نکاح کون پڑھائے اور کیسے؟

مولانا ندیم احمد انصاری
ڈیرکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا

شریعتِ اسلامی کے مطابق نکاح پڑھانے کے لیے اتنا کافی ہے کہ نکاح خواں نکاح کے ضروری مسائل جانتا ہو، باقاعدہ عالِم، مفتی یا قاضی ہونا ضروری نہیں۔ محلّے کا امام یا کوئی اور متعین شخص اگر یہ کہے کہ میں ہی نکاح پڑھاؤں گا، تو شریعت میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ مسجد کے امام یا قاضی وغیرہ کو عام طور سے اس لیے بلایا جاتا ہےکہ ان کے پاس نکاح کا رجسٹر ہوتا ہے۔ لیکن نکاح کا رجسٹرمیں اندراج شرعاً ضروری نہیں، البتہ قانون کی روک تھام کے لیے ضروری ہے۔ [فتاوی محمودیہ مخرج]

نکاح کون پڑھائے؟

نکاح ہر شخص پڑھا سکتا ہے، قاضی کی تخصیص نہیں، بلکہ عورت اور مرد خود بھی گواہوں کے سامنے اپنا نکاح کر سکتے ہیں۔[فتاویٰ محمودیہ مخرج] نکاح میں اصل ایجاب و قبول ہے۔ اصل ایجاب و قبول شوہر اور بیوی نے کیا، کوئی رافضی یا غیر مسلم محض خطبہ پڑھےیا اس ایجاب و قبول کی تصدیق زوجین سے کرے، تو اس سے نفسِ نکاح میں کوئی خرابی نہیں آتی، تاہم مستحب اور بہتر یہی ہے کہ کسی دین دار صالح آدمی سے خطبہ پڑھوایا جائے۔ [ایضاً]

اپنا نکاح خود پڑھنے کی صورت
اپنا نکاح خود پڑھنے کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مجلسِ نکاح میں شرعی گواہوں کی موجودگی میں خطبے میں پڑھی جانے والی آیات اور ایک دو حدیثیں خطبۂ مسنونہ کے طور پر پڑھنے کے بعد جس خاتون سے نکاح کر رہے ہیں اس کے وکیل سے کہیں کہ میں نے اتنے مہر کے عوض آپ کی موکلہ فلانہ بنت فلاں سے نکاح کیا (یا بہ راہِ راست اس خاتون سے کہیں کہ میں نے اتنے مہر کے بدلے آپ سے نکاح کیا)اور وہ جواب میں کہے کہ میں نے قبول کیا، تو نکاح ہو گیا۔

اپنی اولاد کا نکاح پڑھانا
اگر والد عالِم یا مسائلِ نکاح سے واقف ہو تو بہ نسبت دوسرے لوگوں کے اسے خود نکاح پڑھانا بہتر ہے۔ حکیم الامت حضرت تھانویؒ تحریر فرماتے ہیںکہ (حضرت فاطمہؓکی شادی میں) حضور ﷺ نے ایک بلیغ خطبہ پڑھ کر ایجاب و قبول کرایا، اس سے معلوم ہوا کہ باپ کا چھپے چھپے پھرنا یہ بھی خلافِ سنت ہے، بلکہ بہتر یہ ہے کہ باپ خود اپنی دختر کا نکاح پڑھا دے، کیوں کہ یہ ولی ہے (دوسرا وکیل)، ولی کو بہ ہرحال وکیل پر ترجیح ہوتی ہے، نیز حضور ﷺ کی سنت بھی یہی ہے۔[اسلامی شادی]

نکاح خواں کی حیثیت
شرعاً پورا اختیار ہے کہ جس کے ذریعے دل چاہے نکاح پڑھوا لیا جائے، کسی خاص نکاح خواں کی کوئی قید نہیں ہے، لہٰذا جو شخص دین دار اور مسائلِ نکاح سے واقف ہو، اس سے پڑھوایا جائے۔[ فتاویٰ محمودیہ مخرج]نکاح خواں کی حیثیت محض معبر اور سفیر کی ہے۔والمعنى فيه أن العاقد في باب النكاح سفير ومعبر.[مبسوط سرخسی]

