تبلیغی جماعت حضرت مولانا الیاس کاندھلویؒ کے ملفوظات کی روشنی میں(۱)

مولانا ندیم احمد انصاری

تبلیغی جماعت ایک خالص دینی جماعت ہے۔ اس کا اصل مقصد کلمۂ توحید اور سنتِ نبوی کی صدا بلند کرناہے۔ اس کے باجود اس کا رشتہ شرک و بدعات یا دہشت گردی سے جوڑنا انتہائی افسوس ناک ہے۔ کسی جماعت کے اغراض و مقاصد کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے بانی کی حیات و افکار کا مطالعہ کیا جائے، اس لیے موجودہ حالات میں مناسب معلوم ہوا کہ تبلیغی جماعت کے بانی حضرت مولانا الیاس صاحبؒ کاندھلوی ثم دہلوی کے بعض ملفوظات یہاں پیش کیے جائیں، جن سے ان کی تبلیغی جماعت کے مقاصد واضح ہو سکیں۔

تبلیغی جماعت کا اصل مقصد: اسلام کے پورے نظام سے امت کو وابستہ کرنا

ایک صحبت میں فرمایا: ہماری اس تحریک کا اصل مقصد ہے مسلمانوں کو جمیعُ ما جائَ بہ النبیﷺ سکھانا (یعنی اسلام کے پورے علمی و عملی نظام سے امت کو وابستہ کر دینا)۔ یہ تو ہے ہمارا اصل مقصد، رہی قافلوں کی یہ چلت پھرت اور تبلیغی گشت، سو یہ اس مقصد کے لیے ابتدائی ذریعہ ہے، اور کلمے، نماز کی تلقین و تعلیم گویا ہمارے پورے نصاب کی الف، ب، ت ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ہمارے قافلے پورا کام نہیں کر سکتے، ان سے تو بس اتنا ہی ہو سکتا ہے کہ ہر جگہ پہنچ کر اپنی جد و جہد سے ایک حرکت و بیداری پیدا کر دیں اور غافلوں کو متوجہ کر کے وہاں کے مقامی اہلِ دین سے وابستہ کرنے کی اور اس جگہ کے دین کی فکر رکھنے والے علما و صلحا کو بیچارے عوام کی اصلاح پر لگا دینے کی کوشش کریں۔ ہر جگہ پر اصلی کام تو وہیں کے کارکن کر سکیں گے، اور عوام کو زیادہ فایدہ اپنی جگہ کے اہلِ دین سے استفادہ کرنے میں ہوگا، الخ۔

ہماری تبلیغ کا مقصد طاغوت سے ہٹنا اور اللہ کی طرف رجوع کرنا ہے

ایک صحبت میں فرمایا:ہماری اس تبلیغ کا مقصد طاغوت سے ہٹنا اور اللہ کی طرف رجوع کرنا ہے اور یہ بدون قربانی کے نہیں ہو سکتا۔ دین میں جان کی بھی قربانی ہے اورمال کی بھی۔ سو تبلیغ میں جان کی قربانی یہ ہے کہ اللہ کے واسطے اپنے وطن کو چھوڑے اور اللہ کے کلمے کو پھیلائے، دین کی اشاعت کرے۔ مال کی قربانی یہ ہے کہ سفرِ تبلیغ کا خرچ خود برداشت کرے اور جو کسی مجبوری کی وجہ سے کسی زمانے میں خود نہ نکل سکے وہ خصوصیت سے اس زمانے میں دوسروں کو تبلیغ میں نکلنے کی ترغیب دے۔ اوروں کو بھیجنے کی کوشش کرے۔ اس طرح الدال علی الخیر کفاعلہ کی بنا پر جتنوں کو یہ بھیجے گا، ان سب کی کوششوں کا ثواب اس کو بھی ملے گا، الخ۔

