[مہمان نوازی،قسط:۴]
مفتی ندیم احمد انصاری
مہمان کی خاطر تواضع کرنا
حضرت مغیرہ بن شعبہؓسے روایت ہے، ایک رات میں حضرت نبی کریم ﷺ کے پاس مہمان بن کررہا، آپ ﷺ نے (بکری) کے چاپ کا حکم دیا، وہ بھونی گئی، آپ ﷺ میرے لیے چھری لے کر اس چاپ کے ٹکڑے کرنے لگے۔ حضرت بلالؓتشریف لائے اور نماز کے لیے اذان دی تو آپ ﷺ نے چھری رکھ دی اور فرمایا: پتا نہیں اس بلال کو کیا ہوا؟ اس کے ہاتھ خاک آلود ہوں! (اور یہ کہہ کر) کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ [ابوداود]
لوگوں کے مقام کے مطابق برتاؤ
بعض لوگ تمام مہمانوں کے ساتھ یکساں برتاؤ کرتے ہیں بلکہ کسی کے ساتھ خصوصی برتاؤ کو عیب اور برا سمجھتے ہیں، جب کہ اسلامی ہدایات کے مطابق ہر شخص کے ساتھ اس کے مقام و مرتبے کے لحاظ سے برتاؤ کرنا چاہیے۔ حضرت ابن عمرؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تمھارے پاس کسی قوم کا معزز شخص آئے تو اس کا اعزاز کرو۔ [ابن ماجہ]
حضرت عبدالرحمن بن معاذؓسے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺکے ایک صحابی سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے منیٰ میں لوگوں کے سامنے تقریر کی اور ان کو اپنے ٹھکانوں میں اتارا، اور آپ ﷺ نے قبلے کے داہنی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مہاجرین یہاں اتریں، اور قبلے کے بائیں جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انصار یہاں اتریں، پھر باقی لوگوں کے لیے حکم ہوا کہ وہ ان کے (مہاجرین و انصار کے) ارد گرد اتریں۔ [ابوداود]
حضرت میمون بن ابی شبیب کہتے ہیں، حضرت عائشہؓکے پاس سے ایک بھکاری گزرا تو انھوں نے اسے (روٹی کا ایک) ٹکڑا دے دیا، اور ایک مناسب لباس میں ملبوس اور مناسب حلیے والا شخص گزرا تو اسے بٹھلایا اور کھانا کھلایا۔ حضرت عائشہؓسے پوچھا گیا کہ اس امتیاز کا سبب کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:لوگوں سے ان کی حیثیت کے مطابق برتاؤ کیا کرو۔ [ابوداود]
مہمان نوازی میں تکلّف
حضرت انس بن مالکؓسے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے کبھی بھی بچا ہوا بھنا گوشت نہیں اٹھایا گیا اور نہ آپ کے ساتھ کبھی دری لے جائی گئی(جو میسّر ہوتا آپ اسی پر تشریف فرما ہو جاتے)۔[ابن ماجہ] حضرت انسؓکہتے ہیںکہ ہم حضرت عمرؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انھوں نے فرمایا: ہمیں تکلف اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔[بخاری]ایک حدیث میں ہے:میں اور میری امت کے متقی لوگ تکلّف سے بَری ہیں۔[حاشیۃ الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ]
اس لیے مہمان کے لیے بہت زیادہ تکلفات کی فکر میں نہ پڑے، آسانی سے جو اچھی چیز میسر ہوجائے وہ مہمان کی خدمت میں پیش کردے، حضرت ابراہیمؑ کے یہاں بیل وغیرہ رہتے تھے، اس لیے بچھڑا ذبح کرکے فوری طور پر اس کا گوشت تل کر سامنے لا رکھا۔ [معارف القرآن]
