آیۃُ الکرسی کے دس جملوں کی تفسیر

مفتی ندیم احمد انصاری

قرآن مجید میںسورۂ بقرہ کی آیت نمبر:۲۵۵ کو ’آیۃ الکرسی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آیۃ الکرسی کی احادیثِ شریفہ میں نہایت فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اسے سب آیتوں سے عظیم تر اور تمام آیتوں کا سردار کہا گیا ہے۔ فرض نمازوں کے بعد، سونے کے وقت اور صبح و شام مختلف اوقات میں پڑھنےپر مختلف فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔اس کے مضامین بھی نہایت عالی اور اہم ہیں۔اس ایک آیت میں دس جملے ہیں اور تمام جملوں کی معنویت پر غور کرنے سے عظیم معارف کا عرفان حاصل ہوتا ہے۔ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ آیۃ الکرسی میں اسمِ اعظم بھی پوشیدہ ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی توحیدِ ذات وصفات کا بیان ایک عجیب و غریب انداز میں بیان کیا گیا ہے جس میں -اللہ جل شانہ کا موجود ہونا، زندہ ہونا، سمیع وبصیر ہونا، متکلم ہونا، واجب الوجود ہونا، دائم و باقی ہونا، سب کائنات کا مالک ہونا، صاحبِ عظمت و جلال ہونا؛ کہ اس کے آگے کوئی بغیر اس کی اجازت کے بول نہیں سکتا، ایسی قدرتِ کاملہ کا مالک ہونا کہ سارے عالم اور اس کی کائنات کو پیدا کرنے، باقی رکھنے اور ان کا نظامِ محکم قایم رکھنے سے اس کو نہ کوئی تھکان پیش آتی ہے نہ سُستی، ایسے علمِ محیط کا مالک ہونا جس سے کوئی کھلی یا چھپی چیز کا کوئی ذرہ یا قطرہ باہر نہ رہے-سب شامل ہے۔[معارف القرآن]

آیۃ الکرسی مع ترجمہ

آیت الکرسی یہ ہے:﴿اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ ڬ لَا تَاْخُذُهٗ سِـنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ ۭ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۭ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ؁﴾[البقرۃ](ترجمہ) اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو سدا زندہ ہے، جو پوری کائنات سنبھالے ہوئے ہے، جس کو نہ کبھی اونگھ لگتی ہے، نہ نیند۔ آسمانوں میں جو کچھ ہے ( وہ بھی) اور زمین میں جو کچھ ہے ( وہ بھی) سب اسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کرسکے ؟ وہ سارے بندوں کے تمام آگے پیچھے کے حالات کو خوب جانتا ہے، اور وہ لوگ اس کے علم کی کوئی بات اپنے علم کے دایرے میں نہیں لا سکتےسوائے اس بات کے جسے وہ خود چاہے، اس کی کرسی نے سارے آسمانوں اور زمین کو گھیرا ہوا ہے، اور ان دونوں کی نگہ بانی سے اسے ذرا بھی بوجھ نہیں ہوتا، اور وہ بڑا عالی مقام، صاحبِ عظمت ہے۔[توضیح القرآن]

آیۃ الکرسی کے دس جملوں کی تفسیر

اس آیت میں دس جملے ہیں:

(۱)پہلا جملہ ہے:﴿اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ ﴾اس میں لفظ ﴿اَللّٰهُ﴾ اسمِ ذات ہے جس کے معنی ہیں وہ ذات جو تمام کمالات کی جامع اور تمام نقائص سے پاک ہے۔ ﴿لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ ﴾ میں اسی ذات کا بیان ہے کہ قابلِ عبادت اس ذات کے سوا کوئی چیز نہیں۔

