اسلام میں تعددِ ازواج صرف ضرورت کے تحت

اسلام میں تعددِ ازواج صرف ضرورت کے تحت
ندیم احمد انصاری

6اپریل 2017ء کو بعض اخبارات میں یہ خبر شایع ہوئی کہ بامبے ہائی کورٹ کی پنجی بینچ نے 27 سالہ ایک شخص کو عصمت دری کے الزامات سے یہ کہہ کر بَری کر دیا کہ اس کے اور شکایت کنندہ کے درمیان گہرا عشق تھا اور اس بنا پر جسمانی تعلقات قایم ہوئے تھے۔ جب کہ اطلاع کے مطابق نچلی عدالت نے آئی پی سی کی دفعہ 376 کے تحت اسے مجرم قرار دیتے ہوئے 10 سال کی قید اور دس ہزار روپے جرمانہ عائد کیا تھا۔ خبر میں اس کے علاوہ بھی چند ایسے ہی واقعات کا ذکر تھا، ان سب کو یہاں ذکر کرنا کچھ ضروری محسوس نہیں ہوتا۔ خبر کو پڑھتے ہیں ذہن میں غالب کا مصرع گردش کرنے لگا؎
حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
ایک عرصے سے اسلامی نظامِ معاشرت کو وطنِ عزیز میں قیل و قال جاری ہے اور اس میں تبدیلیاں لانے کی بات کہی جا رہی ہے۔ وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اس میں بعض مسائل ایسے ہیں جو خواتین کے حقوق کے خلاف ہیں۔ من جملہ ان کےتعددِ ازواج کا مسئلہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔انتہائی حیرت ہوتی ہے کہ آپسی رضامندی سے معاشقے اور جسمانی تعلقات کو تو باقاعدہ عدالت سے اجازت دی جا رہی ہے اور اسلام کے پاکیزہ نظامِ معاشرت میں ضرورت کے تحت کیے جانے والے تعددِ ازواج پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ اسے عدالتِ عظمی میں چیلنج کیا جاتا ہے۔ ہیہات ہیہات!اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ مختصر انداز میں تعددِ ازواج پر قرآن مجید اور اس کی تفسیروں سے روشنی ڈال دی جائے، تاکہ کسی حد تک غلط فہمیوں کا ازالہ ہو اور اہلِ خرد کے لیے تشفی کا سامان۔ کیوں کہ ہمارا ماننا ہے کہ مسلمانوں میں بھی ایک بڑی تعداد اس طرح کے مسائل کو اصل مآخذ میں دیکھنے کے بجائے مستشرقین یا اہلِ مغرب کی مصنفہ کتابوں میں دیکھ کر غلط فہمی کا شکار بنی ہوئی ہے، جو کسر بچ رہی تھی، وہ سنیمنا اور ٹی وی وغیرہ نے پوری کر دی۔ ملاحظہ ہو:

ارشادِ ربانی ہے:وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ، فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ، ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا۔اور اگر تمھیں یہ اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف سے کام نہیں لے سکو گے تو (ان سے نکاح کرنے کے بجائے) دوسری عورتوں میں سے کسی سے نکاح کرلو جو تمھیں پسند آئیں؛ دو دو سے، تین تین سے، اور چار چار سے۔ ہاں! اگر تمھیں یہ خطرہ ہو کہ تم ( ان بیویوں) کے درمیان انصاف نہ کرسکو گے، تو پھر ایک ہی بیوی پر اکتفا کرو، یا ان کنیزوں پر جو تمھاری ملکیت میں ہیں۔ اس طریقے میں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ تم بےانصافی میں مبتلا نہیں ہوگے۔ (النساء)

