موبائل و انٹرنِٹ کے ذریعے ایمان کی آزمائش

ندیم احمد انصاری

مومن ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات ، حضرت محمد ﷺ کی رسالت اور موت کے بعد اٹھائے جانے یعنی آخرت پر ایمان رکھے۔مومن ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا یہ پختہ عقیدہ ہو کہ دنیا کی زندگی کے بعد آخرت کی زندگی آنے والی ہے اور روزِ قیامت باری تعالیٰ کے حضور ہر ایک کی پیشی ہونی ہے۔وہ اللہ جس کا علم تمام ظاہر و پوشیدہ کو محیط ہے، اس سے کسی کا کوئی قول و فعل چھپا نہیں رہ سکتا۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:اِنِّىْٓ اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ.بے شک! میں آسمانوں اور زمین کے بھید جانتا ہوں اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو، مجھے اس سب کا علم ہے ۔(البقرۃ)قرآن مجید میں ایک مقام پر فرمایا:وَاِنْ تَجْــهَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّهٗ يَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰي . اگر تم کوئی بات بلند آواز سے کہو ( یا آہستہ)، تو وہ چپکے سے کہی ہوئی باتوں کو، بلکہ اور زیادہ چھپی ہوئی باتوں کو بھی جانتا ہے۔(طہ) ایک مقام پر فرمایا:عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيْرُ الْمُتَعَالِ. وہ غائب و حاضر تمام باتوں کا جاننے والا ہے، اس کی ذات بہت بڑی ، اس کی شان بہت اونچی ہے۔(الرعد) اور فرمایا: اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ۭ اِنَّ ذٰلِكَ فِيْ كِتٰبٍ ۭ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرٌ.کیا تم نہیں جانتے کہ آسمان اور زمین کی تمام چیزیں اللہ کے علم میں ہیں ؟ یہ سب باتیں ایک کتاب میں محفوظ ہیں، بے شک! یہ سارے کام اللہ کے لیے بہت آسان ہیں۔ (الحج)نیز باری تعالیٰ کا فرمانِ عالی شان ہے:هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِـتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْـتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ ۭ يَعْلَمُ مَا يَـلِجُ فِي الْاَرْضِ وَمَا يَخْــرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاۗءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيْهَا ۭ وَهُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ.وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھے دن میں پیدا کیا، پھر عرش پر استوا فرمایا۔ وہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتی ہے اور جو اس سے نکلتی ہے۔ اور ہر اس چیز کو جو آسمان سے اترتی ہے اور جو اس میں چڑھتی ہے۔ اور تم جہاں کہیں ہو وہ تمھارے ساتھ ہے، اور جو کام بھی تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھتا ہے۔ (الحدید)

اللہ تعالیٰ ہر موقع پر بندے کے ساتھ ہوتے ہیں، بھلے ہی انسان کو اس کا ادراک نہیں ہو پاتا۔قرآن مجید میں فرمایا گیا:اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ مَا يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ اِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ اِلَّا هُوَ مَعَهُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا ۚ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭاِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ.کیا تم نے نہیں دیکھا کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، اللہ اسے جانتا ہے ؟ کبھی تین آدمیوں میں کوئی سرگوشی ایسی نہیں ہوتی جس میں چوتھا وہ نہ ہو، اور نہ پانچ آدمیوں کی کوئی سرگوشی ایسی ہوتی ہے جس میں چھٹا وہ نہ ہو۔ اور چاہے سرگوشی کرنے والے اس سے کم ہوں یا زیادہ، وہ جہاں بھی ہوں ،اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔پھر وہ قیامت کے دن انھین بتائے گا کہ انھوں نے کیا کچھ کیا تھا؟ بے شک! اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ (المجادلہ)یہ جو فرمایا کہ قیامت کے دن بتائے گا کہ تم نے کیا کچھ کیا ہے،اس کی وضاحت یوں فرما دی کہ مونہوں پر مہر لگا کر، انسان کے اعضا سے پوچھا جائے گا کہ ان سے کیا اعمال کروائے گئے۔ ارشاد فرمایا گیا:اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓي اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَيْدِيْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ. آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ہم سے ان کے ہاتھ کلام کریں گے اور ان کے پاؤں اس کی گواہی دیں گے، جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔ (یٰس)

