب شوہر بیوی کو طلاق دے دے یا فوت ہو جائے ، جب کہ یہ قطعاً غلط ہے ، شریعتِ مطہرہ کے مطابق اگر شوہر اپنی بیوی کا حقِ مہر ادا نہیں کرے گا یا بلاوجہ ٹال مٹول کرے گا تو اسے اسی طرح حق تلفی کا گناہ ہوگا جیسے کسی سے قرض لے کر واپس نہ کرنے کا ہوتا ہے ۔بعض لوگوں نے یہ گھڑ لیا ہے کہ سہاگ رات میں بیوی سے مہر معاف کروا لیا جائے تو وہ ساقط ہو جاتا ہے ، یہ بھی بے بنیاد اور غلط ہے ، البتہ اگر شوہر نے بیوی کو مہر کی رقم کا مالک بنا دیا اور پھر بیوی نے بغیر کسی دباؤ اور دلی رضامندی کے ساتھ وہ رقم شوہر کے حوالے کر دی، تو اور بات ہے ۔خیال رہے لفظِ ایتاء قرآن مجید میں مالک بنا دینے ہی کے لیے استعمال ہوا ہے ، یعنی مہر کی ادایگی جب ہی تسلیم کی جائے گی، جب کہ مہر کی رقم پر عورت کو مالکانہ قبضہ دے دیا جائے ۔

فی زمانہ مہر کے معاملے میں اس سے بھی جگ ہنسائی ہو رہی ہے کہ بعض لوگ شادی کی غیر ضروری رسموں پر تو لاکھوں روپے خرچ کردیتے ہیں، لیکن مہر اس قدر کم طے کرتے ہیں جو ایک شریف اور عزت دار لڑکی کی حیثیت سے میل نہیں کھاتا۔ شریعت میں مہر کی جو کم سے کم مقدار طے کی گئی ہے وہ بڑی حکیمانہ ہے ، لیکن اس بابت ایک دوسرے کی حیثیت کا بھی کچھ خیال رکھنا چاہیے ، البتہ دنیا داری اور دکھاوے کے طور پر بہت زیادہ مہر طے کرنا بھی مناسب نہیں۔اصول یہ ہے کہ لڑکے کی مالی حیثیت کے مطابق جتنا مناسب ہو، اتنا مہر طے کیا جائے یعنی اتنا زیادہ بھی نہ ہو کہ لڑکے پر بوجھ پڑے اور اتنا کم بھی نہ ہو کہ لڑکی والوں کے لیے خفت کا باعث ہو۔الغرض مہر کے معاملے میں غفلت ہمارے معاشرے میں عورت کی مظلومیت کا سبب بن رہی ہے کہ یا تو مناسب مہر مقرر نہیں کیا جاتا یا جو مہر مقرر کیا جاتا ہے اس کی ادایگی میں کوتاہی کی جاتی ہے ، یہ سراسر ظلم اور غصب ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ خاصے دین دار اور پڑھے لکھے سمجھے جانے والے لوگ بھی مہر کے شرعی احکام سے اکثر ناواقف ہیں، جس سے بہت سے معاشرتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

باری تعالیٰ کا ارشاد ہے :وَاٰتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃ،فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْْئٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ھَنِیْٓئًا مَّرِیْٓئًا۔اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے د یا کرو۔ ہاں ! اگر وہ خود اس کا کچھ حصہ خوش دلی سے چھوڑ دیں تو اسے خوش گواری اور مزے سے کھالو۔(النساء:4)

اس آیت میں عورتوں کے ایک خاص حق کا ذکر ہے اور اس میں جو ظلم و جور ہوتا تھا اس کا ازالہ ہے اور یہ حقِ مہر ہے ۔مہر کے متعلق عرب میں کئی قسم کے ظلم ہوتے تھے ؛