نکاح سے پہلے کلمہ پڑھانا
بعض جگہوں پر نکاح پڑھانے سے پہلے کلمہ پڑھانے کو ضروری سمجھا جاتا ہے، لیکن عقدِ نکاح کےوقت کلمہ پڑھانا احادیث ،صحابہ اور مجتہدین سے منقول نہیں، البتہ اگر دولھا دولھن کے متعلق علم ہو کہ ان کے عقائد اچھے نہیں، خلافِ شرع ہیں، تو جس کے عقائد خلافِ شرع ہوں، ان کو تجدیدِ ایمان کے لیے کلمہ پڑھانا ضروری ہے، اور جس کے عقائد موافقِ شرع ہوں، اس کو ضروری نہیں۔ ہر جگہ اس کا التزام کرنا غلطی ہے۔ اور عقیدے کی خرابی کا علم نہ ہو، بلکہ بہ ظاہر عقیدہ درست معلوم ہوتا ہو، تو پھر اس کو کلمہ پڑھانے کی کی کوئی ضرورت نہیں، خطبۂ مسنونہ پڑھ کر ایجاب و قبول کرا دیا جائے۔[دیکھیے فتاویٰ محمودیہ مخرج]

خطبہ ایجاب و قبول سے پہلے ہو
نکاح میںخطبہ پڑھنا مستحب ہے اور صحیح یہ ہے کہ خطبے کو ایجاب و قبول سے پہلے پڑھا جائے۔ویندب اعلانہ وتقدیم خطبۃ وکونہ فی مسجد یوم جمعۃ بعاقد رشید وشھود عدول۔ [درِ مختار مع شامی]

نکاح کے خطبے کی حیثیت
نکاح کے خطبے کی حیثیت استحباب کی ہے، وجوب کی نہیں، بغیر خطبے کے بھی نکاح منعقد ہو جاتا ہے۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے سہل بن سعد کا نکاح بغیر خطبے کے پڑھایا ہے۔ لما فی عمدۃ القاری، باب الخطبۃ:وقال الترمذي وقد قال بعض أهل العلم إن النكاح جائز بغير خطبة وهو قول سفيان الثورى وغيره من أهل العلم، قلت: وأوجبها أهل الظاهر فرضا واحتجوا بأنه خطب عند تزوج فاطمة رضي الله تعالى عنها وأفعاله على الوجوب واستدل الفقهاء على عدم وجوبها بقوله في حديث سهل بن سعد قد زوجتها بما معك من القرآن۔[عمدۃ القاری]البتہ جب نکاح کا خطبہ شروع ہو جائے تو اس کا سننا بھی واجب ہے اور اس کے دوران دیگر مشاغل میں مصروف رہنا جائز نہیں۔وكذا يجب الاستماع لسائر الخطب كخطبة نكاح وخطبة عيد وختم على المعتمد۔ [درِ مختار مع شامی]

