افطار کی دعا سے متعلق دو اہم وضاحتیں


افطار کی دعا سے متعل دو اہم وضاحتیں، ندیم احمد انصاری

رسول اللہﷺ نے مسلمان کے لیے روزے کے اختتام پر دعا کی قبولیت کا وقت ہونا ارشاد فرمایا ہے، اس لیے اس موقع پر بعض دعائیں بھی خود رسول اللہﷺ نے تعلیم فرمائیں تاکہ نبوی کلمات کو دہرانے سے ان کی قبولیت کا امکان زیادہ سے زیادہ ہو۔ لیکن آج کل افطار کی ان مختصر سی دعاؤں پر بعض لوگوں نے طول و طویل بحث کا دروازہ کھول رکھا ہے،من جملہ ان کے ایک یہ ہے کہ افطار کی دعا کے الفاظ کیا ہیں اور دوسرے یہ کہ ان دعاؤں کو کچھ کھانے کے بعد پڑھا جائے یا کھانے سے پہلے؟ اس وقت انھیں دونوں باتوں کی وضاحت مطلوب ہے۔

افطار کی دعا
علامہ طحطاوی فرماتےہیںکہ افطار کے وقت یہ دعا پڑھنا سنت ہے:
اَللّٰہُمَّ لَکَ صُمْتُ، وَ بِکَ آمَنْتُ، وَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ، وَعَلٰیٰ رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ۔
’فضائل رمضان‘ میں بھی لکھا ہے:
’’یہی افطار کےوقت کی مشہور دعا ہے‘‘۔
لیکن ہمیں باوجود تلاش بسیار کے ان الفاظ کے ساتھ یہ دعا کتبِ حدیث میں نہیں ملی بلکہ احادیث کے تتبع سے پتہ چلتا ہے کہ افطار کے موقع پر ان الفاظ کے ساتھ دعا کرنی چاہیے:
بِسْمِ اللہ، اَللّٰہُمَّ لَکَ صُمْتُ، وَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ، وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ۔
(ترجمہ) میں اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں،(اے اللہ) آپ ہی پر میں نے بھروسہ کیا اور آپ کے دیے ہوئے رزق سے میں افطار کرتا ہوں۔

اس لیے افطار کے وقت ان الفاظ کا پڑھنا سنت و مستحب ہے، اس لیے غفلت کی وجہ سے اگر ان الفاظ کو پڑھنا بھول جائے اور صرف بسم اللہ پر اکتفا کرے تو روزے پر تو اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گالیکن ایک سنت سے محرومی ہوگی،جیسا کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’بہت سی روایات میں روزے دار کی دعاکا قبول ہونا وارد ہوا ہے، بعض روایات میں آتا ہے کہ افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے،مگر ہم لوگ اس وقت کھانے پر اس طرح گرتے ہیں کہ دعا مانگنے کی تو کہاں فرصت، خود افطار کی دعا بھی یاد نہیں رہتی۔‘‘اس لیے ہمیں چاہیے کہ توجہ سے اس وقت دعا کا اہتمام کریں، واللہ اعلم۔تفصیل کے لیے دیکھیں:سنن ابی ابو داد برقم: ۲۳۵۸، مجمع الزوائد برقم: ۴۸۹۲، مرقاۃ المفاتیح:۴؍۲۵۸،حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح:۳۷۳، فضائل رمضان:۲۰۔

دعا افطار سے پہلے یا بعد میں؟
بعض لوگ کہتے ہیں کہ آج کل لوگ افطاری کی دعا پہلے پڑھتے ہیں اور افطار بعد میں کرتے ہیں، جب کہ سنت ہے کہ پہلے ایک گھونٹ پانی یا ایک کھجور یا ایک چٹکی نمک سے روزہ افطار کر لے پھر افطار کی دعا پڑھے۔ حدیث پاک میں ہے کہ اللہ کے رسولﷺ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔جواب اس کا یہ ہے کہ ’ نمک سے افطار‘ کی بات تو کسی معتبر علمی کتاب میں نظر سے گزرنا یاد نہیں۔ رہی دعا کہ افطار سے قبل پڑھےیا بعد، تو اس میں دعا کے مفہوم کو بڑا دخل ہے۔ شارحِ مشکوٰۃ علامہ قطب نواب الدین دہلویؒ رقم طراز ہیں:
افطار (روزہ کھولنے) کا وقت دعا کی قبولیت اور اسجابت کا وقت ہے۔ ابن ماجہؒ نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ روزے دار کے لیے اُس کے افطار کے وقت جو دعا ہے وہ ردّ نہیں کی جاتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ افطار کے وقت دعا و اذکار سے غافل نہیں رہنا چاہیے اور روزے دار کو اس وقت حسبِ منشا دعائیں مانگنی چاہئیں۔ تاہم ان دعاؤں کی خاص فضیلت و افادیت ہے جو آں حضرتﷺ سے مروی ہیں، ان میں سے ایک دعا یہ ہے جو حضرت معاذ بن زہرہؒ کی روایت میں مذکور ہے؛ اللھم لک صمت وعلی رزقک افطرت۔اس دعا کو افطار کے شروع میں پڑھنا چاہیے، اگرچہ اس روایت کے تحت ملا علی قاریؒ نے ابنِ ملک کا یہ قول نقل کیا ہے کہ آں حضرتﷺ اس دعا کو روزہ کھولنے کے بعد پڑھتے ۔ایک دعا وہ ہے جو حضرت ابن عمرؓ کی روایت میں مذکور ہے، ذھب الذمأ وابتلت العروق، ثبت الاجر إن شاء اللہ۔ اس دعا کو افطار سے فارغ ہونے کے بعد پڑھنا چاہیے۔(دیکھیےمظاہر حق جدید) واللہ اعلم

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here