کسی قدر تکلف کی بھی گنجائش ہے
میزبان کو تکلّف اختیار کرنے کی ضرورت نہیں لیکن حسبِ وسعت اعلیٰ چیز مہمان کے سامنے پیش کرنی چاہیے، حضرت ابراہیم ؑ نے موٹا تازہ بچھڑا بھون کر مہمانوں کے سامنے پیش کیا تھا، جیسا کہ قرآن مجید کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے:﴿بِعِجْلٍ سَمِيْنٍ﴾[الذاریات] اور ﴿بِعِجْلٍ حَنِيْذٍ﴾۔[ہود]
امام بخاریؒنے بخاری شریف میں باب قایم کیا ہے:بَابُ الرَّجُلِ يَتَكَلَّفُ الطَّعَامَ لإِخْوَانِهِ یعنی ’باب: اپنے بھائیوں کی دعوت کے لیے تکلّف سے کھانا تیار کروانا‘ اور اس کے تحت درجِ ذیل روایت لائے ہیں:حضرت ابومسعود انصاریؓکہتے ہیں کہ ایک انصاری صحابی کے پاس ابوشعیب نامی گوشت بیچنے والا غلام تھا، انھوں نے اپنے غلام سے کہا کہ کھانا تیار کرو، میں رسول اللہ ﷺ سمیت پانچ آدمیوں کی دعوت کروںگا۔ چناں چہ انھوں نے آپ ﷺ سمیت پانچ آدمیوں کو بلایا، ایک اور آدمی بھی آپﷺ کے ساتھ ہو لیا تو آپ ﷺنے فرمایا: تم نے ہم پانچ آدمیوں کو بلایا ہے یہ آدمی میرے ساتھ آگیا ہے، اگر تم چاہو تو اسے بھی اجازت دے دو اور اگر تمھاری رضامندی نہ ہو تو اسے واپس جانے دو۔ انھوں نے کہا: اسے بھی اجازت ہے۔[بخاری] اس حدیث سے مہمان کے لیے اہتمام کرکے کھانا بنوانا ثابت ہوتا ہے، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مہمان اپنے ساتھ بلااجازت کسی کو کھانے میں شریک نہ کرے اور اگر کرنا ہی چاہے تو میزبان سے اجازت حاصل کر لے۔
مہمان کی راحت کا خیال رکھنا
مہمان کو جہاں ٹھہرایا ہو وہیں اس کے کھانے پینے کا انتظام کر دینا چاہیے، بلاضرورت و بلاوجہ یہاں سے وہاں کرنا مناسب نہیں، بعض مرتبہ یہ چیز اس کے لیے تکلیف کا سبب بن جاتی ہے۔حضرت ابراہیم ؑ نے مہمانوں کو زحمت دینے کے بجائے کہ انھیں کھانے کی طرف بلاتے جہاں وہ بیٹھے ہوئے تھے کھانا وہیں لا کر ان کے قریب کر دیا تھا:﴿فَقَرَّبَهٗٓ اِلَيْهِمْ﴾۔[الذاریات]
صرف کھانا رکھ کر فارغ نہ ہو جائے
حضرت ابراہیمؑ کی میزبانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا:﴿فَلَمَّا رَآٰ اَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَيْهِ نَكِرَهُمْ﴾ مگر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس (بچھڑے) کی طرف نہیں بڑھ رہے تو وہ ان سے کھٹک گئے اور ان کی طرف سے دل میں خوف محسوس کیا۔ [ہود] اس سے معلوم ہوا کہ مہمان کے آداب میں سے یہ ہے کہ مہمان کے سامنے جو چیز پیش کی جائے اس کو قبول کرے، (کھانے کو دل نہ چاہے یا مضر سمجھیں تو معمولی سی شرکت دل جوئی کے لیے کرلیں)۔اسی جملے سے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ میزبان کو چاہیے کہ صرف کھانا سامنے رکھ کر فارغ نہ ہوجائے بلکہ اس پر نظر رکھے کہ مہمان کھا رہا ہے یا نہیں؟ جیسا ابراہیم ؑ نے کیا کہ فرشتوں کے کھانا نہ کھانے کو محسوس کیا،مگر یہ نظر رکھنا اس طرح ہو کہ مہمان کے کھانے کو تکتا نہ رہے، سرسری نظر سے دیکھ لے، کیوں کہ مہمان کے لقموں کو دیکھنا آدابِ ضیافت کے خلاف اور مدعو کے لیے باعثِ شرمندگی ہوتا ہے۔ [معارف القرآن]