نکاح کا خطبہ کھڑے ہو کر پڑھے یا بیٹھ کر
خطبۂ نکاح کاکھڑے ہو کر پڑھنا صراحۃً نظر سے نہیں گزرا، عام تعامل بیٹھ کر پڑھنے کا ہے، اور عام طور پر عقدِ نکاح بیٹھ کر ہوتا ہے تو بیٹھ کر خطبۂ نکاح پڑھنا بہتر معلوم ہوتا ہے، خطبۂ نکاح کو خطبۂ عیدین اور جمعہ پر قیاس کرنا صحیح نہیں۔[نجم الفتاویٰ]فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ تحریر فرماتے ہیں کہ جائز تو کھڑے ہوکر پڑھنا بھی ہے، بیٹھ کر پڑھنا بھی ہے، جو شخص کھڑے ہو کر خطبۂ نکاح کو پڑھنا مسنون کہے، دلیل اس کے ذمّے ہے، وہ حدیث و فقہ سے ثبوت پیش کرے۔ متعدد مواقع پر حدیث شریف میں منقول ہے کہ حضرت نبی اکرم ﷺ نے بیٹھ کر خطبہ پڑھا ہے۔ مسلم شریف، الادب المفرد میں حدیثیں موجود ہیں۔ شراح نے اس جگہ لکھا ہے کہ یہ خطبۂ جمعہ نہیں تھا، اس کا کھڑے ہو کر پڑھنا بھی منقول ہے، خطبۂ نکاح کو خطبۂ جمعہ پر قیاس کرنا صحیح نہیں۔[فتاویٰ محمودیہ مخرج]اس معاملے میں شدت برتنا نامناسب ہے، دونوں طرح پڑھ سکتے ہیں۔نہ تو بیٹھ کر خطبہ پڑھنے کو خلافِ سنت کہنا درست ہے اور نہ ہی بدعت کہنا درست ہے، اور نہ ہی نکاح کے خطبے کی مسنونیت کو کھڑے ہوکر پڑھنے میں متعین کرنا درست ہے۔ہم نے دونوں چیزوں کے بارے میں حدیث وفقہ کی کتابوں کو حسبِ استطاعت دیکھا ہے، نہ ہم کو کوئی حدیث ملی ہے، جس میں حضور ﷺ یا خلفاے راشدین میں سے کسی کا کھڑے ہوکر خطبۂ نکاح پڑھنا ثابت ہو اور نہ ہی دیگر صحابہ اور تابعین کا کوئی اثر یا ائمہ مجتہدین میں سے کسی کا کوئی عمل خطبۂ نکاح کو کھڑے ہوکر دینے سے متعلق ملا۔یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ چوں کہ آپ ﷺنے خطبۂ جمعہ خطبۂ استسقا وغیرہ کھڑے ہوکر دیا ہے اس لیے خطبۂ نکاح بھی کھڑے ہوکر دیا ہوگا، یہ ایک قیاسی بات ہے اور اس قیاس کا مدار اس پر ہے کہ آپ ﷺ نے ہر خطبہ کھڑے ہوکر دیا ہو، تو نکاح کا بھی خطبہ کھڑے ہوکر دیا ہوگا؛ حالاں کہ ایسا نہیں ہے؛ کیوں کہ آپ ﷺ کا بہت سے خطبے بیٹھ کر دینا صحیح حدیث سے ثابت ہے، جیسا کہ بخاری ومسلم میں حضرت ابوسعید خدریؓکی روایت ہے، جس میں حضور ﷺ کا بیٹھ کر خطبہ دینا ثابت ہے۔ [دیکھیے فتاویٰ قاسمیہ]عن أبي سعید الخدريؓ أن النبي ﷺ جلس ذات یوم علی المنبر وجلسنا حولہ، فقال: إن ما أخاف علیکم من بعدي ما یفتح علیکم من زھرۃ الدنیا وزینتھا۔ [بخاری، مسلم]

نکاح کا خطبہ
نکاح کے خطبے میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے، اس کے بعد سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر: ۱۰۲ ، سورہ نسا کی آیت نمبر: ۱ ، اور سورہ احزاب کی آیت نمبر: ۷۰؍۷۱ پڑھے، اس کے بعد نکاح سے متعلق چند احادیث پڑھ لے۔ایک مختصر خطبۂ نکاح یہ ہے:اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهٗ وَنَسْتَعِیْنُهٗ وَنَسْتَغْفِرُهٗ وَنُؤْمِنُ بِه وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْهِ، وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا، مَن یَّهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهٗ، وَمَنْ یُّضْلِلْهُ فَلاَ هَادِیَ لَهٗ، وَنَشْهَدُ أَنْ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِیْکَ لَهٗ، وَنشْهَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهُ، أَمَّا بَعْدُ: فأَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْم؁ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ؁ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ؁ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْ تَسَاۗءَلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا۝ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا؀ يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا؀ قَالَ النَّبِيُّﷺ : اَلنِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِيْ. وَ فِيْ رِوَايَةٍ : فَمَنْ رَّغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَيْسَ مِنِّيْ، أَوْ كَمَا قَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ.[شامی]