اس آیت کے ذیل مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رقم طراز ہیں کہ ایک مرد کے لیے متعدد بیبیاں رکھنا اسلام سے پہلے بھی تقریباً دنیا کے تمام مذاہب میں جائز سمجھا جاتا تھا۔ عرب، ہندوستان، ایران، مصر، بابل وغیرہ ممالک کی ہر قوم میں کثرتِ ازواج کی رسم جاری تھی اور اس کی فطری ضرورتوں سے آج بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ دورِ حاضر میں یورپ نے اپنے متقدمین کے خلاف تعددِ ازواج کو ناجائز کرنے کی کوشش کی، تو اس کا نتیجہ بےنکاحی داشتاؤں کی صورت میں برآمد ہوا، بالآخر فطری قانون غالب آیا اور اب وہاں کے اہلِ بصیرت حُکما خود اس کو رواج دینے کے حق میں ہیں۔ مسٹر ڈیون پورٹ جو ایک مشہور عیسائی فاضل ہے، تعددِ ازواج کی حمایت میں انجیل کی بہت سی آیتیں نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے :’ ان آیتوں سے یہ پایا جاتا ہے کہ تعددِ ازواج صرف پسندیدہ ہی نہیں، بلکہ خدا نے اس میں خاص برکت دی ہے۔ ‘اسی طرح پادری نکسن اور جان ملٹن اور اپزک ٹیلر نے پُرزور الفاظ میں اس کی تائید کی ہے۔اسی طرح ویدک تعلیم غیر محدود تعددِ ازدواج کو جائز رکھتی ہے اور اس سے دس دس، تیرہ تیرہ، ستائیس ستائیس بیویوں کو ایک وقت میں جمع رکھنے کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔کرشن جو ہندوؤں میں واجب التعظیم اوتار مانے جاتے ہیں، ان کی سیکڑوں بیبیاں تھیں۔ جو مذہب اور قانونِ عفت و عصمت کو قائم رکھنا چاہتا ہو اور زنا کاری کا انسداد ضروری جانتا ہو، اس کے لیے کوئی چارہ نہیں کہ تعددِ ازواج کی اجازت دے۔ اس میں زنا کاری کا بھی انسداد ہے اور مَردوں کی بہ نسبت عورتوں کی جو کثرت بہت سے علاقوں میں پائی جاتی ہے، اس کا بھی علاج ہے۔ اگر اس کی اجازت نہ دی جائے تو داشتہ اور پیشہ ور کسبی عورتوں کی افراط ہوگی، یہی وجہ ہے کہ جن قوموں میں تعددِ ازواج کی اجازت نہیں، ان میں زنا کی کثرت ہے۔ یوروپین اقوام کو دیکھ لیجیے ان کے یہاں تعددِ ازواج پر تو پابندی ہے، مگر بہ طور دوستانہ جتنی بھی عورتوں سے مرد زنا کرتا ہے، اس کی پوری اجازت ہے، کیا تماشہ ہے کہ نکاح ممنوع اور زنا جائز! (معارف القرآن)

مولانا ادریس کاندھلوی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ اسلام آیا اور اس نے تعددِ ازدواج کو جائز قرار دیا، مگر اس کی حد مقرر کر دی کہ چار سے تجاوز نہ کیا جائے، اس لیے کہ نکاح سے مقصود عفت اور تحصینِ فرج ہے یعنی پاک دامنی اور شرم گاہ کی زنا سے حفاظت مقصود ہے، چار عورتوں میں جب ہر تین شب کے بعد عورت کی طرف رجوع کرے گا تو اس کے حقوقِ زوجیت پر کوئی اثر نہ پڑے گا۔شریعتِ اسلامیہ نے غایت درجے اعتدال اور توسط کو ملحوظ رکھا، نہ تو جاہلیت کہ طرح غیر محدود کثرت کی اجازت دی کہ جس سے شہوت رانی کا دروازہ کھل جائے اور نہ اتنی تنگی کی کہ ایک سے زائد کی اجازت ہی نہ دی جائے، بلکہ بین بین حالت کو برقرار رکھا کہ چار تک اجازت دی۔ (سیرۃ المصطفیٰ)افسوس! صد ہزار افسوس کہ اہلِ مغرب وغیرہ اسلام کے اس جائز اور سراپا مصلحت آمیز تعددِ ازدواج پر تو عیش پسندی کا الزام لگائیں اور غیر محدود و ناجائز تعلقات اور بلا نکاح کی لا تعداد آشنائی کو تہذیب اور تمدن سمجھیں۔ زنا جو کہ تمام انبیا و مرسلین کی شریعتوں میں حرام اور تمام حکما کی حکمتوں میں قبیح اور شرم ناک فعل رہا، مغرب کے مدعیانِ تہذیب کو اس کا قبح نظر نہیں آتا اورتعددِ ازدواج کہ جو تمام انبیا و مرسلین اور تمام حکما اور عُقلا کے نزدیک جائز اور مستحسن رہا، وہ ان کو قبیح نظر آتا ہے۔ ان مہذب قوموں کے نزدیک تعددِ ازدواج تو جرم ہے اور زنا اور بدکاری اور غیرعورتوں سے آشنائی جرم نہیں، ان مہذب قوموں میں تعددِ ازدواج کی ممانعت کا قانون موجود ہے مگر زنا کی ممانعت کا کوئی قانون نہیں۔ (ایضاً)

