محدِّث، فقیہ، مؤرخ ، مجاہدِ آزادی،حضرت مولانا محمد میاں دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ

مفتی ندیم احمد انصاری

حضرت مولانا محمد میاں صاحب دیوبندیؒ کا تاریخی نام ’مظفر میاں‘ اور والد کا نام ’منظور محمد‘ تھا۔ آپ دیوبند کے قدیم خاندان ساداتِ رضویہ سے تعلق رکھتے تھے۔آپ کی ولادت ۴؍اکتوبر ۱۹۰۳ء کو دیوبند کے محلہ پیرزادگان میںہوئی۔ ابتدائی تعلیم گھر میں اور پھر فارسی سے لے کر دورۂ حدیث تک مکمل تعلیم دارالعلوم دیوبند میں ہوئی۔فروری ۱۹۲۵ء میں آپ دورۂ حدیث میں امتیازی نمبرات سےکامیاب ہوئے،اس کے بعد تمام عمر تدریس و تحریک میں گزار دی۔ آپ نے علومِ دینیہ کی امہات الکتب کا درس دیا، کثیر تصانیف یادگار چھوڑیں،ملک کی جدوجہدِ آزادی میں عملی حصہ لیا اور قید و بند کی صعوبت برداشت کی۔ بہ قول مولانا نور عالم خلیل امینیؒ:’آپ بلند پایہ محدث، دقیق النظر فقیہ، ژرف نگاہ مؤرخ، کثیر التصانیف مصنف اور کثیر التحریر اہلِ قلم تھے‘۔ اسی لیے آپ کو ’حیوانِ کاتب‘ بھی کہا گیا۔۲۲؍اکتوبر ۱۹۷۵ء کو چوہتر سال کی عمر میںآپ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

اساتذۂ و تلامذہ

شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ،محدثِ عصر حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ،مفتیِ اعظم حضرت مولانا عزیز الرحمن عثمانیؒ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہویؒ، عارف باللہ حضرت مولانا سیداصغر حسین دیوبندیؒ جیسے اکابر علما سے آپ نے کسبِ فیض کیا۔قرآن مجید حفظ کرنے کی سعادت ۱۹۶۴ء میں ایامِ اسیری کے دوران حاصل ہوئی۔مولان مناظر احسن گیلانیؒ، قاضی اطہر مبارک پوریؒ، قاری صدیق احمد باندویؒ، مولانا حامد میاںؒ، مفتی محمود پاکستانیؒ، مولانا اسیر ادرویؒ، مولانا نور عالم خلیل امینیؒ اور دہلی جامع مسجد کے شاہی امام مولانا سید احمد بخاری کا شمار آپ کے ممتاز تلامذہ میں ہوتا ہے۔

تدریسی خدمات

حضرت مولانا محمد میاں صاحبؒنے (۱)مدرسہ حنفیہ آرہ (۲)جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد اور (۳)مدرسہ امینیہ، دہلی میں کُل ۳۲؍سال تدریسی خدمات انجام دیں۔مدرسہ حنفیہ آرہ کے احباب نے علامہ کشمیریؒ سے ایسے مدرس کی فرمایش کی تھی جو عربی تقریر و تحریر کی مشق اور خصوصاً فنِ ادب کی اونچی کتابیںپڑھا سکے، انھوں نے حضرت مولانا محمد اعزاز علیؒ کے مشورے سے آپ کو وہاں بھیج دیا۔ تقریباً ساڑھے تین سال وہاں خدمات انجام دیتے رہے، لیکن یہ مدرسہ سرکاری امداد لیتا تھا، اس لیے اس سے علیحدہ ہوگئے۔۱۹۲۸ء میں حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحبؒ،مہتمم دارالعلوم دیوبند اور حضرت مولانا اعزاز علی دیوبندیؒ کی سفارش پر مدرسہ شاہی مرادآباد میں درجاتِ عُلیا میں تدریس کے لیے تشریف لے گئےاور سولہ سال قیام کیا۔ قید و بند یا جمعیۃ علماےہند کی خدمات کے باعث آپ تقریباً بیس سالوں تک تدریس سے منسلک نہیں رہ سکے۔آخری سال جب حضرت مجاہدِ ملتؒ بیمار تھے، مدرسہ امینیہ کے مہتمم حضرت مولانا حفیظ الرحمن واصفؔ نے آپ کو درسِ حدیث کے لیے اعزازی طور پر بلالیا، پھر مہتمم صاحب اور حضراتِ اراکین نے بہ اصرار دوامی خدمت کا وعدہ لے کر آپ کو روکے رکھا۔