کھلانے میں بےجااصرار کرنا
میزبان کو مہمان کے کھانے کی فکر تو کرنی چاہیے لیکن بےجااصرار نہیں کرنا چاہیے، ہمارے زمانے میں جو بےڈھنگا پن اس سلسلے میں دکھائی دیتا ہے کہ مہمان کے صاف اور صریح انکار کے باوجود اس کی پلیٹ میں کھانا انڈیل دیتے ہیں، چاہے وہ چیز اسے پسند ہو یا نہ ہو، چاہے اس کے لیے مزید کھانے کی گنجائش ہو یا نہ ہو، یہ رحمت کی جگہ زحمت بن ہو جاتی ہے۔حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒفرماتے ہیں: آج کل کی تہذیب یہ ہے کہ میزبان مہمان پر مسلط ہو جاتا ہے، قبلہ یہ کھائیے، قبلہ وہ کھائیے ،اس سے مہمان بالکل منقبض ہو جاتا ہے، ممکن ہے اس کا جی اس وقت ایک چیز کوچاہتاہو، دوسری کو نہ چاہتا ہو اوراس چیز کو کھائے تو انبساط نہ ہو، اور بعض وقت متعدد کھانے اس طرح کھلائے گئے کہ مقدار میں بڑھ گئے اور ہضم نہ ہوئے، آپ کی تو خاطر داری ہوئی او رمہمان کو تکلیف ہوئی، یہ کیا خاطر داری ہے؟[ملفوظات حکیم الامت]
حضرت ابراہیمؑ کا جو انداز اس سلسلے میں بتایا گیا ہے وہ نہایت اعلیٰ ہے، اس میں یہ اشارہ ہے کہ اگرچہ آپ کو حاجت کھانے کی نہ ہو مگر ہماری خاطر کچھ کھا لیجیے!﴿ قَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَ﴾ [الذاریات]اس لیے کبھی کبھی مہمان سے اصرار کیے بغیر کہے: کھائیے۔[الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ]
مہمان سے آنے کا مقصد معلوم کرنا
مہمان جب کھانے پینے سے فارغ ہو جائے اس کے بعد فرصت سے بیٹھ کر آمد کا مقصد پوچھنا چاہیے: حضرت ابراہیمؑ نے کہا تھا: اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتو ! تم کس مہم پر ہو ؟ [الذاریات] ہمارے یہاں تو اسے بےغیرتی سمجھا جانے لگا کہ آتے ہی پوچھ رہے ہیں کس مقصد سے آئے ہو؟ جب کہ یہ اللہ کے خلیل کی سنت ہے۔
مہمان کو مانوس کرنا
میزبان کے لیےمستحب ہے کہ مہمان کو اچھی بات اور مناسبِ حال قصوں کے ذریعے مانوس کرے، کیوں کہ اکرام کا مکمل درجہ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آنا اور آنے جانے کے وقت اچھی گفتگو کرنا ہے تا کہ اسے انبساط حاصل ہو، نیزمہمان کے پاس زیادہ خاموش نہ رہے،مہمان کے پاس سے غائب نہ رہے،مہمان کی موجودگی میں اپنے خادم (ماتحتوں) کو نہ ڈانٹے اور خود مہمان کی خدمت کرے، جیسے حضرت ابراہیمؑ نے ازخود خدمت کی تھی۔ اب تو بعض لوگ دھنّا سیٹھ کی طرح اپنے ماتحت اور وہ اپنے ماتحت کے بھروسے مہمان کو چھوڑ دیتے ہیں اور پھر سات ماموؤں کا بھانجا اِدھر اُدھر مارا مارا پھرتا ہے، کوئی اس کا پُرسانِ حال نہیں ہوتا۔[الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ]