اللہ سے ناامید نہ ہوں

مفتی ندیم احمد انصاری

[پہلی اول]

مومن کبھی اللہ کی ذات سے مایوس یا ناامید نہیں ہوتا، وہ ہمیشہ پُرامید ہی رہتا ہے، ہاں بشری تقاضوں کے تحت غموں سے نڈھال ہو سکتا ہے، اُداس ہو سکتا ہے،اس کی زبان پر خواہی ناخواہی ناامیدی کا جملہ بھی آسکتا ہے، لیکن وہ کبھی رب ذوالجلال سے مایوس و ناامید نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا مالک ہے، ہر چیز پر قادر ہے، پھر اس پر ایمان رکھنے والا کیوں کر ناامید ہو سکتا ہے!

دل نا امید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام، مگر شام ہی تو ہے

بعض لوگوں کے مزاج میں کبھی قنوطیت نظر آتی ہے اور ناواقفین تو بعض اوقات کسی کی اُداسی کو بھی ناامیدی سے تعبیر کر لیتے ہیں، اس سلسلے میں محقق شیخ کے سوا کسی کی رائے کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔جس شخص میںایسے اثرات پائے جائیں اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف متوجہ رہے اور اس کی نعمتوں کا استحضار اور شکر کرتا رہے۔ارشادِ خداوندی ہے:﴿لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ۝﴾ اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمھیں اور زیادہ دوں گا، اور اگر تم نے ناشکری کی تو یقین جانو، میرا عذاب بڑا سخت ہے۔ [ابراہیم]بہی خواہوں کو بھی ایسے وقت میں نہایت شفقت سے پیش آنا، امیدافزا کلمات کہنااور ہر ممکن تعاون کرنا چاہیے۔

اس صورتِ حال کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں من جملہ ان کے جہالت، کم علمی، مصائب پر بےصبری، دوسروں کی نعمتوں پر نظر رکھنا اور بری صحبت اختیار وغیرہ ہیں۔ بعض مرتبہ سماج میںپھیلی برائیاں مثلاً تعصب، اقرباپروری، خوشامد پسندی، صلاحیتوں کو مسلسل نظرانداز کیا جانا اور حوصلوں کو توڑنے والا ماحول کسی شخص میں ناامیدی اور مایوسی کی کیفیت پیدا کر سکتا ہے۔ فی زمانہ بہت سے باصلاحیت نوجوان اس کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، ان کی فکر کی جانی چاہیے۔ نفسیات کے بہت سے مسائل اسی سے پیدا ہو رہے ہیں۔

جھوٹا ثابت ہونے کے خوف سے مایوسی

حضرت ابن عباسؓسے روایت ہے کہ اس آیت:﴿حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوْا اَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوْا جَا ءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَنْ نَّشَاءُ وَلَا يُرَدُّ بَاْسُ نَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ﴾کا مطلب یہ ہے کہ رسول ناامید ہو کر یہ خیال کرنے لگے تھے کہ لوگوں سے جو مدد کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی خلاف ورزی ہوگی، اس وقت اللہ تعالیٰ کی مدد آئی، اس کے بعد یہ آیت پڑھی ۔[بخاری ]

ابن ابی ملیکہ نے کہا، میں نے حضرت عروہ بن زبیرؓسے یہ بات بیان کی تو انھوں نے کہا؛ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اللہ نے اپنے رسولوں سے کبھی غلط وعدہ نہیں فرمایا ہے، البتہ انبیاے کرامؑ کو یہ پریشانی ضرور پہنچی کہ ان کی قوم کے لوگ انھیں جھٹلاتے رہے، چناں چہ جب آپ کو مایوسی ہوئی اور یہ خیال کرنے لگے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں جھوٹا ثابت ہوں تو اس وقت اللہ نے فتح عنایت فرمائی۔[بخاری]

ایک اشکال اور اس کا جواب

اس پر اشکال ہوتا ہے کہ پیغمبر اپنے پروردگار کے بارے میں ایسا گمان کیسے کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے جھوٹا وعدہ کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بہ مقتضاے بشریت انتہائی پریشانی کی حالت میں مایوسی کے کلمات زبان سے نکل گئے، جیسے سورۃ البقرۃ میں ارشادپاک ہے:﴿أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ، مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ! أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيبٌ﴾کیا تم گمان کرتے ہو کہ جنت میں پہنچ جاؤ گے، حالاں کہ اب تک تمھیں نہیں پہنچے ہیں ان لوگوں جیسے احوال جو تم سے پہلے گزرے ہیں؟ چھوا ان کو تنگی اور سختی نے اور جنبش دیے گئے وہ، یہاں تک کہ رسول اور جو لوگ ان پر ایمان لائے تھے بول اٹھے : اللہ تعالیٰ کی مدد کب آئےگی؟ سنو! بے شک اللہ تعالیٰ کی مدد آیا ہی چاہتی ہے! یعنی بہ مقتضاےبشریت پریشانی کی حالت میں مایوسانہ کلمات منھ سے سرزد ہونے لگے، اور یہ ایک فطری بات ہے، جب نوبت یہاں تک پہنچی تو رحمتِ حق متوجہ ہوئی اور وحی آئی کہ گھبراؤ نہیں، مدد آ ہی رہی ہے۔ اس کی ایک نظیر حضرت لوط علیہ السلام کا واقعہ ہے، آپؑنے انتہائی پریشانی میں کہا تھا:﴿أَوْ آوِى إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ﴾یا میں کسی مضبوط جتھے (خاندان) کی پناہ پکڑے ہوئے ہوتا۔ [ہود]حالاں کہ آپ کو مضبوط جتھے کی یعنی اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل تھی، مگر انتہائی پریشانی میں اُدھر خیال نہ گیا۔

دوسری نظیر یہ ہے کہ بدر کے دن الحاح وزاری کرتے ہوئے حضرت نبی کریم ﷺ کی زبانِ مبارک سے نکلا:اللهم! إِن شِئْتَ لم تُعبد بعد اليوم أبدا۔اگر آج مٹھی بھر مسلمان ہلاک ہو گئے تو زمین میں آپ کی عبادت کبھی نہیں کی جائے گی!یہ ارشاد بھی آخری درجے کی پریشانی کی غمازی کرتا ہے، چناں چہ فوراً وحی آئی ، آپ کو تسلی دی گئی کہ ہم فرشتوں کی کمک بھیج رہے ہیں، اور آپ پُر امیدہو کر یہ فرماتے ہوئے باہر تشریف لائے کہ عن قریب جتھہ شکست کھائے گا اور دُم دبا کر بھاگے گا![تحفۃ القاری]

ناامیدی: اکبرالکبائر

حضرت ابنِ عباسؓسے روایت ہے، ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کبیرہ گناہ کون سے ہیں؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، اس کی مہربانی سے مایوس ہونا اور اس کی رحمت سے ناامید ہونا۔[مجمع الزوائد]

حضرت علیؓسے اکبر الکبائر یعنی بڑے گناہوں میں سب سے بڑے گناہ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپؓنے فرمایا : اللہ کے مکر (عذاب) سے بےخوف ہوجانا اور رَوح اللہ یعنی اللہ کی مہربانی سے مایوس ہونا اور اللہ کی رحمت سے ناامید ہوجانا سب سے بڑا گناہ ہے۔[کنزالعمال]
حضرت عبداللہ بن مسعودؓسے روایت ہے: بڑے گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، اللہ کے مکر (عذاب) سے بے خوف ہو جانا اور اس کی رحمت سے ناامید ہو جانا ہیں۔ ایک روایت میں ’بڑے گناہوں میں سب سے بڑے گناہ‘ آیا ہے۔[مجمع الزوائد]

ارشاداتِ ربانی

حضرت ابن عباسؓسے روایت ہے؛ مشرکین میں سے کچھ لوگوں نے بہت زیادہ قتل اور بہت کثرت سے زنا کیا تھا، وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ جو کچھ آپ کہتے ہیں اور جس کی طرف آپ بلاتے ہیں بہت اچھا ہے، اگر آپ بتلا دیں کہ جو کچھ ہم نے کیا ہے وہ معاف ہوجائے گا! اس پر یہ آیت نازل ہوئی:﴿وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا؀﴾ اور جو اللہ کے ساتھ کسی بھی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے، اور جس جان کو اللہ نے حرمت بخشی ہے اسے ناحق قتل نہیں کرتے، اور نہ وہ زنا کرتے ہیں، اور جو شخص بھی یہ کام کرے گا، اسے اپنے گناہ کے وبال کا سامنا کرنا پڑے گا۔اور یہ آیت نازل ہوئی:﴿قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ؀﴾آپ کہہ دیجیے :اے میرے وہ بندو ! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے، یقیناً وہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔[بخاری]

[آخری قسط]

سب سے زیادہ امید دلانے والی آیت

حضرت عبداللہ ابنِ مسعودؓ سے روایت ہے: قرآن کی سب سے عظمت والی آیت ’آیۃ الکرسی‘ ہے، سب سے عدل والی آیت:﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ﴾ہے۔ سب سے زیادہ خوف دلانے والی آیت: ﴿فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً يَرَهُ﴾ہے۔ سب سے زیادہ امید دلانے اور دل کو تقویت دینے والی آیت: ﴿يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ﴾ہے۔[کنزالعمال]

