مولانا ندیم احمد انصاری
اصل مضمون سے قبل رحمۃ للعالمینﷺ کی چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ فرما لیں:
qحضرت جابرؓسے روایت ہے، حضرت معاذ بن جبل انصاریؓنے اپنے ساتھیوں کو عشا کی نماز لمبی پڑھائی۔ ہم میں سے ایک آدمی نے علیحدہ نماز ادا کی۔ معاذ کو اس کی خبر دی گئی، تو انھوں نے کہا: وہ منافق ہے! جب اس آدمی کو اس بات کا پتہ چلا تو اس نے رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہو کر حضرت معاذ کی یہ بات بتائی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذسے فرمایا : اے معاذ ! کیا تم فتنہ ڈالنے والے بننا چاہتے ہو ؟ جب (عشا میں) لوگوں کی امامت کرو تو وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا، سَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی، إقْرَأْبِاسْمِ رَبِّکَ، وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَی کے ساتھ نماز پڑھا کرو۔عَنْ جَابِرٍ أَنَّهُ قَالَ صَلَّی مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ الْأَنْصَارِيُّ لِأَصْحَابِهِ الْعِشَاءَفَطَوَّلَ عَلَيْهِمْ فَانْصَرَفَ رَجُلٌ مِنَّا فَصَلَّی فَأُخْبِرَ مُعَاذٌ عَنْهُ فَقَالَ إِنَّهُ مُنَافِقٌ فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِکَ الرَّجُلَ دَخَلَ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَأَخْبَرَهُ مَا قَالَ مُعَاذٌ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ أَتُرِيدُ أَنْ تَکُونَ فَتَّانًا يَا مُعَاذُ إِذَا أَمَمْتَ النَّاسَ فَاقْرَأْ بِالشَّمْسِ وَضُحَاهَا وَسَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی وَاقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَی۔ [مسلم]
qحضرت ابوہریرہؓروایت ہے،رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جب کوئی تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی نماز پڑھائے، کیوں کہ جماعت میں ضعیف، بیمار اور بوڑھے (سب ہی) ہوتے ہیں، اور جب اکیلا نماز پڑھے تو جس قدر جی چاہے لمبی پڑھے۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ مِنْهُمُ الضَّعِيفَ وَالسَّقِيمَ وَالْكَبِيرَ، وَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ. [بخاری، اخرجہ مسلم]
qحضرت انس بن مالکؓفرمایا؛ میں نے حضرت نبی کریم ﷺسے زیادہ ہلکی لیکن کامل نماز کسی امام کے پیچھے کبھی نہیں پڑھی۔ آپ کا حال یہ تھا کہ اگر آپ بچے کے رونے کی آواز سن لیتے تو اس خیال سے کہ اس کی ماں کہیں پریشانی میں مبتلا نہ ہوجائے، نماز ہلکی کردیتے تھے۔ حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: مَا صَلَّيْتُ وَرَاءَ إِمَامٍ قَطُّ أَخَفَّ صَلَاةً وَلَا أَتَمَّ مِنَ النَّبِيِّ ﷺ، وَإِنْ كَانَ لَيَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَيُخَفِّفُ مَخَافَةَ أَنْ تُفْتَنَ أُمُّهُ.[بخاری، اخرجہ مسلم]
qعبداللہ بن ابو قتادہ انصاری اپنے والد حضرت ابوقتادہ انصاریؓسے روایت کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں تو میرا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ نماز لمبی کروں ،لیکن کسی بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز کو ہلکی کردیتا ہوں کہ مجھے اس کی ماں کو تکلیف دینا برا معلوم ہوتا ہے۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: إِنِّي لَأَقُومُ إِلَى الصَّلَاةِ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِيهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلَاتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمِّهِ.[بخاری]