(۲)دوسرا جملہ ہے:﴿اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ ڬ﴾ لفظ ﴿اَلْـحَيُّ﴾ کے معنی عربی زبان میں زندہ کے ہیں۔ اسماے الٰہیہ میں سے یہ لفظ لاکر یہ بتلانا مقصود ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ اور باقی رہنے والا ہے، وہ موت سے بالاتر ہے۔ لفظ ﴿الْقَيُّوْمُ﴾، قیام سے نکلا ہے۔ قیام کے معنی کھڑا ہونا، قائم کھڑے ہونے والے کو کہتے ہیں۔ قیوم اور قیام مبالغے کے صیغے کہلاتے ہیں ان کے معنی ہیں وہ ’جو خود قایم رہ کر دوسروں کو قایم رکھتا اور سنبھالتا ہے‘۔ قیوم حق تعالیٰ کی خاص صفت ہے جس میں کوئی مخلوق شریک نہیں ہوسکتی کیوں کہ جو چیزیں خود اپنے وجود وبقا میں کسی دوسرے کی محتاج ہوں وہ کسی دوسری چیز کو کیا سنبھال سکتی ہیں ؟ اس لیے کسی انسان کو قیوم کہنا جائز نہیں، جو لوگ عبد القیوم کے نام کو بگاڑ کر صرف قیوم بولتے ہیں، گناہ گار ہوتے ہیں۔

(۳)تیسرا جملہ ہے:﴿ لَا تَاْخُذُهٗ سِـنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ ۭ﴾ ہے۔ لفظ ﴿سِـنَةٌ ﴾سین کے زیر کے ساتھ اونگھ کو کہتے ہیں جو نیند کے ابتدائی آثار ہوتے ہیں اور ﴿نَوْمٌ﴾مکمل نیند کو۔ اس جملے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اونگھ اور نیند سب سے بَری وبالا ہے۔ پچھلے جملے میں لفظ قیوم نے جب انسان کو یہ بتلایا کہ اللہ تعالیٰ سارے آسمانوں زمینوں اور ان میں سمانے والی تمام کائنات کو تھامے اور سنبھالے ہوئے ہیں اور ساری کائنات اسی کے سہارے قایم ہے تو ایک انسان کا خیال اپنی جبلت و فطرت کے مطابق اس طرف جانا ممکن ہے کہ جو ذات پاک اتنا بڑا کام کررہی ہے اس کو کسی وقت تھکان بھی ہونی چاہیے، کچھ وقت آرام اور نیند کے لیے بھی ہونا چاہیے، اس دوسرے جملے میں محدود علم و بصیرت اور محدود قدرت رکھنے والے انسان کو اس پر متنبہ کردیا کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے اوپر یا دوسری مخلوقات پر قیاس نہ کرے، اپنا جیسا نہ سمجھے، وہ مثل و مثال سے بالاتر ہے، اس کی قدرتِ کاملہ کے سامنے یہ سارے کام نہ کچھ مشکل ہیں نہ اس کے لیے تکان کا سبب ہیں، اور اس کی ذات پاک تمام تاثرات اور تکان وتعب اور اونگھ اور نیند سے بالاتر ہے۔

(۴)چوتھا جملہ ہے: ﴿لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ﴾اس کے شروع میں لفظ ﴿لَهٗ ﴾کا لام تملیک کے معنی کے لیے آیا ہے، جس کے معنی یہ ہوئے کہ تمام چیزیں جو آسمانوں یا زمین میں ہیں سب اللہ تعالیٰ کی مملوک ہیں، وہ مختار ہے جس طرح چاہے ان میں تصرف فرمادے۔

(۵)پانچواں جملہ ہے: ﴿مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۭ﴾ یعنی ایسا کون ہے جو اس کے آگے کسی کی سفارش کرسکے بدون اس کی اجازت کے، اس میں چند مسائل بیان فرمادیے ہیں؛اول یہ کہ جب اللہ تعالیٰ تمام کائنات کا مالک ہے، کوئی اس سے بڑا اور اس کے اوپر حاکم نہیں تو کوئی اس سے کسی کام کے بارے میں باز پرس کرنے کا بھی حق دار نہیں، وہ جو حکم جاری فرمائیں اس میں کسی کو چوں وچرا کی مجال نہیں، ہاں یہ ہوسکتا تھا کہ کوئی شخص کسی کی سفارش و شفاعت کرے سو اس کو بھی واضح فرمادیا کہ بارگاہِ عزت و جلال میں کسی کو مجالِ دم زدن نہیں، ہاں کچھ اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے ہیں جن کو خاص طور پر کلام اور شفاعت کی اجازت دے دی جائےگی، غرض بلا اجازت کوئی کسی کی سفارش و شفاعت بھی نہ کرسکے گا۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: محشر میں سب سے پہلے میں ساری امتوں کی شفاعت کروںگا، اسی کا نام مقامِ محمود ہے جو حضور ﷺکی خصوصیات میں سے ہے۔