وہ تو قادر و مالک ہے، اس کے لیے کیسے کوئی کام مشکل ہو سکتا ہے، جب کہ اس کی پیدا کردہ مخلوق نے ایسے ایسے آلات ایجاد کر لیے ہیں جن کی مدد سے دور دراز بیٹھے کسی انسان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔فی زمانہ بعض ایسی موبائل ایپ بھی وجود میں آچکی ہیں، جن کی مدد سے انسان کے قدموں کے اعداد و شمار تک معلوم کیے جا سکتے ہیں۔تو خدا کی قدرت کا تو کیا کہنا!اس لیے گنہ گار کو دھیان پیدا کرنا چاہیے کہ میرا اللہ ہر وقت مجھ پر نگاہ رکھے ہوئےہے، میرا کوئی قول و عمل ایسا نہیں، جس کی اسے خبر نہ ہو۔باری تعالیٰ کا فرمان ہے:وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ ښ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ. اِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيٰنِ عَنِ الْيَمِيْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيْدٌ.مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ. اور بے شک ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں ان وسوسوں کو جو اس کے جی میں آتے ہیں اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں۔اس وقت بھی جب (اعمال کو) لکھنے والے دو فرشتے لکھ رہے ہوتے ہیں،ایک دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب بیٹھا ہوتا ہے۔ انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا، مگر اس پر ایک نگراں مقرر ہوتا ہے، ہر وقت (لکھنے کے لیے) تیار۔ (ق) اس کے باوجود افسوس ہے ہم گنہ گاروں پر کہ ہم گناہ کرتے ہوئے انسانوں سے تو شرماتے ہیں کہ کوئی ہماری الٹی سیدھی بات کوئی نہ سن لے، غلط چیٹ (chat) نہ پڑھ لے، غلط کاری میں ملوث نہ دیکھ لے، لیکن اس خداوندِ قدوس سے نہیں شرماتے، جس کا ارشاد ہے: يَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰهِ وَھُوَ مَعَھُمْ اِذْ يُبَيِّتُوْنَ مَا لَا يَرْضٰى مِنَ الْقَوْلِ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ بِمَا يَعْمَلُوْنَ مُحِيْطًا. یہ لوگوں سے تو شرماتے ہیں، اور اللہ سے نہیں شرماتے، حالاں کہ وہ اس وقت بھی ان کے پاس ہوتا ہے جب وہ راتوں کو ایسی باتیں کرتے ہیں جو اللہ کو پسند نہیں اور جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ نے اس سب کا احاطہ کر رکھا ہے۔ (النساء)اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا: اتَّقِ اللَّهِ حَيْثُمَا كُنْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا، ‏‏‏‏‏‏وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ. جہاں کہیں بھی ہو اللہ سے ڈرو اور برائی کے بعد بھلائی کرو تاکہ وہ اسے مٹا دے، اور لوگوں سے اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آؤ۔(ترمذی)

