کرسمس ڈے: تاریخ و ابتدا،موجودہ حالت اور اسلامی تعلیمات، ندیم احمد انصاری، الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا
گذشتہ روز بعض اخبار میں جلی حرفوںمیں شائع شدہ ایک خبر کا عنوان تھا’کرسمس اور سالِ نو کے جشن کے پیشِ نظر پولس الرٹ‘، جس کے تحت لکھا گیا تھا کہ سالِ نو اور کرسمس پر تخریبی کارروائی کے خدشے کے پیشِ نظر پولیس نے سخت انتظامات کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور کرسمس کے آغاز سے قبل ہی تمام گرجاگھروں پر پولیس نے سیکوریٹی سخت کر دی ہے ۔کرسمس عیسائیوں کا اہم اور خالص مذہبی تہوار ہے ، جس میں آج کل بعض مسلم نوجوان بھی رواداری کے جوش یا عیاشی کے خروش میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، اس لیے ضروری معلوم ہوا کہ اس تعلق سے چند باتیں عرض کر دی جائیں۔
حضرت عیسیٰ سے متعلق نظریات
موجودہ عیسائی اپنا رشتہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے جوڑتے ہیں، جب کہ اس دنیا میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق تین طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں:(۱)پہلا نظریہ یہ ہے کہ وہ ’ابن اللہ‘ اور ’اقانیمِ ثلٰثہ‘ کے ایک جز ہیں، یہ نظریہ عیسائیوں (Christians)کا ہے (۲) دوسرا نظریہ یہودیوں (Jews) کا ہے ، جو العیاذ باللہ آپ کی ولدیت کے متعلق سوال اٹھاتے ہیں (۳) تیسرا نظریہ یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں، ایک مدت زمین پر رہے ، پھر آسمان پر اٹھا لیے گئے اور قربِ قیامت پھر نازل ہوں گے اور شریعتِ محمدیہ کے مطابق زندگی کزاریں گے ، ایک مدت تک قیام کریں گے اور پھر وفات پاکر مدینہ منورہ میں مدفون ہوں گے ۔ مذکورہ بالا تینوں نظریات و عقائد میں سے پہلا افراط تو دوسرا تفریط پر مبنی ہے کہ اول نے آپ کا درجہ الوہیت سے ملا دیا، دوسرے نے آپ کے جائز وجود کا بھی انکار کر دیا، جب کہ تیسرا نظریہ اسلام کا ہے جو اس افراط و تفریط سے مکمل طور پر پاک اور مسلمانوں کا مسلّمہ عقیدہ اور قرآن و احادیث سے مدلل طور پر ثابت شدہ ہے ۔
رواداری ہو دین بے زاری نہیں
کرسمس جیسا کہ عرض کیا گیا عیسائی مذہب کا خالص مذہبی تہوار ہے ، اس لیے مسلمانوں کو اس میں شمولیت سے احتراز کرنا چاہیے ۔ فی زمانہ بہت سے لوگ مذہبی رواداری کے نام پر دین بے زاری کی دعوت دیتے نہیں تھکتے اور وہ تمام غیر شرعی کاموں کو دھڑلّے سے انجام دیتے ہیں، جب کہ شریعت اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتی، انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام میں رواداری کا مطلب دین بے زاری ہرگز نہیں۔باری تعالیٰ کا ارشاد ہے :(مفہوم) ہم نے اُسے راستہ دکھا دیا، اب خواہ شکر گزار ہو، خواہ نا شکرا۔(الدہر:3) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’میثاقِ مدینہ‘ کے نام سے یہودی اور دیگر لوگوں سے جو معاہدہ کیا، وہ عالم کا پہلا ایسا منشور قرار پایا‘ جس میں انسانیت کے حقوق کا سب سے زیادہ پاس و لحاظ رکھا گیا تھا، اس معاہدے کے تحت مذہبی رواداری پر مبنی جو حقوق غیر مسلموں کو حاصل ہوئے ، من جملہ ان کے دو یہ تھے :(۱) ایک یہ کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو بھی مذہبی و سیاسی سطح پر وہی حقوق حاصل ہوں گے ، جو مسلمانوں کو حاصل ہیں(۲) دوسرے یہ کہ دونوں فریق مل کر دشمنوں سے اس امتِ متحدہ کی حفاظت کریں گے اور دونوں مل کر دفاعی اخراجات کی ذمّے داریاں اٹھائیں گے ، اور اس اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کو داخلی طور پر بھی کامل خود مختاری دی گئی، جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے :(مفہوم)عیسائیوں کو چاہیے کہ وہ انجیل کے مطابق فیصلہ کریں۔