سب سے زیادہ وسعت والی آیت

ابن سیرینؒسے روایت ہے، حضرت علیؓنے دریافت فرمایا : کون سی آیت سب سے زیادہ وسعت والی ہے ؟ تو لوگ ایک ایک دوسرے سے اس کے بارے میں کچھ کچھ کہنے لگے، کسی نے کہا:﴿وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءاً أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ﴾جس نے برا عمل کیا یا اپنی جان پر ظلم کیا پھر اللہ سے بخشش مانگی تو وہ اللہ کو مغفرت کرنے والا پائے گا۔الغرض لوگ اس طرح کی آیات بتانے لگے۔ حضرت علیؓنے ارشاد فرمایا: قرآن میں اس سے زیادہ وسعت والی آیت کوئی نہیں:﴿ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا﴾اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہوجاؤ۔[کنزالعمال]

اللہ کو کوئی پروا نہیں

حضرت اسما بنت یزیدؓفرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو پڑھتے ہوئے سنا:﴿قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا﴾آپ کہہ دیجیے :اے میرے وہ بندو ! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے، اللہ کو کوئی پروا نہیں۔[ترمذی]

ناامید کون ہوتے ہیں

حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا:﴿يٰبَنِيَّ اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوْسُفَ وَاَخِيْهِ وَلَا تَايْـــــَٔـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ ۭ اِنَّهٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ؀﴾میرے بیٹو ! جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کا کچھ سراغ لگاؤ، اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، یقین جانو اللہ کی رحمت سے وہی لوگ ناامید ہوتے ہیں جو کافر ہیں۔[یوسف]

توبہ کا دروازہ کھلا ہی رہتا ہے

حضرت ابن مسعودؓ کے پاس ایک شخص اپنے گناہوں کی شکایت لے کر حاضر ہوا اور ان سے اس کے متعلق دریافت کیا، لیکن حضرت ابن مسعود نے اس کی طرف توجہ نہ فرمائی اور لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر ان سے گفتگو کرتے رہے۔ جب ان کی نظر اس پر پڑی تو وہ رو رہا تھا، انھوں نے اس سے فرمایا: جس مقصد کے لیے تو آیا تھا اب اس کا وقت آگیا ہے، بے شک جنت کے سات دروازے ہیں جن میں ہر ایک دروازہ بند ہوتا اور کھلتا رہتا ہے سوائے توبہ کے دروازے کے، اس پر ایک فرشتہ مقرر ہے، تو عمل کرتا رہ اور مایوس نہ ہو۔[مصنف ابن ابی شیبہ]

اللہ کی ذات سے امید کی برکت

حضرت زید بن اسلم کہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ جنت میں صرف اسے داخل کریں گے جو جنت کی امید رکھتا ہو، اور اللہ تعالیٰ جہنم سے صرف اسے بچائیں گے جو اس سے خوف رکھتا ہو، اور اللہ تعالیٰ صرف اسی پر رحم کریں گے جو رحم کرتا ہو۔[مصنف ابن ابی شیبہ]

بینائی چلے جانے پر رحمت کی امید

حضرت ابوہریرہؓمرفوع حدیثِ قدسی نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے اگر کسی بندے کی بینائی زائل کردی اور اس نے اس آزمائش پر صبر کیا اور مجھ سے ثواب کی امید رکھی تو میں اس کے لیے جنت سے کم بدلہ دینے پر راضی نہیں ہوں گا۔[ترمذی]

امید: صدمے کی ابتدا میں

حضرت ابوامامہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: آدم کے بیٹے! اگر صدمے کی ابتدا میں تو صبر اور ثواب کی امید رکھے تو میں (تیرے لیے) جنت کے علاوہ اور کسی بدلے پر راضی نہیں ہوںگا۔[ابن ماجہ]