سیاسی جد و جہد

حضرت مولانا محمد میاں صاحبؒعین شباب یعنی پچیس سال کی عمر (۱۹۲۸ء)میں جمعیۃ علماے ہند سے وابستہ ہو ئے۔۱۹۴۵ء میں مجاہدِ ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ مع شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ مرادآباد آئے اور آپ کو مدرسے کے مہتمم اور صدر مدرس سےبہ اصرار چھے ماہ کے لیے رخصت دلوائی اور دہلی لے گئے۔چھے ماہ بعد آپ واپس آگئے، لیکن ۱۹۴۷ء کے سنگین حالات میں مجاہدِ ملتؒکی مدد کرنے کی خاطر دہلی میں مقیم رہے۔ مجاہدِملتؒنے آپ کو نظامتِ عُلیا سے نوازنا چاہا، لیکن آپ نے قبول نہ کیا، زمانۂ مرض میں موصوف نے از خود آپ کے نام اپنی قایم مقامی کا اعلان کرا دیا۔ ۱۷؍سال تک مسلسل خدمت انجام دینے کے بعد ۸؍ستمبر ۱۹۶۲ء میں حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ کے انتقال کے بعد آ پ کو جنرل سکریٹری بنایا گیا، اس عہدے پر ایک سال رہ کر آپ مستعفی ہو گئے، لیکن جمعیۃ سے آپ کا تعلق ہمیشہ باقی رہا اور آپ تاحیات مجلسِ عاملہ کے رکن نیز ادارۃ المباحث الفقہیۃ کے نگراں اور جمعیۃ ٹرسٹ کے چیئرمین رہے۔

گرفتاریاں

حضرت مولانا محمد میاں صاحبؒنے ۱۹۲۹ء میں عملی سیاست میں قدم رکھا، اس سلسلے میں آپ کو کئی بار جیل بھی جانا پڑا۔مرادآباد میں حضرت مولانا فخرالدین مرادآبادیؒ کے ساتھ آزادی کی تحریکوں میں متحرک رہے۔۱۹۳۰ء میں ایک سال کی سزا بھی ہوئی، لیکن ساڑھے پانچ ماہ بعد رہا ہو گئے۔ ۱۹۳۲ء میں پہلے دہلی پھر مرادآباد اورپھر ۱۹۴۰ء میں گرفتار ہو کر سزایاب ہوئے۔ ۱۹۴۲ء کی تحریک میں آخری مرتبہ آپ کو گرفتار کیا گیا اور تقریباً دو سال بعد رہائی نصیب ہوئی۔ موصوف لکھتے ہیںکہ ’یہ ہنگامے ۱۹۴۷ء کے یومِ آزادی پر ختم ہو گئے، جس کے بعد فرقہ واریت کے وہ ہنگامے شروع ہو گئے جو آج تک ختم نہیں ہوئے، اُن کی داستان طویل بھی ہے اور دردناک بھی، ان ہنگاموں نے خدمات کا ایک نیا باب قایم کیا، جس کا عنوان ریلیف ہے یعنی کشتگانِ ستم کو دفنانا، مجروحوں کے جسم پر دوا کی پٹیاںباندھنا اور زخمی دلوں پر تسکین اور دل داری کا مرہم لگانا، اُجڑے ہوؤں کو بسانا اور ان کاموں کے لیے لوگوں سے بھیک مانگنا، پھر مظلوموں اور ان کی ضرورتوں کو پہنچانا اور بہ تقاضاے حالات ان کی امداد کرنا۔ احقر نے ان خدمات میں بھی حصہ لیا، مگر ان کو کہاں تک بیان کیا جائے‘۔

