مفتی ندیم احمدانصاری
قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے؟
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
اقبالؔ نے یہ شعر کس پس منظر میں کہا، اس سے ان کی کیا مراد تھی، اس پر غور و فکر کرنے کے بجائے ہر کس و ناکس نے اس شعر کا سہارا لے کر اتنا ضرور کیا کہ جن ائمہ کے پیچھے وہ ساری زندگی نمازیں ادا کرتے ہیں، ان پر سوچے سمجھے بغیر طعنہ زنی اور اعتراض بھی کرتے رہتے ہیں۔
امامت ایک عظیم منصب تھا، کب پیشہ اور پھر حقیر روزگار بن گیا، خدا جانے!پہلے انبیا اور خلفا امامت کیا کرتے تھے، اس لیے کہ یہ ایک کارِثواب ہے۔ حضرت عقبہ بن عامرؓکہتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص لوگوں کی وقت پر امامت کرےگا، اس کا ثواب امام کو بھی ملے گا اور مقتدی بھی محروم نہیں رہیں گے، اور جو امام اس معاملے میں کوتاہی کرے گااس کا گناہ اس پر ہوگا، مقتدیوں پر کوئی گناہ نہیں۔ [ابوداود، ابن ماجہ]
آج معاشرے میں ائمہ کی برادری ایسی ہے، جس کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ ان کی تنخواہیں ناقابلِ ذکر، مسائل ناگفتہ بہ اور ذمّےداریاں لامتناہی ہیں۔اکثر مساجد کے ائمہ کا حال یہی ہے، ذرا ان کے دِل کو کریدیے تو معلوم ہوگا کہ اس میں کیسا لاوا بھرا ہوا ہے۔فجر سے لے کر عشاء تک، سردی گرمی اور برسات ہر موسم میں، انھیں اپنی خدمات انجام دینی ہوتی ہیں۔ ضابطے کی چھٹیوں کے دنوں میں بھی ٹرسٹیوں کی رضامندی ضروری ہوتی ہے۔ کام کے دنوں میں ٹرسٹی کیا عوام کا ہر فرد ان پر نگہ بان ہوتا ہے، یہاں ذرا سی چوک ہوئی، وہاں زبانیں کھلیں۔ گویا ایک عورت کے کئی خصم ہوں، تو وہ کیسے سب کو راضی رکھ سکتی ہے؟مسجد کا امام تنہا وہ بوجھ اٹھاتا ہے کہ اگر پہاڑوں پر رکھ دیا جائے، تو وہ ریزہ ریزہ ہو جائیں۔ لیکن بدلے میں انھیں ملتی ہے فقط ایسی نوکری؛ جس کا کوئی بھروسا نہیں؟ ٹرسٹی نہیں، ان کے کسی شناسا سے بھی اَن بَن ہوگئی تو امام کی نوکری تو گئی۔ پھر اس کی زندگی بھر کی قربانیاں، اسے بہ حال نہیں کرا سکتیں۔
تنخواہ کے نام پر جو رقم امام کو دی جاتی ہے، اس میں آڑے وقت کے لیے بچت تو کیا ہوتی، ضرورتیں ہی بہ مشکل پوری ہو پاتی ہیں۔ اس سے وہ اشیاےخورونوش خرید لے، یا گھر وغیرہ کا کرایہ ادا کر ے! حال یہ ہے کہ جو امام مسجد میں بیٹھ کر دوسروں کی اولاد کی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دیتا ہے، اس کے اپنے بچوں کے اسکول کی فیس کی کسی کو پروا نہیں۔
جمعہ وغیرہ میں بیانات وغیرہ کی ذمّےداری اس پر مستزاد۔ بعض مقامات پر تو اسے موضوع کے انتخاب تک کی آزادی نہیں ہوتی، اگر کہیں اس کی گنجائش ہو تو مواد کو لے کر ہمیشہ یہ فکر سوار رہتی ہے کہ کوئی بات اس کی زبان سے ایسی نہ نکل جائے جو کسی ’ذمّےدار‘ کو ناگوار گزرے۔ بعض مقامات پر تو باقاعدہ جاہل ٹرسٹیان اور ذمّےداران موضوع و مواد کا انتخاب کرتے ہیں اوراس کے بعد بھی پوچھ گچھ ہوتی ہے کہ آپ نے یہ بات کیوں کی اور یہ بات کیوں نہ کی؟ کہیں بیان سے چند منٹوں پہلے یہ حکم دیا جاتا ہے کہ آج اس عنوان پر یہ اور یہ بولنا ہے۔بعض جگہ غیرعالم ٹرسٹی عالم و مفتی امام کو اپنے قدموں میں بٹھا کر خود جمعہ وغیرہ میں بیان کر کے ان کے صبر کا امتحان لیتے ہیں۔
اکثر مساجد میں امام کا تقرر علاقائی ، لسانی یا خاندانی تعصب کی بنیاد پر کیا جانے لگا ہے، یا پھر اسے ترجیح دی جاتی ہے جو غربت کا مارا کم سے کم تنخواہ پر راضی ہو جائے۔ اسی لیے اب اکثر باصلاحیت امام نہیں رکھے جاتے، یا وہ ٹِک نہیں پاتے۔ ذمّےداران کو صلاحیت یا صالحیت سے کوئی سروکار نہیں، انھیںتو خوشامد پسند یا جی حضوری کرنے والا امام چاہیے، جو ان کے کہنے پر دن کو رات یا رات کو دن کہہ سکے۔ انھیں مسجد میں امام کی نہیں، نوکر کی ضرورت ہے۔ جس طرح کا برتاؤوہ اپنے نوکروں سے کرتے ہیں، اسی طرح امام سے بھی پیش آتے ہیں، چاہے دوسروں کو نصیحت کرتے پھریتے ہوں کہ ہمیں علما؍ائمہ کا احترام کرنا چاہیے!
جب اصل امام کی یہ درگت ہے تو نائب امام کے بارے میں کیا کہا جائے، وہ تو بہ ہر حال امام سے کم درجے کا ہوتا ہے۔ امام کی اچانک یا پہلے سے طے شدہ غیرحاضری میں مؤذن بلکہ صفائی کرنے والے خادم تک کو فرض نمازوں کا امام بنا دیا جاتا ہے اور اس بات کی کوئی پروا نہیں کی جاتی کہ وہ اس قدر قرآن بھی صحیح پڑھ سکتا ہے یا نہیں جس سے نماز درست ہو سکے، جب کہ امام اَعلم و افضل ہونا چاہیے۔حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر کسی قوم میں ابوبکرؓ ہوں تو ان کے علاوہ امامت کرنے کا حق کسی کو نہیں۔[ترمذی] حضرت ابوسعید خدریؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب (نماز پڑھنے والے ) تین ہوں تو ان میں سے ایک ان کی امامت کرائے اور ان میں سے امامت کا زیادہ حق دار وہ ہے جو (دین) زیادہ پڑھا ہوا ہو۔[مسلم]
اکثر اماموں کے سر پر برخاستگی کی جو تلوار لٹکی رہتی ہے، وہ الگ، کیوں کہ ٹرسٹیوں کو معلوم ہے کہ ایک کے جانے پر پیچھے پچاس لائن میں کھڑے ہوئے ہیں، اسی لیے وہ ذرا ذرا سی بات پر امام بدلتے رہتے ہیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے ایک مسجد میں تقریباً دس سالوں میں دس امام بدل دیے گئے۔ممبئی جیسے شہر میں ایک بہت بڑی مسجد کے امام کو پچیس سال تک ماہانہ اتنا مشاہرہ دیا جاتا رہا جتنے کا اس کے یہاں صرف دودھ آجاتا تھا۔اس سے بھی تکلیف دہ بات یہ کہ سالہاسال تک کسی مسجد میں امامت کرنے والے کو جب علیحدہ کیا جاتا ہے تو اسےعزت سے رخصت نہیں کیا جاتا، بلکہ اکثر بدنام و رسوا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایک امام کی اقتدا میں بیس سالوں تک نماز ادا کرنے کے بعد باقاعدہ یہ اعلان کر کے برطرف کیا گیا کہ یہ شخص امامت کے لائق نہیں، ان کے پیچھے نماز نہیں ہوتی، اس لیے انھیں برطرف کیا جاتا ہے۔ کمال یہ ہے کہ ایسا کرنے والوں نے ایک دن کی بھی نماز نہیں دہرائی!
مذکورہ بالا تمام باتیں صد فی صد درست ہیں اور مشاہدے کے بعد لکھی گئی ہیں۔ اگر اجازت ہوتی تو مسجدوں، ٹرسٹیوں اور مبتلا بہ ائمہ کے نام بھی درج کیے جاتے۔ اگر پھر بھی کوئی انکار کرے تو اسے چاہیے کہ اپنی اولاد کو اس قابل بنا کر امامت کروائے۔
یہ تو اکابر علما اور بزرگانِ دین کا احسان ہے کہ وہ ان سب باتوں کے باوجود اپنے زیرِتربیت علما و ائمہ کو مسلسل صبر کی تلقین کرتے ہوئے دینی خدمات کی انجام دہی کی ترغیب دیتے رہتے ہیں، ورنہ مسجدیں ائمہ کو ترس جائیں،لیکن یہی صورتِ حالت رہی تو وہ دن دور نہیں جس کی پیشین گوئی حدیث میں کی گئی ہے۔حضرت سلامہ بنت حر ؓفرماتی ہیں، میں نے حضرت نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: لوگوں پر ایک دور ایسا بھی آئے گا کہ وہ دیر تک کھڑے رہیں گے، لیکن کوئی امام نہ ملے گا جو ان کو نماز پڑھائے۔[ابن ماجہ، ابوداود]
آخر میں ایک بات علما و ائمہ سے بھی کہنے کو جی چاہتا ہے کہ آپ اپنے حالات اپنے بڑوں کے سامنے پیش کر کے ان کے مشورے کے مطابق دینی خدمات ضرور انجام دیں، لیکن اپنے وقار اور دینی عظمت اور عزتِ نفس کو مجروح نہ کریں۔ یہ کوئی حالتِ اضطرار نہیں، خدا کی زمین بہت وسیع ہے اور وہ ربِ ذوالجلال ہر چیز پر قادر ہے۔
نوٹ: مضمون نگار کسی مسجد کا امام نہیں اور اس تحریر کا مقصد ائمہ پر ہونے والے ظلم، نا روا سلوک اور زیادتیوں کو واضح کرنا ہے، کسی پر تنقید یا تنقیص مقصود نہیں۔
وما علینا إلا البلاغ