سر سید احمد خان صاحب کا خیال ہے کہ فطرتِ اصلی جب کہ اس میں کوئی اور عوارض داخل نہ ہوں تو اُس کا مقتضی یہ ہے کہ مرد کے لیے ایک ہی عورت ہونی چاہیے، مگر مرد کو جسے امورِ تمدن سے بہ نسبت عورت کے زیادہ تر تعلق ہے ایسے امور پیش آتے ہیں جن سے بعض اوقات اُس کو اُس اصلی قانون سے عدول کرنا پڑتا ہے اور حقیقت میں وہ عدول نہیں ہوتا بلکہ دوسرا قاعدہ قانونِ فطرت کا اختیار کرنا ہوتا ہے۔ اگر یہ قاعدہ قرار پاتا کہ جب تک ایک عورت سے قطعِ تعلق نہ ہو جائے تو دوسری عورت ممنوع رہے تو اس میں ان عورات پر اکثر حالت میں نہایت بے رحمی کا برتاؤ جائز رکھا جاتا اور اگر اُس قطعِ تعلق کو اُس کی موت پر یا کسی خاص فعل کے سرزد ہونے پر منحصر رکھا جاتا تو مرد کو بعض صورتوں میں منہیات پر رغبت دلانی ہوتی اور بعض صورتوں میں اس کی ضرورتِ تمدن کو روکنا ہوتا، پس مرد کو حالاتِ خاص میں تعددِ ازواج کا مجاز رکھنا فطرتِ انسانی کے مطابق عمدہ فوائد پر مبنی تھا۔اگر ایک عورت ایسے امراض میں مبتلا ہو جاوے کہ اُس کی حالت قابلِ رحم ہو مگر معاشرت کے قابل نہ رہے، کوئی عورت عقیمہ ہو، جس کے سبب مرد کی خواہشِ اولاد پوری نہ ہو سکتی ہو (اور جو ایک ایسا امر ہے کہ انبیا بھی اُس کی تمنا سے خالی نہ تھے) تو کیا یہ مناسب ہوگا کہ ایک بے رحمانہ طریقہ اُس سے قطع تعلق کا اختیار کیے بغیر دوسری عورت جائز نہ ہو، یا اُس کی موت کے انتظام میں مرد کو اُن امیدوں کے حاصل کرنے میں جو بہ لحاظ تمدن اُس کے لیے ضروری ہیں روکا جاوے۔یہ ایسے امور ہیں کہ بہ مقتضاے فطرتِ انسانی رک نہیں سکتے اور جب روکے جاتے ہیں تو اُس سے زیادہ خرابیوں میں مبتلا کرتے ہیں۔(دیکھیے تفسیر القرآن)

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب نے لکھا ہے کہ بعض لوگ اہلِ مغرب کی مسیحیت زدہ رائے سے مغلوب و مرعوب ہو کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن کا اصل مقصد تعددِ ازواج کے طریقے کو ( جو مغربی نقطۂ نظر سے فی الاصل برا طریقہ ہے) مٹا دینا تھا، مگر چوں کہ یہ طریقہ بہت زیادہ رواج پا چکا تھا اس لیے اس پر صرف پابندیاں عائد کر کے چھوڑ دیا گیا، لیکن اس قسم کی باتیں دراصل محض ذہنی غلامی کا نتیجہ ہیں۔ تعددِ ازواج کا فی نفسہٖ ایک برائی ہونا بجائے خود ناقابلِ تسلیم ہے، کیوں کہ بعض حالات میں یہ چیز ایک تمدنی اور اخلاقی ضرورت بن جاتی ہے، اگر اس کی اجازت نہ ہو تو پھر وہ لوگ جو ایک عورت پر قانع نہیں ہو سکتے، حصارِ نکاح سے باہر صنفی بد امنی پھیلانے لگتے ہیں، جس کے نقصانات تمدن و اخلاق کے لیے اس سے بہت زیادہ ہیں جو تعددِ ازواج سے پہنچ سکتے ہیں،اسی لیے قرآن نے ان لوگوں کو اس کی اجازت دی ہے، جو اس کی ضرورت محسوس کریں۔ (دیکھیے تفہیم القرآن)

