احسان جتانے سے نیکی برباد گناہ لازم

مفتی ندیم احمد انصاری

تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے، اگر ہم کسی طور بھی کسی کے کام آسکیں، یہ اس فیاض داتا کا فضل و احسان ہے۔ آج کل لوگوں میں اول تو کسی کے کام آنے کا جذبہ ختم ہوتا جا رہا ہے، اس سے بڑھ کر یہ کہ احسان جتانے کا جذبہ پروان چڑھ رہا ہے۔ کچھ لوگ کرنے کے وقت تو کچھ نہیں کہتے، لیکن کسی خاص موقع کے انتظار میں رہتے ہیں اور بالآخر احسان بتا یا جتا کر ہی دم لیتے ہیں، اور اپنے پرائے،دوست احباب، بھائی بہن، میاں بیوی، اولاد والدین اور شاگرد استاذ کے سامنے بھی احسان جتانے سے نہیں چوکتے۔کھلے لفظوں میں نہیں تو دبے لفظوں یا اشاروں کنایوں میں وہ کوئی نہ کوئی ایسی حرکت بالقصد یا بلاقصد ضرور کر دیتے ہیںجس سے سامنے والے کے دل میں یہ احساس پیدا ہو کہ کاش اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کا احسان مند نہ کیا ہوتا! اس رویّے سے آپسی محبت اور تعلق پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔احسان جتانے والا شاید بھول جاتا ہے کہ مجھے بھی کبھی کسی کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ بعض تو زندگی بھر جس کے احسان مند رہے ہوں، ذرا سا کام آنے پر اس کے سامنے بھی احسان جتانے لگتے ہیں۔

احسان جتانا اور احسان جتانے والا

احسان جتانے یا جتلانے والے کو عربی میں ’منّان‘کہتے ہیں۔حضرت ابوذرؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’منان‘ وہ ہے جو احسان جتلائے بغیر کچھ نہیں دیتا۔[ابوداود]

 احسان جتانا: ایک آفت

انسان کا کسی پر احسان کرنا بہت بڑی نیکی، لیکن احسان کرکے اسے جتا دینا بہت بری صفت ہے۔حضرت علیؓسے روایت ہے: ظرافت کی آفت ڈینگیں مارنا، شجاعت کی آفت سرکشی، احسان کی آفت احسان جتلانا، حسن و جمال کی آفت تکبر، عبادت کی آفت توقف، بات کی آفت جھوٹ، علم کی آفت نسیان، بردباری کی آفت بےوقوفی، خاندانی شرافت کی آفت فخر، جو دو سخا کی آفت اسراف اور دین کی آفت ہَوا پرستی ہے۔[کنزالعمال]

احسان نہ جتانے والوں کی فضیلت

مومن کا ہر قول و فعل اللہ کے لیے ہوتا ہے، جب تمام اعمال اس رب کی رضا و محبت کے لیے کیے جائیںتو بندوں پر احسان جتانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جو لوگ احسان کر کے جتاتے ہیں، وہ یا تو حبِ جاہ اور حبِ مال کے مریض ہیں یا بدلے کے خواہاں، جب کہ نیکی کر کے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے ثواب کا امیدوار ہونا چاہیے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:جو لوگ اپنے مال اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتلاتے ہیں اور نہ کوئی تکلیف پہنچاتے ہیں، وہ اپنے پروردگار کے پاس اپنا ثواب پائیں گے، انھیںنہ کو کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ کوئی غم پہنچے گا۔ [البقرۃ]مخلوق کے ساتھ کیے جانے والے احسان کی بہترین جزا اللہ تعالیٰ خود احسان کی صورت میں عنایت فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا  ارشاد ہے:احسان کا بدلہ احسان کے سوا اور کیا ہے ؟[الرحمن]

احسان جتانا کبیرہ گناہ ہے

’المنّ‘ کسی نعمت و احسان کا ذکر کرنا ہے اس کو شمار کرنے اور گننے کے لیے اور اس کے سبب (دوسرے کو) پریشان کرنے کے لیے، مثلاً وہ یہ کہے : میں نے تجھ پر احسان کیا اور تجھے ہلاک ہونے سے بچا لیا، اور اسی کے مشابہ دیگر الفاظ۔ بعض نے کہا ہے : المن کا مفہوم ہے؛ اس کے بارے میں گفتگو کرنا جو اس نے دیا، یہاں تک کہ وہ گفتگو اس تک پہنچ جائے جسے دیا گیا اور وہ اس کے لیے باعث تکلیف ہو، اور احسان جتلانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔[تفسیر قرطبی]

اللہ کا احسان ہے، ہمارا کوئی احسان نہیں

جو شخص احسان کر کے جتلا دے اس سے بہتر وہ شخص ہے جو بھلے ہی کام نہ آسکے، لیکن دو بول محبت کے بول لے۔ اس لیے عقل مند انسان کو محض اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے احسان کرنا چاہیے اور خوب خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی بےنیاز ہے، یہ اس کا فضل و احسان ہے کہ ہمیں اس لایق بنایا کہ ہم کسی کے کام آسکیں، ہمارا کسی پر کوئی احسان نہیں۔ ارشادِ ربانی ہے:بھلی بات کہہ دینا اور درگزر کرنا اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد کوئی تکلیف پہنچائی جائے، اور اللہ بڑا بےنیاز، بہت بردبار ہے۔[البقرۃ]