تبلیغی تحریک کے ذریعےامت کے مختلف طبقوں میں مصالحت

فرمایا:اپنی اس تحریک کے ذریعے ہم ہر جگہ کے علما اور اہلِ دین اور دنیاداروں میں میل ملاپ اور صلح و آشتی بھی کرانا چاہتے ہیں، نیز خود علما اور اہلِ دین کے مختلف حلقوں میں الفت و محبت اور تعاون و یگانگت کا پیدا کرنا اس سلسلے میں ہمارے پیشِ نظر بلکہ ہمارا اہم مقصد ہے اور یہ دینی دعوت ہی ان شاءاللہ اس کا ذریعہ و سیلہ بنے گی۔ افراد اور جماعتوں میں اختلافات اغراض ہی کے اختلافات سے تو پیدا ہوتے اور ترقی کرتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کے تمام گروہوں کو دین کے کام میں لگانے اور خدمتِ دین کو ان کا سب سے اعلیٰ مقصود بنانے کی اس طرح کوشش کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے جذبات اور طریقِ عمل میں موافقت ہو جائے۔ صرف یہی چیز نفرتوں کو محبتوں سے بدل سکتی ہے۔ دو شخصوں میں صلح کرانے کا ذرا سوچو کہ کتنا بڑا اجر ہے! پھر امت کے مختلف طبقوں اور گروہوں میں مصالحت کی کوشش کا جو اجر ہوگا، اس کا کوئی کیا اندازہ کر سکتا ہے۔

تبلیغی کام میں کس نیت سے لگیں

فرمایا:ہمارے اس تبلیغی کام میں حصہ لینے والوں کو چاہیے کہ قرآن و حدیث میں دین کی دعوت و تبلیغ پر اجر وثواب کے جو وعدے کیے گئے ہیں اور جن انعامات کی بشارت سنائی گئی ہے، ان پر کامل یقین کرتے ہوئے، اُن ہی کی طمع و امید میں اس کام میںلگیں اور اس کا بھی دھیان کیا کریں کہ ہماری ان حقیر کوششوں کے ذریعے اللہ پاک جتنوں کو دین پر لگا دیں گے اور پھر اس سلسلے سے جو لوگ قیامت تک دین پر پڑیں گے اور وہ جو بھی نیک عمل کریں گے، تو اُن کے اعمالِ حسنہ کا جتنا ثواب ان کو ملے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ ان تمام ثوابوں کے مجموعے کے برابر اللہ پاک اپنے وعدے کے مطابق ہم کو بھی عطا فرمائیں گے، بہ شرط یہ کہ ہماری نیت خالص اور ہمارا کام قابلِ قبول ہو۔

ہماری تبلیغ کا حاصل

ایک بار فرمایا:ہماری تبلیغ کا حاصل یہ ہے کہ عام دین دار مسلمان اپنے اوپر والوں سے دین کو لیں اور نیچے والوں کو دیں، مگر نیچے والوں کو اپنا محسن سمجھیں، کیوں کہ جتنا ہم کلمے کو پہنچائیں گے،پھیلائیں گے، اس سے خود ہمارا کلمہ بھی کامل اور منور ہوگا اور جتنوں کو ہم نمازی بنائیں گے، اس سے خود ہماری نماز بھی کامل ہوگی۔

تبلیغ کا کام کرنے والے تین طبقوں میں تین مقاصد سے جائیں

فرمایا:ہماری تبلیغ میں کام کرنے والوں کو تین طبقوں میں تین ہی مقاصد کے لیے خصوصیت سے جانا چاہیے: (۱)علما و صلحا کی خدمت میں دین سیکھنے اور دین کے اچھے اثرات لینے کے لیے (۲)اپنے سے کم درجے کے لوگوں میں دینی باتوں کو پھیلانے کے ذریعے اپنی تکمیل اور اپنے دین میں رسوخ حاصل کرنے کے لیے (۳)مختلف گروہوں میں ان کی متفرق خوبیاں جذب کرنے کے لیے۔

ہماری دعوت بس یہی ہے

فرمایا:ہم جس دینی کام کی دعوت دیتے ہیں، بہ ظاہر تو یہ بڑا سادہ سا کام ہے، لیکن فی الحقیقت بڑا نازک ہے۔ کیوں کہ یہاں مقصود صرف کرنا کرانا ہی نہیں ہے، بلکہ اپنی سعی کر کے اپنی عاجزی کا یقین اور اللہ تعالیٰ کی قدرت و نصرت پر اعتماد پیدا کرنا ہے۔ سنت اللہ یہی ہے کہ اگر اللہ کی مدد کے بھروسے پر اپنی سی کوشش ہم کریں تو اللہ تعالیٰ ہماری کوشش اور حرکت ہی میں اپنی مدد کو شامل کر دیتے ہیں۔ قرآن مجید کی آیت ویَزِدکم قوۃً الی قوتِکم میں اسی طرف اشارہ ہے۔ اپنے کو بالکل بے کار سمجھ کے بیٹھے رہنا تو ’جبریت‘ ہے اور اپنی ہی قوت پر اعتماد کرنا ’قدریت‘ ہے (اور یہ دونوں گمراہیاں ہیں‘ اور صحیح اسلام ان دونوں کے درمیان ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے جد و جہد اور کوشش کی جو حقیر سی قوت اور صلاحیت ہم کو بخش رکھی ہے، اللہ کے حکم کی تعمیل میں اس کو تو پورا پورا لگا دیں، اور اس میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں، لیکن نتائج کے پیدا کرنے میں اپنے کو بالکل عاجز اور بے بس یقین کریں اور صرف اللہ تعالیٰ کی مدد ہی پر اعتماد کریں اور صرف اسی کو کارفرما سمجھیں۔ فرمایا: اسوۂ نبوی سے اس کی پوری تفصیل معلوم کی جا سکتی ہے مسلمانوں کو۔ ہماری دعوت بس یہی ہے۔