(المائدہ:47)یہی وجہ تھی کہ مدینہ منورہ میں ساری حکومت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک میں آجانے کے باوجود‘آپ نے یہودیوں پر اسلام لانے کے لیے کوئی جبر نہیں کیا اور فتحِ مکہ کے موقعے پر بھی ایسی فراخ دلی کا مظاہرفرمایاجس کی مثال معلوم دنیا میں ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے مذہب کو اسلامی غیرت نے اپنا لیا۔مختصر یہ کہ اسلام میں رواداری کا تصور یہ نہیں ہے کہ مختلف اور متضاد باطل خیالات کو درست قرار دے دیا جاے بلکہ اسلام کی رو سے مذہبی رواداری کے معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں کے عقائد یا اعمال ہمارے نزدیک غلط ہیں‘ ان کو ہم برداشت کریں ، ان کے جذبات کا لحاظ کر کے ان پر ایسی نکتہ چینی نہ کریں‘ جو ان کو رنج پہنچانے والی ہو اور اُنھیں ان کے اعتقاد سے پھیرنے یا ان کے عمل سے روکنے کے لیے زبردستی کا طریقہ اختیار نہ کریں۔اس قسم کے تحمل اور اس طریقے سے لوگوں کو اعتقاد و عمل کی آزادی دینا نہ صرف ایک مستحسن فعل ہے بلکہ مختلف الخیال جماعتوں میں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے ،لیکن اگر ہم خود ایک عقیدہ رکھنے کے باوجود محض دوسرے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ان کے مختلف عقائد کی تصدیق کریں اور خود ایک دستور العمل کے پیرو ہوتے ہوئے ، دوسرے مختلف دستوروں کا اتباع کرنے والوں سے کہیں کہ آپ سب حضرات برحق ہیں تو اس منافقانہ اظہارِ رائے کو کسی طرح رواداری سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا،مصلحتاً سکوت اختیار کرنے اور عمداً جھوٹ بولنے میں آخر کچھ تو فرق ہونا چاہیے ۔( تفہیمات بتصرف)
موجودہ عیسائی مذہب
موجودہ عیسائی مذہب نے خدا کے تصور کی جو تفصیلات بیان کی ہیں، وہ بڑی الجھی ہوئی ہیں اور ان کا سمجھنا آسان نہیں ہے ۔ یہ بات ہر کس و ناکس کو معلوم ہے کہ عیسائی مذہب میں خدا تین اقانیم (Persons) سے مرکب ہے : باپ، بیٹا اور روح القدس۔ اسی عقیدے کو عقیدۂ تثلیث (Trinitarian Doctrine) کہا جاتا ہے ، لیکن بہ جائے خود اس عقیدے کی تشریح و تعبیر میں عیسائی علما کے بیانات اس قدر مختلف اور متضاد ہیں کہ یقینی طور سے کوئی ایک بات کہنا بہت مشکل ہے ۔ وہ تین اقانیم کون ہیں، جن کا مجموعہ ان کے نزدیک خدا ہے ؟ خود ان کی تعیین میں بھی اختلاف ہیں، بعض کہتے ہیں کہ خدا‘باپ، بیٹے اور روح القدس کے مجموعے کا نام ہے [عام عیسائیوں کا یہی مسلک ہے ]، اور بعض کا کہنا ہے کہ باپ، بیٹا اور کنواری مریم‘ وہ تین اقنوم ہیں، جن کا مجموعہ خدا ہے ، پھر ان تین اقانیم میں سے ہر ایک کی انفرادی حیثیت کیا ہے اور خداے مجموع (Trinity) سے اس کا کیا رشتہ ہے ؟ اس سوال کے جواب میں بھی ایک زبردست اختلاف پھیلا ہوا ہے ۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ ان تین میں سے ہر ایک بہ ذاتِ خود بھی ویسا ہی خدا ہے ‘جیسا مجموعۂ خدا، ایک دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ ان تینوں میں سے ہر ایک الگ الگ خدا تو ہیںمگر مجموعۂ خدا سے کم تر ہیں، اور ان پر لفظِ خدا کا اطلاق ذرا وسیع معنی میں کر دیا گیا ہے ، تیسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ تین خدا ہی نہیںہیں، خدا تو صرف ان کا مجموعہ ہے ۔غرض اس قسم کے بے شمار اختلافات ہیں جن کی وجہ سے تثلیث کا عقیدہ ایک ’خوابِ پریشاں‘ بن کر رہ گیا ہے ۔(بائبل سے قرآن تک)
کرسمس کیا اور کیوں؟
کرسمس (Christmas) دو الفاظ کرائسٹ (Christ) اور ماس (Mass) سے مل کر بنا ہے ۔ کرائسٹ مسیح علیہ السلام کو کہتے ہیں اور ماس اجتماع? اکٹھا ہونے کو، یعنی مسیح کے لیے اکٹھا ہونا، میسحی اجتماع یا یومِ میلادِ مسیح علیہ السلام۔یہ لفظ تقریباً چوتھی صدی کے قریب قریب پایا گیا، اس سے پہلے اس لفظ کا استعمال کہیں نہیں ملتا۔ دنیا کے مختلف خطوں میں کرسمس کو مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے ۔(کرسمس کی حقیقت بترمیم)’وکی پیڈیا‘ میںہے کہ عیدِ ولادتِ مسیح یا بڑا دِن، جس کو کرسمس بھی کہتے ہیں جو یسوع مسیح (اسلامی نام: عیسیٰ) کی ولادت کا تہوار ہے ۔عیسائی دین میں یہ سال کی دو اہم تر عیدوں میں سے دوسرا ہے ، سب سے اہم تہوار ایسٹر کہلاتا ہے ۔ کرسمس عمومی طور پرسالانہ 25 دسمبر کو منایا جاتا ہے ۔ تاہم علمانے تصدیق کی ہے کہ یہ ان کا اصلی یومِ ولادت نہیں ہے ۔
عیسائی تہواروں میں کرسمس کا دن ایسا ہی سمجھا اجتا ہے ، جیسے مسلمانوں میں عید کا دن، کیوں کہ یہ عیسائیوں کا سالانہ تہوار ہے ،جو پچیس دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سال گرہ کے طور پر منایا جاتا ہے اور بیان کیا جاتا ہے کہ اس تاریخ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی، اسی خوشی میں کیک کاٹے جاتے ہیں اور مختلف قسم کے طریقوں سے خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ایسٹر کے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو جب سولی پر چڑھادیا گیا تو وہ تین دن بعد دوبارہ زندہ ہو گئے تھے اور چوں کہ یہ 21مارچ کی تاریخ تھی، اس لیے اس خوشی میں عیسائی 21مارچ کو یا اس کے فوراً بعد آنے والے اتوار کو یہ تہوار مناتے ہیں۔یاد رہے کہ یہ وہی دن ہے جسے ایرانی ’نوروز‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور ہندو اسے ’بسنت‘ کا موقع قرار دیتے ہیں۔ مصر اور آئرلینڈ کے لوگ ایسٹر کو ’آسٹر‘ کہتے ہیں، جس کا مطلب ’بہار کی دیوی‘ ہے ، اس اعتبار سے ان کے یہاں یہ ’بہار کی دیوی‘ کی تقریب ہوتی ہے۔ (تقابلِ ادیان)
کرسمس کی ابتدا
صدیوں تک 25دسمبر تاریخِ ولادتِ مسیح علیہ السلام نہیں سمجھی جاتی تھی،530عیسوی میں سیتھیا کا ایک راہب ڈایونیس اکسیگز نامی جو منجم(ستاروں کا علم رکھنے والا)بھی تھا،تاریخِ ولادتِ مسیح علیہ السلام کی تحقیق اور تعین کے لیے مقرر ہوا، سو اس نے حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت 25دسمبر مقرر کی، کیوں کہ مسیح علیہ السلام سے پانچ صدی قبل 25دسمبر مقدس تاریخ تھی، بہت سے سورج دیوتا اسی تاریخ پر یا اس سے ایک دو دن بعد پیدا ہونا تسلیم کیے جا چکے تھے ، چناں چہ راہب نے آفتاب پرست اقوام میں عیسائیت کو مقبول بنانے کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تاریخِ ولادت 25دسمبر مقرر کر دی۔ قرآن مجید کی سورۂ مریم پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت مریم علیہا السلام کو دردِ زہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت کی کہ کھجوروں کے تنے کو ہلائیں تا کہ ان پر تازہ پکی کھجوریں گریں اور وہ اس کو کھائیں اور چشمے کا پانی پی کر طاقت حاصل کریں۔ اب فلسطین میں موسمِ گرما کے وسط یعنی جولائی ، اگست میں ہی کھجوریں ہوتی ہیں، اس سے بھی یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت جولائی یا اگست کے کسی دن میں ہوئی تھی اور25دسمبر کی تاریخ غلط ہے ۔ (مذاہبِ عالم کا تقابلی مطالعہ)نیز انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا کے مقالہ نگار‘شمالی کیلفورنیا کے شہر درہم کی ڈیوک یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ و دینیات کے پروفیسر ڈاکٹر ہانس جے ہلر برانڈکرسمس ڈے کے متعلق لکھتے ہیں کہ ابتدائی عیسائی لوگ حضرت عیسیٰ کی یوم پیدائش اور اس موقع کو بہ حیثیت تہوار منانے کے درمیان فرق کیا کرتے تھے ،در اصل ولادتِ مسیح کو منانے کی رسم بہت بعد میں آئی،بالخصوص عیسائیت کی ابتدائی دو صدیوں کے دوران شہدا یا حضرت عیسیٰ کے یومِ پیدائش کو بہ حیثیت تہوار منانے کے لیے شناخت کرنے کے متعلق ابتدائی عیسائیوں کی طرف سے انتہائی مضبوط مخالفت موجود تھی،بہت سے چرچ فادرز نے یومِ ولادت کو منانے کی پاگان (مشرکانہ) رسم کے متعلق طنز آمیز تبصرے پیش کیے ۔25دسمبر کو ولادتِ مسیح کے طور پر مقرر کرنے کا باقاعدہ آغاز بالکل غیر واضح ہے ، عہد نامہ جدید میں اس بارے میں کوئی سراغ نہیں ملتا ۔اس دن کی بنیاد کے متعلق ایک ہمہ گیر وضاحت یہ ہے کہ25دسمبر در حقیقت پاگان (مشرک)روم کے تہواریعنی نا مغلوب ہونے والے سورج دیوتا کا یومِ پیدائش کی عیسائی شکل تھی،جو کہ رومن سلطنت میں ایک مشہور مقدس دن تھا‘ جسے سورج دیوتا کی حیاتِ نوکی علامت کے طور پر انقلابِ شمسی کے دوران منایا جاتا تھا۔(انسائکلوپیڈیا آف برٹینکا، ڈلکس ایڈیشن، شکاگو، کرسمس، 2009)
کرسمس ٹری
کرسمس کے دوران کرسمس ٹری بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے ، جب کہ یہ تصور جرمنوں کا پیدا کردہ ہے ۔ یہ لوگ کرسمس کے دن حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت جبریل علیہ السلام کا کردار مختلف اداکاروں کے ذریعے ایک ڈرامے کی شکل میں پیش کرتے اور تمام واقعہ دہراتے ہیں‘جو مریم علیہا السلام کے ساتھ مسیح علیہ السلام کی ولادت کے ضمن میں پیش آیا، اور اس واقعے کے دوران درخت کو مریم علیہا السلام کا ساتھی بنا کر پیش کیا جاتاہے کہ وہ اپنی ساری اداسی اور ساری تنہائی اس ایک درخت کے پاس بیٹھ کر گزار دیتی ہیں۔ چوں کہ یہ درخت بھی اسٹیج پر سجایا جاتا تھا اور ڈرامے کے اختتام پر لوگ اس درخت کی ٹہنیاں تبرک کے طور پر اکھیڑ کر ساتھ لے جاتے اور اپنے گھروں میں ایسی جگہ لگا دیتے تھے ‘ جہاں ان کی نظریں اس پر پڑتی رہیں، یہ رسم آہستہ آہستہ کرسمس ٹری کی شکل اختیار کر گئی اور لوگوں نے اپنے اپنے گھروں میں کرسمس ٹری بنانے اور سجانے شروع کر دیے ۔ اس ارتقائی عمل کے دوران کسی ستم ظریف نے اس پر بچوں کے لیے تحائف بھی لٹکا دیے ، جس پر یہ تحائف بھی کرسمس ٹری کا حصہ بن گئے ۔