احسان جتانے اور نہ جتانے والے کی مثال

احسان جتانے والا دنیا میں اپنی نیکی کا بدلہ چاہتا ہے اور اس طرح نیکی برباد اور گناہ لازم کر لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اے ایمان والو اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور تکلیف پہنچا کر اس شخص کی طرح ضایع مت کرو جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا، چناں چہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چکنی چٹان پر مٹی جمی ہو، پھر اس پر زور کی بارش پڑے اور اس (مٹی کو بہا کر چٹان) کو (دوبارہ) چکنی بنا کر چھوڑے۔ ایسے لوگوں نے جو کمائی کی ہوتی ہے وہ ذرا بھی ان کے ہاتھ نہیں لگتی، اور اللہ ( ایسے) کافروں کو ہدایت تک نہیں پہنچاتا۔ نیز فرمایا:اور جو لوگ اپنے مال اللہ کی خوش نودی طلب کرنے کے لیے اور اپنے آپ میں پختگی پیدا کرنے کے لیے خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک باغ کسی ٹیلے پر واقع ہو، اس پر زور کی بارش برسے تو وہ دگنا پھل لے کر آئے، اور اگر اس پر زور کی بارش نہ بھی برسے تو ہلکی پھوار بھی اس کے لیے کافی ہے، اور تم جو عمل بھی کرتے ہو اللہ اسے خوب اچھی طرح دیکھتا ہے۔ [البقرۃ]

احسان جتانے والا جنت سے محروم

حضرت ابوبکر صدیقؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: دھوکا دینے والا ، کنجوس اور احسان جتانے والا جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔[ترمذی]
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے: جنت کی خوش بو پانچ سو سال کی مسافت سے سونگھی جاسکتی ہے، لیکن احسان جتلانے والا، والدین کا نافرمان، اور دائمی شراب پینے والا جنت کی خوش بو سے بھی محروم رہیںگے۔[کنزالعمال]

احسان جتانا صرف مال کے ساتھ خاص نہیں

احسان جتانا صرف مال کے ساتھ خاص نہیں کہ کوئی شخص مال خرچ کر کے اس پر احسان جتلائے، کسی کے ساتھ کوئی بھی نیکی کرکے اسے اس  طرح جتانا کہ میں نے تمھارے لیے یہ کیا، یہ بھی احسان جتلانا ہے۔مذکورہ بالا آیت میں صدقے کا ذکر ہے اور حضرت نبی کریم ﷺ نے ہر نیکی کو صدقے سے تعبیر کیا ہے۔حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا: ہر نیکی صدقہ ہے۔ [بخاری]حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: انسان کے ہر جوڑ پر ایک صدقہ روزانہ واجب ہوتا ہے، کوئی شخص کسی کی سواری میں مدد کرے، اس کو اس پر چڑھائے یا اس کا اسباب اس پر رکھوا دے یہ بھی صدقہ ہے، کسی سے اچھی بات کہنا بھی صدقہ ہے، ہر قدم جو نماز کے لیے بڑھے وہ بھی صدقہ ہے، کسی مسافر کو راستہ بتا دینا بھی صدقہ ہے۔[بخاری]حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمھارا اپنے مسلمان بھائی کے سامنے مسکرانا، نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا، سب صدقہ ہے، کسی بھولے بھٹکے کو راستہ بتا دینا، نابینا کے ساتھ چلنا، راستے سے پتھر، کانٹا یا ہڈی وغیرہ ہٹا دینا، اور اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں پانی ڈال دینا بھی صدقہ ہے۔[ترمذی]

احسان جتانے والے سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی

حضرت ابوذرؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تین آدمیوں سے کلام نہیں کرے گا: (۱)ایک وہ شخص جو ہر نیکی کا احسان جتلاتا ہے (۲)دوسرا وہ شخص جو جھوٹی قسم کھا کر سامان بیچتا ہے (۳)تیسرا وہ شخص جو اپنے کپڑوں کو ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے۔[مسلم] یہ مضمون ’ابوداود‘،’ترمذی‘ اور ’ابن ماجہ‘ وغیرہ میں اور بھی سخت الفاظ کے ساتھ وارد ہوا ہے، ان میں حضرت ابوذرؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تین آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کی طرف نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟ وہ تو برباد اور خسارے میں پڑ گئے! آپﷺ نےفرمایا: ایک احسان جتلانے والا، دوسرا تکبر کی وجہ سے شلوار؍ تہبند وغیرہ ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اور تیسرا جھوٹی قسم کے ساتھ مال بیچنے والا۔[ترمذی]

[کالم نگار الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے صدرو مفتی ہیں]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here