(۶)چھٹا جملہ ہے: ﴿يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے آگے پیچھے کے تمام حالات و واقعات سے واقف و باخبر ہے۔ آگے اور پیچھے کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے پیدا ہونے سے پہلے اور پیدا ہونے کے بعد کے تمام حالات و واقعات حق تعالیٰ کے علم میں ہیں اور یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ آگے سے مراد وہ حالات ہیں جو انسان کے لیے کھلے ہوئے ہیں اور پیچھے سے مراد اس سے مخفی واقعات و حالات ہوں تو معنی یہ ہوں گے کہ انسان کا علم تو بعض چیزوں پر ہے اور بعض پر نہیں، کچھ چیزیں اس کے سامنے کھلی ہوئی ہیں کچھ چھپی ہوئی، مگر اللہ جل شانہ کے سامنے یہ سب چیزیں برابر ہیں، اس کا علم ان سب چیزوں کو یکساں محیط ہے، اور ان دونوں مفہوموں میں کوئی تعارض نہیں، آیت کی وسعت میں یہ دونوں داخل ہیں۔

(۷)ساتواں جملہ ہے:﴿وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ۚ﴾ یعنی انسان اور تمام مخلوقات اللہ کے علم کے کسی حصے کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے، مگر اللہ تعالیٰ ہی خود جس کو جتنا حصۂ علم عطا کرنا چاہیں صرف اتنا ہی اس کو علم ہوسکتا ہے، اس میں بتلا دیا گیا کہ تمام کائنات کے ذرّے ذرّے کا علمِ محیط صرف اللہ جل شانہ کی خصوصی صفت ہے، انسان یا کوئی مخلوق اس میں شریک نہیں ہوسکتی۔

(۸)آٹھواں جملہ ہے: ﴿وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ ﴾یعنی اس کی کرسی اتنی بڑی ہے جس کی وسعت کے اندر ساتوں آسمان اور زمین سمائے ہوئے ہیں۔ اللہ جلِ شانہ نشست وبرخاست اور حیز ومکان سے بالاتر ہیں، اس قسم کی آیات کو اپنے معاملات پر قیاس نہ کیا جائے، اس کی کیفیت و حقیقت کا ادراک انسانی عقل سے بالاتر ہے، البتہ مستند روایاتِ حدیث سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ عرش اور کرسی بہت عظیم الشان جسم ہیں جو تمام آسمان اور زمین سے بہ درجہا بڑے ہیں۔ ابن کثیرؒ نے بہ روایت حضرت ابوذر غفاریؓنقل کیا ہے کہ انھوں نے آں حضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ کرسی کیا اور کیسی ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! ساتوں آسمانوں اور زمینوں کی مثال کرسی کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے ایک بڑے میدان میں کوئی حلقہ انگشتری جیسا ڈال دیا جائے۔اور بعض دوسری روایات میں ہے کہ عرش کے سامنے کرسی کی مثال بھی ایسی ہی ہے جیسے ایک بڑے میدان میں انگشتری کا حلقہ۔

(۹)نواں جملہ ہے: ﴿وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کو ان دونوں عظیم مخلوقات-آسمان و زمین کی حفاظت-کچھ گراں نہیں معلوم ہوتی، کیوں کہ اس قادرِ مطلق کی قدرتِ کاملہ کے سامنے یہ سب چیزیں نہایت آسان ہیں۔

(۱۰)دسواں اور آخری جملہ ہے: ﴿وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ؁ ﴾یعنی وہ عالی شان اور عظیم الشان ہے۔
پچھلے نو جملوں میں حق تعالیٰ کی ذات وصفات کے کمالات بیان ہوئے ہیں، ان کو دیکھنے اور سمجھنے کے بعد ہر عقل رکھنے والا انسان یہی کہنے پر مجبور ہے کہ ہر عزت و عظمت اور بلندی و برتری کی مالک وسزا وار وہی ذات پاک ہے۔ ان دس جملوں میں اللہ تعالیٰ کی صفاتِ کمال اور اس کی توحید کا مضمون پوری وضاحت اور تفصیل کے ساتھ آگیا۔ [معارف القرآن]

[کالم نگار الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے صدر و مفتی ہیں]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here