qحضرت ابومسعودؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں عشا کی نماز میں فلاں فلاں شخص کے طویل نماز پڑھانے کی وجہ سے شریک نہیں ہوتا۔ ابومسعود کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو وعظ میں اس سے زیادہ غصے میں نہیں دیکھا، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اے لوگو! ہم میں سے بعض وہ ہیںجو دوسروں کو بھگاتے ہیں (نفرت دلاتے ہیں) اس لیے تم میں سے جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے، اس لیے کہ ان میں مریض اور بوڑھے اور حاجت مند لوگ بھی ہوتے ہیں۔ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ النَّبِيَّ ﷺ، فَقَالَ: إِنِّي لَأَتَأَخَّرُ عَنْ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مِنْ أَجْلِ فُلَانٍ مِمَّا يُطِيلُ بِنَا، قَالَ: فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَطُّ أَشَدَّ غَضَبًا فِي مَوْعِظَةٍ مِنْهُ يَوْمَئِذٍ، قَالَ: فَقَالَ:يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ، فَأَيُّكُمْ مَا صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيَتَجَوَّزْ فَإِنَّ فِيهِمُ الْمَرِيضَ وَالْكَبِيرَ وَذَا الْحَاجَةِ.[بخاری، اخرجہ مسلم]
اسلام میں مسجد میں باجماعت نماز کی بڑی تاکید آئی ہے،اسی کے لیے اذان مشروع ہوئی۔ فی زماننا گھڑیوں کے حساب سے اذان و جماعت کا وقت مقرر کیا جاتا ہے، اس میں مصلیان اور ذمّےداران سب کے لیے آسانی بھی ہے۔ تقریباً تمام ہی مساجد میں مقررہ اوقات کی پابندی کی جاتی ہے۔ لیکن بعض مقامات پر اس میں کوتاہی بھی پائی جاتی ہے، جس سے بہت سے مسائل پیدا اور اس کے اثرات دور رس ہوتے ہیں۔نماز کا خشوع و خضوع غارت ہوتا ہے، وہ الگ۔اس لیے اول تو جماعت کا وقت مقرر کرنے میں اہلِ محلّہ کی رعایت ضروری ہے۔ لیکن بعض امام اپنی سہولت کے اعتبار کے اعتبار سے ایسا وقت مقرر کرتے ہیں کہ وہ جلد سے جلد فارغ ہو کر گھر چلے جائیں۔ بعض مرتبہ اس جلدبازی میں اذان بھی وقت داخل ہونے سے قبل ہی دے دی جاتی ہے۔ جب کہ شریعت کی رُو سے ایسی نماز بغیر اذان دیے پڑھی گئی نماز شمار ہوتی ہے۔
بعض مسجدوں میں ڈھائی گھنٹوں میںعصر، مغرب اور عشا تین نمازیں ادا کر لی جاتی ہیں، صرف اس لیے کہ امام صاحب گھر جلدی جا سکیں۔ جب کہ اس دوڑتی بھاگتی زندگی میں اہلِ محلہ کے لیے ڈھائی گھنٹوں میں تین نمازوں کے لیے حاضر ہونا، ایک مشکل امر ہے۔ تکبیرِ اولیٰ کا اہتمام کرنے والے بعض حضرات خاص طور سے اس میں حرج محسوس کرتے ہیں، لیکن ذمّےداروں کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔
اسی طرح جماعت کا وقت پانچ بجے طے ہے اور امام بلا شدید عذر یا بار بار اس میں تاخیر کرے تو اس کا اثر بہت دور تک جاتا ہے اور بہت سارے لوگ اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ نوکری پیشہ اشخاص‘ جو اپنے مالک سے پندرہ منٹ کہہ کر جماعت میں حاضر ہوتے ہیں، جب وہ بیس منٹ کے بعد لوٹتے ہیں تو انھیں مالک کے عتاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور آگے سے مالک اسے نمازکے لیے اجازت دینے سے کتراتا ہے۔ایک امام صاحب کے بار بار جماعت میں تاخیر کرنے پر مضمون نگار سے ایک ایم بی اے کے طالب نے کہا تھا کہ ہم لوگ اپنے کالج سے اتنا وقت لے کر مسجد آتے ہیں، اور امام صاحب اس سے دیر کر دیتے ہیں،اس کی وجہ سے ہمیں کالج والےنماز کی اجازت دینے سے ہچکچاتے ہیں۔