اس تمہید کے بعد عرض یہ کرنا ہے کہ آج ہمارا ایمان موبائل اور انٹرنٹ کے ذریعے آزمایا جا رہا ہے۔ ہم جلوت میں تو نیک ہوتے ہیں، لیکن خلوت میں ہمارا حال دوسرا ہوتا ہے۔ہم خدا کی ادنیٰ مخلوق یہاں تک کہ چھوٹے بچوں کے سامنے گناہ کرنے میں تو عار محسوس کرتے ہیں، لیکن اللہ کے سامنے گناہ کرنے سے نہیں ڈرتے۔ ہمارا ماننا تو یہ ہے کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں وہ سب خدا کو معلوم ہے، لیکن پھر بھی تنہائی اور خلوت میں اللہ کی نافرمانیوںمیں مبتلا ہونے سے نہیں چوکتے؟غلط سائٹس، فحش تصویروں اور نامناسب باتوں میں ہم اس وقت ہرگز مشغول نہیں ہوتے، جب ہمارے استاذ، والدین بلکہ کسی کے بھی دیکھ لینے کا اندیشہ ہو،لیکن اللہ کے موجود ہوتے ہوئے سارے گناہ کرتے رہتے ہیں؟ہم اپنے موبائل کی ہسٹری تو ڈلیٹ کر سکتے ہیں، لیکن اپنے نامۂ اعمال کی سیاہی دھونا اس طرح ممکن نہیں؟کتنے افسوس کی بات ہے کہ اگر ہم کسی گناہ میں ملوث ہوں اور ہوا کے جھونکے سے پردہ بھی ہِل جائے، تو ہم ڈر جاتے ہیں، لیکن اس قادر و قہار کا عرش ہِل جائے، اس کی ہمیں پروا نہیںہوتی! ہمیں سماج و معاشرے میں تو اپنی شبیہ اور امیج خراب ہونے کا ڈر ستاتا ہے،لیکن قیامت کے دن کی رسوائی سے ہم بے فکر ہوئے بیٹھے ہیں؟

رسول اللہ ﷺکا پیارا ارشاد ہے: میرے دوستوں میں سب سے قابلِ رشک وہ شخص ہے جو کم مال والا، نماز میں زیادہ حصہ رکھنے والا، اور اپنے رب کی اچھی طرح عبادت کرنے والا ہے، نیز یہ کہ جو خلوت میں بھی اپنے رب کی اطاعت کرے، لوگوں میں چھپا رہے، اور اس کی طرف انگلیوں سے اشارے نہ کیے جائیں ،اس کا زرق بہ قدر کفایت ہو، اور وہ اسی پر صبر کرتا ہو۔ پھر حضرت نبی کریم ﷺ نے دونوں ہاتھوں سے چٹکیاں بجائیں اور فرمایا؛ اس کی موت جلدی آئے اور اس پر رونے والیاں کم ہوں اور اس کی میراث بھی کم ہو۔عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ أَغْبَطَ أَوْلِيَائِي عِنْدِي لَمُؤْمِنٌ خَفِيفُ الْحَاذِ ذُو حَظٍّ مِنَ الصَّلَاةِ أَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ وَأَطَاعَهُ فِي السِّرِّ وَكَانَ غَامِضًا فِي النَّاسِ لَا يُشَارُ إِلَيْهِ بِالْأَصَابِعِ وَكَانَ رِزْقُهُ كَفَافًا فَصَبَرَ عَلَى ذَلِكَ ثُمَّ نَفَضَ بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عُجِّلَتْ مَنِيَّتُهُ قَلَّتْ بَوَاكِيهِ قَلَّ تُرَاثُهُ.(ترمذی )حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا: سات آدمیوں کو اللہ تعالیٰ اس دن اپنے عرش کے سائے میں رکھے گا، جس دن اس کے عرش کے سائے کے سوا کوئی اور سایہ نہ ہوگا(۱)عادل بادشاہ (۲)وہ شخص جس کا دل مسجدوں میں لگا رہتا ہو (۳،۴)وہ دو اشخاص جو باہم صرف اللہ کے لیے دوستی رکھیں،جب جمع ہوں تو اسی کے لیے، اور جب جدا ہوں تو اسی کے لیے (۵) وہ شخص جس کو کوئی منصب اور جمال والی عورت زنا کے لیے بلائے اور وہ یہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، اس لیے میںایسا کام نہیں کر سکتا (۶)وہ شخص جو پوشیدہ صدقہ دے، یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو کہ اس کے داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا (۷) وہ شخص جو خلوت میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوجائیں۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ، ‏‏‏‏‏‏الْإِمَامُ الْعَادِلُ، ‏‏‏‏‏‏وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ رَبِّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ أَخْفَى حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ.(بخاری)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here