ئایک یہ کہ مہر جو لڑکی کا حق ہے اس کو نہ دیا جاتا تھا، بلکہ لڑکی کے اولیاء، شوہر سے وصول کرلیتے تھے ، جو سراسر ظلم تھا، اس کو دفع کرنے کے لیے قرآن کریم نے فرمایا :وَاٰتُوا النِّسَا?ئَ صَدُقٰتِ?ِنَّ دو عورتوں کو ان کے مہر۔اس کے مخاطب شوہر بھی ہیں کہ وہ اپنی بیوی کا مہر خود بیوی کو دیں، دوسروں کو نہ دیں اور لڑکیوں کے اولیا بھی مخاطب ہیں کہ اگر لڑکیوں کے مہر ان کو وصول ہوجائیں تو یہ لڑکیوں ہی کو دے دیں، ان کی اجازت کے بغیر اپنے تصرف میں نہ لائیں۔

ئدوسرا ظلم یہ بھی تھا کہ اگر کبھی کسی کو مہر دینا بھی پڑگیا تو بہت تلخی کے ساتھ، بادلِ ناخواستہ تاوان سمجھ کردیتے تھے ، اس ظلم کا ازالہ آیتِ مذکورہ کے اس لفظ نحلہ سے فرمایا گیا، کیوں کہ نحلہ لغت میں اس دینے کو کہتے ہیں جو خوش دلی کے ساتھ دیا جائے ۔غرض اس آیت میں یہ تعلیم فرمائی گئی کہ عورتوں کا مہر ایک حقِ واجب ہے ، اس کی ادایگی ضروری ہے اور جس طرح تمام حقوقِ واجبہ کو خوش دلی کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے ، اسی طرح مہر کو بھی سمجھنا چاہیے ۔

ئتیسرا ظلم مہر کے بارے میں یہ بھی ہوتا تھا کہ بہت سے شوہر یہ سمجھ کر کہ بیوی ان سے مجبور ہے ، مخالفت کر نہیں سکتی، دباؤ ڈال کر ان سے مہر معاف کرا لیتے تھے ، جس سے درحقیقت معافی نہ ہوتی تھی، مگر وہ یہ سمجھ کر بے فکر ہوجاتے تھے کہ مہر معاف ہوگیا۔اس ظلم کے انسداد کے لیے آیتِ مذکورہ میں ارشاد فرمایا:فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْْئٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ھَنِیْٓئًا مَّرِیْٓئًایعنی اگر عورتیں خوش دلی کے ساتھ اپنے مہر کا کوئی حصہ تمھیں دے دیں تو تم اس کو کھا سکتے ہو، تمھارے لیے مبارک ہوگا۔مطلب یہ ہے کہ جبر واکراہ اور دباؤ کے ذریعے معافی حاصل کرنا تو کوئی چیز نہیں، اس سے کچھ معاف نہیں ہوتا، لیکن اگر وہ بالکل اپنے اختیار اور رضامندی سے کوئی حصہ مہر کا معاف کردیں یا لینے کے بعد تمھیں واپس کردیں تو وہ تمھارے لیے جائز اور درست ہے ۔

یہ مظالمِ مذکورہ زمانۂ جاہلیت میں بہت زیادہ تھے جن کا اندازہ قرآنِ حکیم نے اس آیت میں فرمایا، افسوس ہے کہ جاہلیت کے زمانے کی یہ باتیں مسلمانوں میں اب بھی موجود ہیں، مختلف قبیلوں اور علاقوں میں ان مظالم میں سے کوئی نہ کوئی ظلم ضرور پایا جاتا ہے ، ان سب مظالم سے بچنا لازم ہے ۔

آیتِ شریفہ میں جو طیبِ نفس قید لگائی کہ خوشی سے تمھاری بیویاں اگر مہر کا کچھ حصہ تم کو دے دیں یا تم سے وصول ہی نہ کریں تو تم اس کو کھا سکتے ہو، اس میں ایک بہت بڑا راز ہے ۔ بات یہ ہے کہ شریعت کا یہ اصول ہے کہ کسی کا ذرا سامال بھی کسی دوسرے کے لیے حلال نہیں ہے ، جب تک کہ طیبِ نفس سے اجازت نہ ہو۔ بہ طور قاعدۂ کلیہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خبردار! ظلم نہ کرو اور اچھی طرح سے سمجھ لو کہ کسی شخص کا مال (دوسرے شخص کے لیے ) حلال نہیں ہے ، جب تک کہ اس کے نفس کی خوشی سے حاصل نہ ہو۔یہ ایک عظیم اصول ہے اور اس کے ماتحت بہت سے جزئیات آجاتے ہیں۔