اسی لیے مفتیِ اعظم گجرات حضرت مفتی احمد خانپوری صاحب نے ایک مجلس میں فرمایا کہ اسلام معاشرے میں زندگی گزارنے کاصحیح طریقہ بتلاتاہے،بعض مرتبہ ایسے حالات پیداہوجاتے ہیںکہ دوسری بیوی کی ضرورت پیش آتی ہے، مثلاًعورت ایسی بیماری میںمبتلاہوگئی کہ اب وہ مردکے لیے فائدہ اٹھا نے کے قابل نہیںرہی، تواب شوہرکیااس عورت کو چھوڑ دے؟اس کوایسے حالات میںچھوڑدینے کوبھی شرافت گوارا نہیں کرتی، لہٰذااس کورہنے دو،لیکن مردکی ضرورت کااب کیاکیاجائے؟توشریعت ِ مطہرہ نے اس کے لیے دوسرا نکاح کرنے کی اجازت دی ہے۔لیکن ان کے یہاںتوکسی بھی حیثیت سے دوسرے نکاح کی اجازت ہی نہیںہے۔ ہاں!ان کے یہاںایک شکل ہے کہ کسی عورت کے ساتھfriendshipقایم کرلیجیے یعنی دوستی کامعاہدہ کرلیجیے،لیکن اس عورت کوبیوی ہونے کے حقوق حاصل نہیںہوں گے،وہ عورت اس مردکے ساتھ زندگی گزارے گی اوریہ مرداس سے فائدہ بھی اٹھائے گا،اور اگر اس سے بچے پیداہوںگے توان بچوںکووراثت بھی ملے گی،لیکن اگریہ مردمرجائے گاتو اس عورت کووراثت میںحصہ نہیںملے گا۔ اب غورکیجیے کہ یہ کون سے انصاف کی بات ہے۔ یہ عورت بھی آخراس مردکو راحت پہنچا رہی ہے،ایک عورت کی طرف سے مرد کو جو ضرورتیں ہوتی ہیںوہ تمام یہ مہیاکررہی ہے،اس سے پیداہو نے والی اولادبھی اس کی شمارہوتی ہے، پھران کوسگی اولاد کی طرح وراثت میںحصہ بھی مل رہاہے،توپھرآخراس عورت کوکیوںحصہ نہ ملے؟انسانوں کے بنائے ہوئے تمام قوانین کایہی حال ہوتاہے،حالاں کہ اسلا م کے قوانین پر اعتراضات کرتے ہیں،لیکن ان کے پاس جومشکلات ہیںان کاکوئی بھی حل ان کے پاس ہے ہی نہیں۔حضرت مولاناعلی میاںصاحب رحمۃﷲعلیہ نے احمدآبادمیںمسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس میںکسی فرانسیی عورت کانام لیاتھا،جس نے عورتوںکے حقوق کے سلسلے میںبہت کچھ مطالعہ ،تحقیق اوراسٹڈی کی تھی۔اس عورت نے کہاکہ یہ فطرت کاتقاضہ ہے اور اس میں عورتوںکابھی فائدہ ہے کہ مردکوایک سے زیادہ بیویاںکرنے کی اجازت قانونی طورپردی جائے،اوربھی بہت تفصیل فرمائی تھی،یہ ساری چیزیںتسلیم کرنے کے باوجودبھی اسلامی قوانین پر اعتراض ہے، تواب کسی کوکیا کہا جائے!
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here