ایجاب و قبول کا طریقہ
لڑکی کا ولی (باپ؍ بھائی؍ چچا وغیرہ) خود یا اُن کی طرف سے وکیل‘ لڑکی کے پاس جاکر کہے کہ تمھارا نکاح اتنے مہر میں فلاں ابن فلاں (لڑکے کا نام مع ولدیت) سے کیا جارہا ہے، کیا تمھیں منظور ہے؟کنواری لڑکی جواب میں اگر خاموش ہو جائے یا زبان سے اجازت دے دے، اور ثیبہ زبان سے اجازت دے دے، اور ولی یا اُس کاوکیل جاکر نکاح پڑھانے والے سےبتلادے، پھر بعد نکاح خواں مجلسِ نکاح میں اول خطبۂ نکاح پڑھے اور وکیل کی اجازت سے گواہوں اور عام مجلس کے سامنے کہے کہ میں نے فلاں لڑکی (نام مع ولدیت) کا نکاح اتنے مہر کے عوض، تمھارے ساتھ کیا، کیا تم نے اسے قبول کیا؟ جواب میں لڑکا کہے کہ میں نے قبول کیا، اور مجلس میں موجود (کم سے کم دومَرد یا ایک مَرد اور دو عورتیں)عاقل بالغ مسلمان اس ایجاب وقبول کو اپنے کانوں سے سن لیں، تو نکاح ہوگیا۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ وکیل بالنکاح خود نکاح پڑھائے، بلا اجازتِ مؤکلہ دوسرے کو نکاح پڑھانے کی اجازت دینے کااس کو اختیار نہیں ہے۔لا یوکل الوکیل باذن او تعمیم تفویض۔[الاشباہ والنظائر، کتاب الوکالۃ، ص:364]اگر وکیل بالنکاح نے بلا اجازتِ مؤکلہ دوسرے کو نکاح پڑھانے کی اجازت دے دی اور اس نے نکاح پڑھا دیا تو بعض کے نزدیک یہ نکاحِ فضولی ہوگا اور دولھن کی قولی یا فعلی اجازت پر موقوف و منعقد ہوگا ۔ اور بعض فقہا رحمہم اﷲاس کے قائل ہیں کہ وکیلِ اول مجلسِ نکاح میں موجود ہوتو نکاح نافذ ولازم ہوجائے گا، اور یہی مختار و معمول بہا ہے۔ الوکیل بالتزوج لیس لہ ان یؤکل غیرہ،فان فعل فزوجہ الثانی بحضرۃ الا ول جاز۔[قاضی خان:3/580، عالمگیری: 2/20]لہٰذا جب کہ نکاح خواں نے وکیل سے پوچھا کہ نکاح پڑھا دوں؟ اور وکیل نے کہا ۔ جی ہاں ! (پڑھادو ) تو یہ تو کیل ہے، مجلسِ نکاح اور عرفِ عام اس کا قرینہ ہے، اور دولھن بھی جانتی ہے کہ نکاح دوسرا شخص پڑھائے گا، تو اسے دولھن کی اجازت پر محمول کیا جاسکتا ہے۔لان المعروف کالمشروط۔ اس کے بعد نکاح خواں کا نوشہ سے خطاب کر کے یہ کہنا کہ فلاں وکیل نے اپنی مؤکلہ مسماۃ فلانی کی ذات کو آپ کے نکاح میں دیا، آپ نے قبول کیا؟ یہ ایجاب ہے ۔جواب میں نوشہ کا یہ کہناکہ میں نے قبول کیا ، یہ قبول ہے ۔ الا صل ان الآمرمتیٰ حضر جعل مباشراً۔(درمختار) (وقولہ جعل مباشراً) لانہ اذا کان فی المجلس تنتقل العبادۃ الیہ کما قدمناہ۔ [شامی:2/377] [فتاویٰ رحیمیہ]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here