دورِ حاضر میں چوں کہ عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ مہر ملنے والا نہیں ہے ، اگر سوال کروں یا معاف نہ کروں تو بد دلی یا بدمزگی پیدا ہوگی، اس لیے بادلِ ناخواستہ معاف کردیتی ہیں، اس معافی کا کوئی اعتبار نہیں۔ حضرت حکیم الامتؒ فرماتے تھے کہ صحیح معنی میں طیبِ نفس سے معاف کرنے کا پتا اس صورت میں چل سکتا ہے کہ مہر کی رقم بیوی کے حوالے کردی جائے ، اس کے بعد وہ اپنی خوشی سے بغیر کسی دباؤ کے دے دے ۔ یہی طیبِ نفس بہنوں اور بیٹیوں کی میراث میں بھی سمجھ لینا چاہیے ، اکثر یہ ہوتا ہے کہ ماں یا باپ کے فوت ہوجانے پر لڑکے ہی پورے مال پر قابض ہوجاتے ہیں اور لڑکیوں کو حصہ نہیں دیتے ، اگر کسی کو بہت دین داری کا خیال ہوا تو بہنوں سے معافی مانگ لیتا ہے ، وہ چوں کہ یہ سمجھتی ہیں کہ حصہ کسی حال میں ملنے والا نہیں، اس لیے اپنی مرضی کے خلاف معاف کرنے کو کہہ دیتی ہیں، پھر باپ کی وفات پر اس کی بیوی کا حصہ بھی نہیں دیا جاتا، خصوصاً سوتیلی ماں کو تو دیتے ہی نہیں، یہ سب حقوق دبا لینا ہے ، اگر کوئی طیبِ نفس سے معاف کر دے تو معاف ہوسکتا ہے ، جس کی علامت اوپر گذر چکی۔

اس سلسلے میں طیبِ نفس کا ذکر ہے ، طیبِ قلب نہیں فرمایا، اس لیے کہ کسی کا مال حلال ہونے کے لیے اس کے دل کی خوشی کافی نہیں، جو لوگ رشوت یا سود دیتے ہیں، بہت سے ظاہری منافع سوچ کر اور عقلی طور پر آمدنی کا حساب لگا کر خرچ کردیتے ہیں، مگر یہ خوشی معتبر نہیں، اگر نفس سے پوچھا جائے تو وہ اس خرچے پر قطعاً راضی نہ ہوگا۔ اسی وجہ سے طیب ِنفس کو فیصل قرار دیا گیا۔مساجد و مدارس یا اور کسی ضرورت کے لیے اگر چندہ کیا جائے ، اس میں بھی دینے والے کے طیبِ نفس کا خیال رکھنا لازم ہے ۔ پنچایت، چودھری، سردار، وفد کے دباؤ سے اگر کوئی شخص چندہ دے اور طیبِ نفس نہ ہو تو اس چندے کو کام میں لگانا حلال نہیں، بلکہ اس کو واپس کیا جائے گا۔(مستفاد از معارف القرآن)

خلاصہ یہ کہ مہر کی ادایگی کی یہ شکل ہے کہ شوہر مہر کی رقم عورت کے حوالے کر دے ، پھر عورت اپنی مرضی سے وہ رقم شوہر کو ہبہ کر دے تو شوہر کی طرف سے مہر بھی ادا ہوجائے گا اور بیوی کو انفاق علی ذوی القربیٰ کا ثواب بھی ملے گا اور اگر بیوی مہر پر قبضہ کرنے سے پہلے بہ حالتِ صحت و رضا مہر معاف کردے تو شوہر کی طرف سے مہر ادا نہیں ہوگا، البتہ ذمے سے ساقط ہوجائے گا۔ (دیکھیے فتاوی محمودیہ جدید)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here