ممبئی جیسے شہروں میں جہاں اکثر آبادی لوکل ٹرین سے سفر کرتی ہے۔ اس کا اپنا نظام الاوقات ہوتا ہے۔ دو تین منٹ کی دیری سے بعض مرتبہ پورا نظام چوپٹ کر دیتی ہے۔ ممبئی والے گھر سے نظام بنا کر چلتے ہیں کہ اتنے بجے فلاں کام سے فارغ ہو کر فلا وقت کی ٹرین لے لیں گے۔ ایسے میں چند منٹ بھی اِدھر یا اُدھر ہو جانے سے بہت فرق پڑتا ہے۔ اگر جماعت میں تاخیر اس کا سبب بننے لگے، تو لوگ دھیرے دھیرے مسجد سے کٹنے لگتے ہیں۔
بعض اماموں کا یہ عذر ہوتا ہے کہ ہمیں نماز پڑھانے کے علاوہ مسجد کے دیگر انتظامی امور انجام دینے ہوتے ہیں۔ لیکن ان کا یہ عذر درست نہیں۔ الحمدللہ ثم الحمد للہ اکثر مساجد میں اذان و جماعت طے شدہ وقت پر ہی ہوتی ہے۔ مسئلہ وہاں پیش آتا ہے جہاں تساہل اور غفلت کو راہ دی گئی ہو۔ پھر جو لوگ اپنے کام کاج چھوڑ کر مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے آتے ہیں، وہ سب بھی اپنی زندگی میں کچھ نہ کچھ کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے جماعت کا ایک وقت طے ہو جانے کے بعد اس کا خیال رکھنا سب کی ذمّے داری ہے۔مسجد کا ٹرسٹی بھی اس کے خلاف کرنے کا مجاز نہیں۔
اکثر مؤذنوں کو اوقاتِ نماز کے مسائل کا علم نہیں ہوتا۔اس لیے کہ اذان کے لیے سستے سے سستا آدمی تلاش کیا جاتا ہے۔ وہ اپنی لا علمی اور جہالت کے سبب وقت بے وقت اذان دیتا ہے۔ مغرب میں چوں کہ موسم کے اعتبار سے ایک ایک منٹ گھٹتابڑھتا رہتا ہے، اس لیے اس میں خصوصی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر مؤذن نے مغرب کی اذان وقت سے پہلے دے دی تو اس سے خواتین کا زیادہ نقصان ہوگا۔ عام مزاج اذان سن کر روزہ افطار کرنے کا ہے، اگر خواتین اپنے قضا کے روزے رکھ رہی ہوں، اور مؤذن احتیاط کے دو تین منٹ گذارے بغیر غروبِ آفتاب کا وقت ہوتے ہی اذان دے دے اور گھروں پر روزہ کھولنے والے اس کی اذان سنتے ہیں روزہ کھول لیں تو ان کے روزوں میںشک پیدا ہو جائےگا؟ اذان کی آواز سنتے ہیں خواتین گھروں میں نماز کی نیت بھی باندھ لیتی ہیں، اس صورت میں ان کی نمازوں کا کیا حکم ہوگا؟ کتابوں میں غروبِ آفتاب کے بعد احتیاطاً تین منٹ رُک کر اذان دینے کے لیے کہا گیا ہے، تاکہ غروب میں کوئی شک باقی نہ رہے اور نماز و روزہ بلا شک و شبہ درست ہو۔ لیکن بعض مؤذن اس کی پروا نہیں کرتے، نہ وہ امام اس کا اہتمام کرتا ہے، جو ان پر نگراں ہوتا ہے۔ ٹرسٹیوں کو تو اس کا شعور ہی نہیںہوتا۔الا ماشاء اللہ
ہر نماز کے لیے اذان کا جو وقت طے ہے، اس میں بھی تعجیل و تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ اذان جس وقت ہوتی ہے، اس کے مطابق مصلیان نماز کے لیے اپنے کاموں کو چھوڑ کر نکلتے ہیں۔ مثال کے طور پرمسجد میں اگر جماعت سے بیس منٹ پہلے اذان دی جاتی ہے(جیسے عصر کی اذان پانچ بجے)،اور مؤذن صاحب نے پانچ منٹ تاخیر کر دی(یعنی پانچ بج کر پانچ منٹ پر اذان دی)، تو مصلیان یہ سمجھیں گے کہ جماعت کا وقت پانچ بج کر پچیس منٹ ہے۔ وہ اس اعتبار سے مسجد پہنچیں گے اور اس صورت میں ان کی جماعت کا کافی حصہ گزر چکا ہوگا۔ اس لیے مؤذن کو طے شدہ وقت کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔فجر کی اذان میں یہ کوتاہی زیادہ برتی جاتی ہے، وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ فجر کی اذان سنتا ہی کون ہے؟
طے شدہ وقت سے آگے پیچھے اذان و نماز ادا کرنے میں وعدہ خلافی کا گناہ بھی ہے اور لوگوں کو مشقت میں ڈالنے کا گناہ بھی۔کبھی کبھار چند منٹوں کی تاخیر برداشت کی جا سکتی ہے، لیکن اکثر ہونے والی کوتاہی کا علاج ضروری ہے۔
نوٹ: جو لوگ ان امراض کا شکار نہیں،یہ تحریر ان کے لیے نہیں ہے۔
[کالم نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے محقق اور ڈیرکٹر ہیں]