علم و ذکر کے بغیرتبلیغی تحریک آوارہ گردی ہو کر رہ جائے گی

ایک دن بعد نماز فجر جب کہ اس تحریک میں عملی حصہ لینے والوں کا نظام الدین کی مسجد میں بڑا مجمع تھا اور حضرت مولانا کی طبیعت اس قدر کمزور تھی کہ بستر پر لیٹے لیٹے بھی دو چار لفظ بہ آوازنہیں فرما سکتے تھے، تو اہتمام سے ایک خاص خادم کو طلب فرمایا اور اس کے واسطے سے اس پوری جماعت سے کہلوایا کہ ’آپ لوگوں کی یہ ساری چلت پھرت اور ساری جد و جہد بے کار ہوگی، اگر اس کے ساتھ علمِ دین اور ذکر اللہ کا پورا اہتمام آپ نے نہیں کیا (گویا یہ علم و ذکر دو بازو ہیں، جن کے بغیر اس فضا میں پرواز نہیں کی جا سکتی) بلکہ سخت خطرہ اور قوی اندیشہ ہے کہ اگر ان دو چیزوں کی طرف سے تغافل برتا گیا تو یہ جد و جہد مُبادا فتنہ اور ضلالت کا ایک نیا دروازہ نہ بن جائے۔ دین کا اگر علم ہی نہ ہو تو اسلام و ایمان محض رسمی اور اِسمی ہے۔ اللہ کے ذکر کے بغیر اگر علم ہو بھی تو وہ سراسر ظلمت ہے اور علیٰ ہذا علمِ دین کے بغیر ذکر اللہ کی کثرت بھی ہو تو اس میں بھی بڑا خطرہ ہے۔ الغرض! علم میں نور ذکر سے آتا ہے اور بغیر علمِ دین کے ذکر کے حقیقی برکات و ثمرات حاصل نہیں ہوتے، بلکہ بسا اوقات ایسے جاہل صوفیوں کو شیطان اپنا آلۂ کار بنا لیتا ہے۔ لہٰذا علم اور ذکر کی اہمیت کو اس سلسلے میں کبھی فراموش نہ کیا جائے اور اس کا ہمیشہ خاص اہتمام رکھا جائے، ورنہ آپ کی یہ تبلیغی تحریک بھی بس ایک آوارہ گردی ہو کر رہ جائے گی اور خدا نکردہ آپ لوگ سخت خسارے میں رہیں گے‘۔

اس ملفوظ کو ذکر کرنے کے بعد مرتبِ ملفوظات حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانیؒ اس کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت مولانا کا مطلب اس ہدایت سے یہ تھا کہ اس راہ میں کام کرنے والے تبلیغ و دعوت کے سلسلے کی محنت و مشقت، سفر و ہجرت اور ایثار و قربانی ہی کو اصل کام نہ سمجھیں، جیسا کہ آج کل کی عام ہوا ہے، بلکہ دین کے تعلیم وتعلّم اور ذکر اللہ کی عادت ڈالنے اور اس سے تعلق پیدا کرنے کو اپنا اہم فریضہ سمجھیں۔ بہ الفاظِ دیگر ان کو صرف ’سپاہی‘ اور ’والنٹئیر‘ بننا نہیں ہے، بلکہ ’طالبِ علمِ دین‘ اور ’اللہ کو یاد کرنے والا بندہ‘ بھی بننا ہے۔

تعلیم حضرت تھانویؒ کی طریقۂ تبلیغ حضرت کاندھلویؒ کا

ایک بار فرمایا:حضرت مولانا تھانویؒ نے بہت بڑا کام کیا ہے، بس میرا دل یہ چاہتا ہے کہ تعلیم تو ان کی ہو اور طریقۂ تبلیغ میرا ہو کہ اس طرح ان کی تعلیم عام ہو جائے گی۔

[کالم نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے محقق اور ڈیرکٹر ہیں]

۔۔۔جاری۔۔۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here