قرآن اور میڈیا کے بتائے ہوئے حلالہ میں زمین و آسمان کا فرق
ندیم احمد انصاری
آس پاس مچی افراتفری اور دیگر تمام ضروری مسائل کے بجائے ملک میں ایک بار پھر حلالہ جیسے معاملات پر بحث و مباحثے کا بازار گرم کیا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ سب اصل مسائل سے عوام کو غافل رکھنے کا ایک طریقہ ہے۔میڈیا یہ جتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ تین طلاق کے بعد میاں بیوی میں جدائی ہو جانے پر پہلے شوہر کے پاس آنے کے لیے عورت کے لیے لازم ہے کہ کسی سے معاہدہ کرکے تعلق قایم کرےاور پھر پہلے شوہر سے نکاح کرنے کی خاطر اس سے طلاق لے لے، یہ حلالہ ہے۔ ظاہر ہے یہ سراسر خیانت اور دجل ہے اور اس کے ذریعے اسلام کے نظامِ نکاح و طلاق کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔قرآن مجید اور میڈیا کے بتائے ہوئے اس حلالہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا:فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰه ِ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ يُبَيِّنُھَا لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ۔(البقرۃ)
اس آیت کا آسان ترجمہ دورِ حاضر کے معروف عالمِ دین مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے مطابق یہ ہے:پھر اگر شوہر ( تیسری) طلاق دے دے تو وہ ( مطلقہ عورت) اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرے، ہاں اگر وہ (دوسرا شوہر بھی) اسے طلاق دے دے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ایک دوسرے کے پاس (نیا نکاح کر کے) دوبارہ واپس آجائیں، بہ شرطے کہ انھیں یہ غالب گمان ہو کہ اب وہ اللہ کی حدود قائم رکھیں گے، اور یہ سب اللہ کی حدود ہیں، جو وہ ان لوگوں کے لیے واضح کر رہا ہے جو سمجھ رکھتے ہوں۔ (توضیح القرآن)نیز یہی مفہوم دیگر تمام علماے ربانین نے بیان کیا ہے۔
مولانا ابو الکلام آزادصاحبؒ نے لکھا ہے: اگر ایسا ہوا کہ ایک شخص نے (دو طلاقوں کے بعد رجوع نہ کیا اور تیسرے مہینے تیسری) طلاق دے دی، تو پھر (دونوں میں قطعی جدائی ہوگئی، اور اب شوہر کے لیے وہ عورت جائز نہ ہوگی، جب تک کہ کسی دوسرے مرد کے نکاح میں نہ آجائے۔ پھر اگر ایسا ہوا کہ دوسرا مرد (نکاح کرنے کے بعد خود بہ خود) طلاق دے دے (اور مرد و عورت از سرِ نو ملنا چاہیں) تو ایک دوسرے کی طرف رجوع کرسکتے ہیں، اس میں ان کے لیے کوئی گناہ نہیں۔ بہ شرطے کہ دونوں کو توقع ہو اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حد بندیوں پر قائم رہ سکیں گے۔ اور (دیکھو) یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حد بندیاں ہیں، جنھیں وہ ان لوگوں کے لیے جو (مصالحِ معیشت کا) علم رکھتے ہیں، واضح کردیتا ہے ۔(ترجمان القرآن)
دونوں مترجمین کےزمانے میں خاصا فرق ہے، اس کے باوجود مفہوم میں یکسانیت ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجید کتابِ الٰہی ہے، جس کی حفاظت خود خدا کر رہا ہے۔ مذکورہ بالا دونوں ترجموں سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ شرعی حلالہ کا مطلب تو یہ ہے کہ میں جب میاں بیوی میں مکمل جدائی ہو جائے اور بیوی کسی اور شخص سے بلا کسی معاہدے و شرط کے نکاح کر لے، پھر اس شوہر سے کسی وجہ سے علاحدگی ہو جائے اور وہ پہلے شوہر کے پاس واپس آنا چاہے، تو یہ دونوں آپس میں نکاح کر سکتے ہیں۔