علماے ہند کا شان دار ماضی

حضرت مولانا محمد میاں صاحبؒنےجد و جہدِ آزادی اور مختلف تحریکوں میں متحرک رہنے کے باوجود مختلف موضوعات پر متعدد علمی کتابیں تصنیف کیں،ان میں سب سے زیادہ مشہور ’علماے ہند کا شان دار ماضی‘ ہےاس بے نظیر تصنیف کے صلے میں آپ کو جیل بھی جانا پڑا۔ موصوف کا بیان ہے کہ ’احقر محمد میاں انفرادی ستیہ گرہ کے سلسلے میں نہیں، بلکہ اس کتاب کے سلسلے میں گرفتار ہو کر سزایاب ہوا، مرادآباد کانگریس نے احقر کی سزایابی کو تحریک کے سلسلے میںشمار کیا‘۔ یہ کتاب طبع ہوتے ہی ضبط ہو گئی، پریس بھی ضبط کر لیا گیا اور مصنف کو گرفتار کر کے معمولی ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ اس کتاب کی تصنیف کے دو مقصد تھے: (۱)سیاسی تحریک میں علما کی شرکت کو علما کی شان کے خلاف ایک طرح بدعت قرار دیا جا رہا تھا، اس کتاب میں ظاہر کیا گیا ہے کہ علما نے ہر دور میں اُس دور کی سیاست کے مطابق عمل کیا اور سزائیں بھگتی ہیں، لہٰذا اِس دور میں اِس دور کے تقاضے کے مطابق تحریک میں حصہ لینا علما کی شان کے خلاف نہیں بلکہ ان کی تاریخی روایات کو زندہ کرنا ہے (۲)دوسرا مقصد تحریکِ آزادی کو تقویت دینا تھا، اس میں اُن مظالم کی تاریخ بیان کی گئی تھی جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے آغاز سے اس وقت تک انگریزوں نے کیےتھے۔

دیگرتصنیفات

حضرت مولانا محمد میاں صاحبؒکی دیگر تصانیف کی ایک نامکمل فہرست حسبِ ذیل ہے:(۱)محمد رسول اللہ ﷺ (سیرت)(۲)ہمارے پیغمبرﷺ (۳)صحابۂ کرامؓکا عہدِ زریں(۴)مشکوٰۃ الآثار و مصباح الابرار (۵)دینِ کامل، حیاتِ مسلم (۶)تاریخِ اسلام (۷)دینی تعلیم کے رسائل (۸)نورالاصباح ترجمہ نور الایضاح (۹)روزہ و زکوٰۃ (۱۰)علماے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے (۱۱)اسلام اور انسان کی حفاظت (۱۲)صالح جمہوریت اور تعمیرِ جمہوریت (۱۳)ہماری اور ہمارے وطن کی حیثیت اور ترکِ وطن کا حکم(۱۴)ہندوستان شاہانِ مغلیہ کے عہد میں (۱۵)شواہدِ تقدس(۱۶)تحریکِ شیخ الہند (۱۷)حیاتِ شیخ الاسلام (۱۸)اسیرانِ مالٹا(۱۹)جمعیۃ علما کیا ہے؟ (۲۰)مختصر تذکرہ خدماتِ جمعیۃ علماے ہند (۲۱)مسئلۂ تعلیم اور طریقۂ تعلیم (۲۲)سیاسی و اقتصادی مسائل اور اسلامی تعلیمات۔

[مضمون نگار الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے بانی و صدر ہیں]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here