کرسمس ٹری کی بدعت انیسویں صدی تک جرمنی تک محدود رہی، 1847عیسوی کو برطانوی ملکہ وکٹوریہ کا خاوند جرمنی گیااور اسے کرسمس کا تہوار جرمنی میں منانا پڑا تو اس نے پہلی مرتبہ لوگوں کو کرسمس ٹری بناتے اور سجاتے دیکھا‘ اسے یہ حرکت بہت معلوم ہوئی ،لہٰذا وہ واپسی پر ایک ٹری ساتھ لے آیا۔ 1848عیسوی میں پہلی مرتبہ لندن میں کرسمس ٹری بنوایا گیا، جو ایک دیو ہیکل کرسمس ٹری تھا ،جو شاہی محل کے باہر سجایا گیا تھا۔ 25دسمبر 1848ء کو لاکھوں لوگ یہ درخت دیکھنے لندن آئے اور اسے دیکھ کر گھنٹوں تالیاں بجاتے رہے ، اس دن سے لے کر آج تک تقریباً تمام ممالک میں کرسمس ٹری ہر مسیحی گھر میں سجایا جاتا ہے ۔(ایوری مینز انسائیکلوپیڈیا، 1958ء) کرسمس کے موقع پر ایک خاص چیز اور قابلِ ذکر ہے ، وہ ہے سُرخ کپڑے پہنے ، چہرے پر سفید داڑھی سجائے اور کندھے پر لال تھیلا اُٹھائے کرسمس فادر یا سینٹا کلاز کس۔جو بچوں کے لیے تحفے لے کر آتا ہے ، اس لیے کرسمس کے موقع پر اس کا بے صبری سے انتظار کیا جاتا ہے ۔
موجودہ حالت
شروع شروع میں تو جب 25 دسمبر کی تاریخ آتی تو چرچ میں ایک اجتماع ہوتا، ایک پادری صاحب کھڑے ہو کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات اور آپ کی سیرت بیان کر دیتے ، اس کے بعد اجتماع برخواست ہو جاتا۔ گویا کہ بے ضرر اور معصوم طریقے پر یہ سلسلہ شروع ہوا، لیکن کچھ عرصے کے بعد انھوں نے سوچا کہ ہم پادری کی تقریر تو کرا دیتے ہیں، مگر وہ خشک قسم کی تقریر ہوتی ہے ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان اور شوقین مزاج لوگ تو اس میں شریک نہیں ہوتے ، اس لیے اس کو ذرا دلچسپ بنانا چایے ، تاکہ لوگوں کے لیے دل کش ہو، اور اس کو دل چسپ بنانے کے لیے اس میں موسیقی ہونی چاہیے ، چناں چہ اس کے بعد موسیقی پر نظمیں پڑھی جانے لگیں۔ پھر انھوں نے یہ دیکھا کہ موسیقی سے بھی کام نہیں چل رہا ہے ، اس لیے اس میں ناچ گانا بھی ہونا چاہیے ، چناں چہ پھر ناچ گانا بھی اس میں شامل ہو گیا۔ پھر سوچا کہ اس میں کچھ تماشے بھی ہونے چاہئیں، چناں چہ ہنسی مذاق کے کھیل تماشے شامل ہو گئے ، چناں چہ ہوتے ہوتے یہ ہوا کہ وہ کرسمس جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات بیان کرنے کے نام پر شروع ہوا تھا‘ اب وہ عام جشن کی طرح ایک جشن بن گیا، اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ناچ گانا اس میں، موسیقی اس میں، شراب نوشی اس میں، قمار بازی اور جوا اس میں، گویا کہ اب دنیا بھر کی ساری خرافات کرسمس میں شامل ہو گئیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات پیچھے رہ گئیں۔اب آپ دیکھ لیجیے کہ مغربی ممالک میں جب کرسمس کا دن آتا ہے تو اس میں کیا طوفان برپا ہوتا ہے ! [افسوس کہ مشرق بھی اب اس کی پوری نقالی کرنے لگا] اس ایک دن میں اتنی شراب پی جاتی ہے کہ پورے سال اتنی شراب نہیں پی جاتی، اس ایک دن میں اتنے حادثات ہوتے ہیں کہ پورے سال اتنے حادثات نہیں ہوتے ، اس ایک دن میں عورتوں کی اتنی عصمت دری ہوتی ہے کہ پورے سال اتنی نہیں ہوتی اور یہ سب کچھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یومِ پیدائش کے نام پر ہو رہا ہے ۔(اصلاحی خطبات)اس لیے علماے اسلام نے ان تہواروں میں مسلمانوں کو شریک ہونے سے روکا اور تاکید کی ہے کہ مذہبی رواداری بہت عمدہ چیز ہے ، لیکن اغیار کے خاص مذہبی امور میں شرکت درست نہیں۔