البتہ معاہدے والے حلالہ کے لیے تو احادیثِ مبارکہ میں مذکور ہے :عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ إِسْمَاعِيلُ: وَأُرَاهُ قَدْ رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ، قَالَ: لَعَنَ اللَّهُ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ.حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: اللہ نے لعنت فرمائی ہے حلالہ کرنے والے پر اور اس پر جس کے لیے حلالہ کیا جائے۔(ابوداود )اس حدیث کی بنیاپر الموسوعۃ الفقہیہ میں لکھا ہے:.من تزوج مطلقۃ ثلاثاً بشرط صریح فی العقد علی ان یحلھا لزوجھا الاول فھو حرام عند الجمھور، و مکروہ تحریماً عند الحنفیۃ. اگر کوئی شخص مطلقۂ ثلاثہ سے نکاح کرے اور عقدِ نکاح میں صراحتاً یہ شرط لگائے کہ وہ اس کو اس کے پہلے شوہر کے لیے حلال کرے گا، تو یہ جمہور کے نزدیک حرام ہے۔
مفتیِ اعظم ہند کا فتویٰ بھی یہی ہے کہمطلقہ عورت کسی دوسرے خاوند سے نکاح کرلے اور پھر اس سے طلاق یا موتِ زوج کی وجہ سے علیحدہ ہو کر پہلے زوجِ مطلّق کے لیے حلال ہوجاتی ہے، اس کا نام حلالہ ہے؛ لیکن زوجِ اول یا زوجہ یا اس کے کسی ولی کی طرف سے زوجِ ثانی سے یہ شرط کرنی کہ وہ طلاق دے دے اور زوجِ ثانی کا اس شرط کو قبول کرکے نکاح کرنا یہ حرام ہے، اس میں فریقین پر لعنت کی گئی ہے، حدیث میں جو مذکور ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ تحلیل کی شرط کرکے نکاح کرنا موجبِ لعنت ہے۔ (کفایت المفتی)
(دراصل اسلام میں) ترغیب یہ دی ہے کہ خوب سوچ سمجھ کر ہی طلاق دی جائے، لیکن ان سب مرحلوں سے گزر جانے کے بعد جب طلاق نافذ ہی ہوجائے، تو پھر اب رعایت کا کوئی موقع نہیں، شوہر کو اب دوبارہ آسانی سے وہ بیوی واپس نہیں مل سکتی، اب اسے ذرا خونِ جگر کھا لینا پڑے گا، جب وہ حاصل ہوسکتی ہے۔(تفسیرِ ماجدی)یعنی اس میں سزا عورت کے لیے نہیں مرد کے لیے ہے۔
شرعی حلالہ یہ ہے کہ میاں بیوی دونوں میں مکمل علیحدگی ہونے کے بعد عورت عدت گزارے یعنی اگر حیض آتا ہے تو تین حیض اور اگر حیض نہیں آتا تو تین مہینے اور اگر حاملہ ہے تو بچّے کی ولادت تک، اس کے بعد اس عورت کا کسی دوسرے مرد سے بلا کسی پیشگی شرط کے، گواہوں کی موجودگی میں، مہرِ شرعی کے ساتھ نکاحِ صحیح ہو، اور وہ دونوں باقاعدہ میاں بیوی کے طرح رہیں، شوہر اپنی اس بیوی سے صحبت (وطی) بھی کرے۔ اس کے بعد اس شوہر کا انتقال ہو جائےیا وہ اپنی مرضی سے اپنی بیوی کو طلاق دے دے، اس طلاق کے بعد عورت اس کی عدت بھی پوری گزارے،تب جا کر پہلے والے شوہر کا نکاح اس عورت سے ہوسکتا ہے، اس کو شرعی حلالہ کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس میں دوسرے مرد کے ساتھ پہلے سے کوئی شرط کرنا کہ تونکاح کے بعد وطی کرکے طلاق دے کر علیحدہ کردے،سخت گناہ ہے، ایسی شرط کرنے والے اور اسے منظور کرنے والے دونوں لوگوں پرحدیث میں لعنت وارد ہوئی ہے۔حتی کہ علما نے لکھا ہے کہ ایسے نکاح کی حرمت اور موردِ لعنت ہونے کےلیے شرطِ تحلیل کی تصریح ضروری نہیں،بلکہ ایک دوسرے کی نیت کا علم بھی بہ قاعدۂ ’المعروف کالمشروط‘ اسی میں داخل ہے۔(احسن الفتاویٰ)
شرعی حلالہ میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اس کا مقصد بے راہ روی کو عام کرنا نہیں، بلکہ عورت کی اجڑی ہوئی زندگی کو سنوارنے کا ایک اور موقع فراہم کرنا ہے، جس میں عقل والوں کے لیے ادنیٰ اعتراض کی گنجائش نہیں، ہاں جن کی عقلوں پر دشمنی یا تعصب کے پردے پڑے ہوئے ہوں یا جو علم کے نور سے بے بہرہ ہوں، ان سے ایسے نازک مسائل میں بحث کرنا لاحاصل ہے!
٭٭٭٭