حضرت امِ سلمہؓ کی اعلیٰ ترین مثال

حضرت امِ سلمہؓ سے روایت ہے، حضرت ابوسلمہؓفرماتے ہیں کہ میں نے حضرت نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس مسلمان پر بھی مصیبت آئے، پھر وہ گھبراہٹ میں اللہ کا حکم پورا کرے یعنی یہ کہے:إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللَّهُمَّ عِنْدَکَ احْتَسَبْتُ مُصِيبَتِي هَذِهِ فَأْجُرْنِي عَلَيْهَا.اے اللہ ! میں اپنی مصیبت میں آپ ہی سے اجر کی امید رکھتا ہوں، مجھے اس پر اجر دیجیےاور اس کا بدلہ دیجیے۔تو اللہ تعالیٰ اس کو مصیبت پر اجر بھی دیتے ہیں اور اس سے بہتر بدلہ بھی عطا فرماتے ہیں۔ ام سلمہ فرماتی ہیں: جب ابوسلمہ کا انتقال ہوا تو مجھے ان کی بیان کی ہوئی یہ حدیث یاد آئی جو انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کر کے مجھے سنائی تھی، تو میں نے یہی کلمات کہے۔ میں دل میں سوچا کرتی تھیں کہ ابوسلمہ سے بہتر مجھے کیا ملے گا؟ بالا آخر میں نے یہ کلمہ بھی کہہ دیا، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے (ابوسلمہ کے) بدلے میں حضرت محمدﷺ دے دیے اور مصیبت میں مجھے اجر عطا فرمایا۔‏[ابن ماجہ]

اللہ سے امید رکھنے والا افضل ہے

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے: وہ فاجر شخص جسے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے زیادہ قریب ہے بالمقابل اس عبادت گزار کے جو ناامید ہے۔[کنزالعمال]

بہترین مجلس

عون بن عبداللہ بیان کرتے ہیں، حضرت عبداللہؓ نے ارشاد فرمایا: سب سے بہترین مجلس وہ ہے جس میں حکمت کو پھیلایا جائے اور رحمت کی امید رکھی جائے۔[دارمی]

اللہ کی رحمت سے ناامید کرنے والا عالم و فقیہ

حضرت علی بن ابوطالبؓنے ارشاد فرمایا: حقیقی معنوں میں فقیہ وہ شخص ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ کرے، انھیں اللہ کی نافرمانی کی رخصت نہ دے، انھیں اللہ کے آداب سے بےنیاز نہ کردے، اور قرآن کو چھوڑ کر کسی دوسری چیز کی طرف متوجہ نہ ہوجائے، ایسی عبادت میں کوئی بھلائی نہیں جس میں علم نہ ہو، ایسے علم میں کوئی بھلائی نہیں جس میں فہم نہ ہو اور ایسی قرأت میں کوئی بھلائی نہیں جس میں غوروفکر نہ ہو۔[دارمی]

حضرت علیؓنے فرمایا: کیا میں تمھیں فقیہِ کامل کے متعلق خبر نہ دوں؟ کامل فقیہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے لوگوں کو مایوس نہ کرتا ہو، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ کرتا ہو، اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بےخوف نہ کرتا ہو، دوسری چیزوں میں رغت کرکے قرآن کو نہ چھوڑتا ہو۔ خبردار! اس عبادت میں کوئی بھلائی نہیں جو علم کے بغیر ہو، اس علم میں کوئی بھلائی نہیں جو تدبر کے بغیر ہو۔[کنزالعمال]

اللہ کی رحمت سے امید بھی اور پکڑ کا خوف بھی

حضرت انسؓکہتے ہیں، حضرت نبی کریم ﷺ ایک جوان شخص کے پاس تشریف لے گئے ،وہ مرنے کے قریب تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: تم اپنے آپ کو کیسا پاتے ہو ؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم میں اللہ کی رحمت و مغفرت کا امیدوار ہوں اور اپنے گناہوں کی وجہ سے خوف میں مبتلا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس موقع پر اگر مومن کے دل میں یہ دونوں چیزیں؛ امید اور خوف جمع ہوجائیں تو اللہ اسے اس کی امید کے مطابق عطا کرتا ہے اور اسے اس چیز سے دور کردیتا ہے جس سے وہ ڈرتا ہے۔[ترمذی]

رحمتِ الٰہی سے امید کے لیے ایک دعا

حضرت جابرؓ سے روایت ہے، ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا: وَاذُنُوبَاهُ! وَاذُنُوبَاهُ! اس نے یہ الفاظ دو تین مرتبہ کہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: اس طرح کہو: أَللّٰهُمَّ مَغْفِرَتِكَ أَوْسَعُ مِنْ ذُنُوبِي، وَرَحْمَتَكَ أَرْجَى عِنْدِي مِنْ عَمَلِي.اے اللہ! آپ کی مغفرت میرے گناہوں سے زیادہ وسیع ہے، مجھے اپنے اعمال سے زیادہ آپ کی رحمت کی امید ہے۔اس نے اسی طرح دعا کی، آپﷺ نے فرمایا: اسے دہراؤ۔ اس نے دہرایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر دہراؤ۔ اس نے پھر دہرایا، آپ ﷺ نے فرمایا: جاؤ، اللہ تعالیٰ نے تمھاری مغفرت کر دی۔[مستدرک حاکم]

[کالم نگار دارالافتانالاسوپارہ، ممبئی کے مفتی ہیں]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here