ہر بالغ شہری ووٹ ضرور دے

ملک کے مختلف حصوں میں انتخابات جاری ہیں اور شہرِ ممبئی میں جلد ہونے والے ہیں۔اس انتخاب کی اہمیت بھی کچھ زیادہ ہی ہے ۔ایسے میں ہر بالغ شہری یعنی ہر ووٹر کو اور بھی زیادہ بیدار مغزی سے کام لینا ہوگا۔ انسانی سماج ومعاشرے کو منظم طور پر چلانے کے لیے حکومت وسلطنت ایک ناگزیر امر ہے۔ ہر مہذب، سماج اور معاشرہ کسی نہ کسی حکومت کے زیرِ سایہ ہی پروان چڑھتا ہے ۔ حکومت و سلطنت جس قدر صلاح و فلاح کی حامل ہوتی ہے اسی قدراس کے زیرِ نگیں رہنے والی قوم میں یہ خوبیاں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ البتہ حکومت کس طرح وجود میں آئے یہ ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے،جس پر گفتگو کا یہ موقع نہیں،منجملہ ان کے ایک نظام ’جمہوریت ‘ہے۔اسے انگریزی میںDemocracyکہتے ہیں،جس کے اصل معنی ہوتے ہیں ’عوام کی حکومت‘۔ جمہوریت میں انتخابات کا مدار صرف بالغ رائے دہی پر ہوتا ہے اور اہلیت کی کوئی اہمیت نہیںہوتی ۔اس نظام میں ہر کس و ناکس،اہل و نا اہل ،خرد و مجنون ووٹ دے سکتا ہے۔آج تمام فرقہ پرست جماعتیںاسی بات کا فایدہ اٹھانے کے فراق میںہیں۔ایسے میں ہر سیکولر بھارتی اور ہر مسلمان کو خصوصی طور پر ملک کی اخوت و بھائی چارگی کی سا لمیت بنائے رکھنے کے لیے آگے آنا ہوگا۔ان حالات میں کسی بھی سبب سے سیکولر ووٹوں کی تقسیم نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لیے کہ جمہوریت میں محض اکثریت کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔

بنیادی طورپر جمہوریت عوام پر عوامی نمائندوں کے ذریعے عوام کی حکومت کا نام ہے۔ حکمراں عوام کے انتخاب سے مقرر ہوتے ہیں اور وہ عوام کے سامنے اپنے افعال کے بارے میں جواب دہ بھی ہوتے ہیں۔اس حدتک کہا جا سکتا ہے کہ اسلام جمہوری نظامِ حکمرانی کے قریب ہے۔ اسلام خاندانی بادشاہت کا قائل نہیں۔ خلیفہ کا انتخاب عام مسلمانوں کی رائے سے ہوتا ہے اور وہ اپنی عوام کے سامنے جواب دہ بھی ہوتا ہے، لیکن موجودہ جمہوریت اور اسلام کے تصورِ حکمرانی میں دو اساسی فرق ہیں؛ جمہوریت میں عوام کو ہر طرح کی قانون سازی کا حق ہوتا ہے ، گویا تحلیل و تحریم کی کلید ان لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے جن کو عوام نے منتخب کیا ہے۔ اسلام کی نظر میں اصل سرچشمۂ قانون کتاب اللہ اور سنتِ رسول ہے ، اور اس کی تشریح کا حق ان لوگوں کو حاصل ہے جو براہِ راست قرآن و حدیث پر نظر رکھتے ہوں۔ البتہ مجلسِ شوری کو انتظامی مسائل میں قانون سازی اور مشورے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ یہ نہایت دو ر رس نظریاتی اختلاف ہے ۔ دوسرے جمہوریت میں عددی اکثریت کا حاصل کرلینا حکمراں اور حکمرانی کا حصہ بننے کے لیے کافی ہے۔ اس کے لیے کوئی لیاقت و اہلیت ضروری نہیں۔ ہمارے ملک میں پارلیمنٹ اور اسمبلی کے متعدد ایسے ناخواندہ ارکان رہے ہیں جو اپنے دستخط بھی خود نہیں کرسکتے اور نشانِ ابہام سے کام چلاتے رہے ہیں، اور اس وقت ملک کی متعدد مجالس قانون ساز میں ایک تہائی سے زیادہ ایسے ارکان موجودہیںجو پولس کے نامزد سنگین مجرم ہیں، اور بعضوں پر ایک درجن سے زیادہ قتل کے مقدمات ہیں۔ لیکن جو پولس کل ان کا تعاقب کرتی تھی ، آج ان کی حفاظت کے لیے آگے پیچھے ہوتی ہے۔ اسلام اس کا قائل نہیں۔ اسلام میں ایسی اعلیٰ ذمے داریوں کے لیے ایک مقررہ معیار ہے ، اور رائے بھی اصحابِ رائے کی معتبر ہے۔ اس کو مختصر طور پر یوں کہا جاسکتا ہے کہ اسلام میں معیار کے ساتھ مقدار مطلوب ہے اور موجودہ جمہوریت معیار پر مقدار کی فتح سے عبارت ہے ۔تاہم ایک ایسا ملک جہاں مختلف قومیں اور مختلف مذاہب کے ماننے والے برابر کی سطح پر رہتے ہیں۔ جمہوریت ایک نعمت ہے ، اور ان حالات میں اس سے بہتر کوئی نظامِ حکومت نہیں ہوسکتا ۔ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں مسلمان ، یہودی اور مشرکین تینوں اقوام تھیں ، اور آپ ﷺنے ان میں یہی معاہدہ کرایا کہ یہ سب بقائے باہم کے اصول پر مدینہ میں رہیں گے۔ ہر ایک کو اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی ہوگی ، اور مدینے پر کوئی حملہ آور ہو تو سب مل کر دفاع کریں گے۔ ہندستان اور ان جیسے ممالک میں دراصل اسی اصول پر ہم باہم مل جل کر رہ رہے ہیں۔(کتاب الفتاویٰ)

اسی کے ساتھ یہ بات بھی اب ڈھکی چھپی نہیںرہی کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلمانوں کے حق میں پورے طور پر مخلص نہیں ہے۔ہر ایک کے دورِ اقتدار میں مسلمانوں کو ناقابلِ تلافی جانی،مالی نقصان برداشت کرنا پڑاہے۔سیکڑوں منظم فسادات مسلمانوں کی مکمل نسل کشی کے لیے ہو چکے ہیں۔اقتصادیات میں مسلمانوں کو اتنا پیچھے ڈھکیل دیا گیا ہے کہ سچر کمیٹی رپورٹ کے مطابق’مجموعی طور پر مسلمان ہندوستان کی سب سے پس ماندہ ذات ہے‘۔ان سب کے نزدیک مسلمانوں کی حیثیت اس سے زیادہ نہیںکہ ان کے تعاون سے حکومت بنالینے کے بعد انھیں چوسے ہوئے آم کی طرح پھینک دیا جاتا ہے۔ بہت سی جگہوں پر الیکشن لڑنے والے تقریباً تمام امید وار نا اہل ہوتے ہیں اور فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ووٹ کس کودیں۔مذہب کو بنیاد بنا کر ووٹ دیا جائے تو بسا اوقات مسلم امید وار،غیر مسلم امیدوار سے زیادہ مفسد اور خطرناک ہوتا ہے۔اور اگر پارٹی کو وجہِ ترجیح قرار دیا جائے تو کبھی کوئی فاشسٹ اور فرقہ پرست پارٹی کا امیدوارتمام پارٹیوں کے امیدواروں کے بالمقابل زیادہ لائق،محنتی،ذمے دار،عوام دوست ہوتا ہے۔پھر انتخابات میں ہر قسم کی دھاندلیاں بے حد وحساب ہوتی ہیں،بلکہ موجودہ دور میں تو عروج پر ہیں۔مثلاًروپے تقسیم کرکے ووٹ حاصل کرنا۔فریقِ مخالف امیدوار کو کافی بڑی رقم دے کربٹھا دینا۔بلکہ بعض تو ایسی رقم حاصل کرنے کے لیے ہی امیدوار بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔جب کہ کامیاب ہونے کو یقینی بنانے کے لیے قتل وقتال تک کی بھی نوبت آجاتی ہے۔الزام تراشیاں،بہتان طرازیاں تو معمولی سی بات ہے۔

ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی تقریباً پندرہ سترہ فی صد بتائی جاتی ہے اور ہماری جو حالت ہے اس کے بعد دو ہی راستے رہ جاتے ہیں:(۱)یا تو یہ ملک’ہندو راشٹر‘ بن جائے اور ملک کا پورا نظام ہندو تصور کے مطابق چلے(۲)دوسری صورت موجودہ جمہوری نظام کی ہے۔ ظاہر ہے کہ پہلی صورت نہایت خطرناک ہے۔ اس میں نہ ہمارے عائلی قوانین محفوظ رہ سکیں گے ،نہ ہمیں تبلیغِ مذہب کی اجازت ہوگی۔نیز جو بھی شرعی قانون ہندو نظریےسے متصادم ہوگا، ا علانیہ ممنوع ٹھہرے گا۔سرکاری سطح پر اُنھی کی تہذیب کا بول بالا ہوگااور اس پر تنقید و اعتراض کا حق بھی کسی کو حاصل نہ ہوگا۔ایسی صورت میں مسلمانوں کے لیے آنے والی نسلوں کی حفاظت بہت دشوار ہو جائے گی۔دوسری صورت نظامِ جمہوریت ہے۔جو مکمل طور پر تو بہتر نہیں،لیکن نسبتاً کم خراب ہے۔کیوں کہ جب حکومت کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہوگا اور عوام کو قانون سازی کا کام دیا جائے گا اور ہم بھی عوام کا ایک حصہ ہوں گے تو ہم قانونِ شریعت کو قائم رکھنے کی کوشش کریں گے۔گویا جمہوریت دو مصیبتوں میں سے کم تر درجے کی مصیبت ہے اور قاعدہ یہی ہے کہ جہاں دو شر ہوں ،وہاں کم تر درجے کے شر کو قبول کیا جائے ۔اس لیے موجودہ حالات میں مسلمانوں کو شرعی احکام کی پابندی کرتے ہوئے لائق،اہل،محنتی،عوام دوست،قوم کا خیر خواہ ،غیر متعصب،جس کی ذہنیت فرقہ پرستی سے آلودہ نہ ہو،جو ہمارے حقوق کے تحفظ میں معاون بن سکتا ہو،وغیرہ اوصاف کے حامل امیدوار کو کامیاب کرنے کے لیے ضرور ووٹ دینا چاہیے اوراس میںہرگزکوتاہی نہیںکرنی چاہیے۔

جو لوگ اس -جھنجھٹ- میں پڑنے کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں، وہ سمجھ لیں کہ یہ وقت کا ضیاع نہیں بلکہ آپ کا جمہوری حق اور ذمے داری ہے۔ اگر آپ سیاست کے میدان کو گندا تالاب مانتے ہیں، اور اس کی صفائی کی فکر نہیں کرتے تو کل یہ گندگی ہمارے گھروں تک پہنچ جائے گی۔مسلمانوں کے ذمّے تو شرعی طور پر بھی یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ ظالم کو ظلم سے روکیں۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:الناس اذا راؤ الظالم فلم یأخذوا علی یدیہ أو شک أن یعمھم اللّٰہ بعقاب۔اگر لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیں، تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب نازل فرمائیں۔ (جمع الفوائد)اس لیے اپنے ووٹ کو سستی یا کاہلی وغیرہ کے سبب ضایع کرنا یا کسی مفاد کے سبب صحیح استعمال نہ کرناشرعاً ناجائز اور گناہ ہے۔ شرعی نقطۂ نظر سے ووٹ کی حیثیت شہادت اور گواہی کی سی ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:ولا تکتموا الشہادۃ ومن یکتمھا فانہ آثم قلبہ۔اور تم گواہی کو نہ چھپاؤ، جو شخص گواہی کو چھپائے، اس کا دل گناہ گار ہے۔(البقرۃ)رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:من کتم شہادۃ اذا دُعی الیھا کان کمن شھد بالزور۔جس کو شہادت کے لیے بلایا جائے، پھر وہ اسے چھپائے، تو وہ ایساہے جیسے جھوٹی گواہی دینے والا۔(جمع الفوائد) اس طرح غور کریں تو ووٹ محض دنیوی معاملہ نہیں، بلکہ ہمارا جمہوری حق اور شرعی ذمے داری ہے، جسے ضایع ہونے سے بچانا ہم پر واجب ہے۔ &٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here