تراویح میں ختمِ قرآن پر دیا جانے والاہدیہ اور معاوضہ
ختمِ قرآن پر شیرینی اور ہدیہ
ز اکثر ہرسال تراویح کے لیے حفاظ حضرات کو متعین کرتے ہیں پھر ۲۷/کے نام سے لوگوں سے چندہ جمع کیا جاتا ہے اور پھر اسی جمع کردہ رقم میں سے حافظ صاحب، مؤذن صاحب اور ہمیشہ کے دائمی پیش امام کو دینے دلانے کے بعد اسی رقم میں سے شیرینی وغیرہ تقسیم کی جاتی ہے۔ آیا یہ فعل کیسا ہے؟ درست ہے یانہیں؟
لچندہ دینے کے لیے لوگوں کو مجبور کرنا جائز نہیں نیز شیرینی ضروری نہیں۔ لوگوں نے اس کو ضروری سمجھ لیا ہے اور بڑی پابندی کے ساتھ اس پر عمل کیا جارہاہے۔ مسجدوں میں بچوں کا اجتماع اور شوروغل وغیرہ خرابیوں کے پیشِ نظر شیرینی کے دستور کو موقوف کردینا ہی بہتر ہے، کوئی شخص اپنے طور پر (چندے سے نہیں اور نہ ہی کسی دباؤ سے) ختمِ قرآن کی خوشی میں کبھی کبھی شیرینی تقسیم کرے اور مسجد کے ادب واحترام کا خیال رکھا جائے تودرست ہے۔ حافظ صاحب کو جو دیا جاتا ہے اگر پہلے سے معاملہ طے کرکے دیا جاتا ہے تو تراویح پر اس طرح اجرت کا لینادینا ناجائز ہے،لینے والا اور دینے والے دونوں گنہ گار ہوتے ہیں، اور اگر پہلے سے طے نہیں کیا گیا ہے تب بھی چوں کہ لوگوں میں دستور یہ ہوگیا ہے کہ ہدیے کے نام سے حافظ صاحب کی خدمت میں کچھ نہ کچھ پیش کیاجاتا ہے اور حافظ صاحب بھی اس کے متوقع ہوتے ہیں، چناں چہ ایک مرتبہ پیسے نہ دیے جائیں تو دوسری دفعہ نہیں آئیںگے، تو یہ ہدیہ کہاں رہا؟ یہ بھی معاوضہ اور اجرت کے حکم میں ہوکر ناجائز ہی کہلائے گا۔ (ماخوذ ازفتاوی رحیمیہ)
جبراً ہدیہ
ز تراویح پڑھانےپر اجرت لینا صحیح نہیں ہے، اسی طرح سے ہدیہ بھی صحیح نہیں ہے۔ تراویح پڑھانے والے نے کہہ دیا کہ میں ہدیہ قبول نہ کروںگا، لیکن جب تراویح ختم ہوگئی اور مسجد والے جبراً ہدیہ دیوے، تو اس کو لے کر اپنی ضروریات میں استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں؟
لیہ کوئی شرعی اکراہ نہیں ہے، اس کو قبول نہ کرے، اپنے ہاتھ میں نہ لے۔
دیا جانے والا معاوضہ اور اس کے حیلے
ز ہمارے یہاں(کولھاپور) میں اکثرو بیش تردوسری جگہوں سے حافظ تراویح پڑھانے کے لیے تشریف لاتے ہیں اور وہ اپنی طرف سے کوئی اجرت وغیرہ مقرر نہیںکرتے، البتہ مسجد کے ذمہ داران حضرات کی طرف سے دوسرے عشرہ سے ستائیسویں شب تک چندے کے نام سے ان کے چندے کا اعلان ہوتا ہے اور یہ اعلان مسلسل ستائیسویں تک جاری رہتا ہے اور یہ جمع شدہ چندہ حافظ صاحب، امام صاحب، مؤذن صاحب تینوں کے درمیان تقسیم کردیا جاتا ہے۔ تو اس سلسلے میں ہمارے وہاں ایک قاری صاحب (عالم ہیں یا نہیں وہ معلوم نہیں) نے یہ اعلان کروایا کہ ان حافظوں کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔ تو کیا یہ صحیح ہے کہ ان کے پیچھے نماز نہیں ہوتی؟ اور ان کے لیے چندہ جمع کرنا کیسا ہے؟ اور اگر صحیح نہیں، تو پھر ان کو پیسے دینے کی کیا شکل ہوسکتی ہے؟ بالتفصیل جواب مرحمت فرمائیں۔
لاصل حکم تو یہی ہے کہ طاعات پر اجرت لینا دینا ناجائز ہے، مگر متأخرین نے بقائِ دین کی ضرورت کو ملحوظ رکھ کر تعلیمِ قرآن، امامت، اذان وغیرہ چند چیزوں پر اجرت لینے دینے کے جواز کا فتویٰ دیاہے۔ جن چیزوں کو مستثنیٰ کیا ہے، جواز کا حکم ان ہی میں منحصر رہے گا، تراویح مستثنیٰ کردہ چیزوں میں نہیں ہے، اس لیے اصل مذہب کی بنیادپر تراویح پر اجرت لینا دینا ناجائز ہی رہے گا۔ (فتاویٰ رحیمیہ۴/۴۲۲)بے شک تراویح پر اجرت لینا دینا ناجائز ہے، لینے والا اور دینے والا دونوں گنہگار ہوتے ہیں، اس سے اچھا یہ ہے کہ الم تر کیف سے تراویح پڑھی جائے، لوجہ اللہ پڑھنا اور لوجہ اللہ امداد کرنا جائز ہے مگر اس زمانے میں یہ کہاں ہے؟ ایک مرتبہ پیسے نہ دیے جائیں تو حافظ صاحب دوسری دفعہ نہیں آئیںگے،تواب للہ کہاں رہا؟ اصل مسئلہ یہی ہے مگر وہ مشکلات بھی نظر انداز نہ ہونی چاہئیں، جو ہر سال اور تقریباً ہر ایک مسجد کے نمازیوں کو پیش آتی ہیں، قابلِ عمل حل یہ ہے کہ جہاں لوجہ اللہ تراویح پڑھانے والا حافظ نہ ملے، وہاں تراویح پڑھانے والے کو ماہِ رمضان کے لیے نائب امام بنایا جائے اور اس کے ذمہ ایک یا دو نماز سپرد کردی جائے، تو مذکورہ حیلے سے تنخواہ لینا جائز ہوگاکیوں کہ امامت کی اجرت کو جائز قرار دیا گیاہے۔ (از فتاوی رحیمیہ ۱/۳۴۹) البتہ یہ ضروری ہے کہ اس صورت میں تنخواہ کی مقدار متعین کردی جائےتاکہ امامت کی اجرت مجہول نہ رہے، باقی تراویح میں قرآن خوانی پر اجرت طے کردی گئی ہو، تب بھی ناجائز ہے اور اگر بغیر طے کیے دی جاتی ہے تو اس میں دوگناہ ہیں؛ ایک قرآن پر اجرت کا گناہ اور دوسرا جہالتِ اجرت کا گناہ۔ (احسن الفتاویٰ۳/۵۱۴) اور اس طرح سننے اور سنانے والے سب سخت گنہگار اور فاسق ہیں اور ایسے قاری کی امامت مکروہِ تحریمی ہے۔ (احسن الفتاوی ۳/۵۱۵) فرائض میں فاسق کی امامت کا یہ حکم ہے کہ اگر صالح امام میسر نہ ہو یا فاسق امام کو ہٹانے کی قدرت نہ ہو تو اس کی اقتدامیں نماز پڑھ لی جائے، ترکِ جماعت جائز نہیں،مگر تراویح کا حکم یہ ہے کہ کسی حال میں بھی فاسق کی اقتدا میں جائز نہیں۔ اگر صالح حافظ ملے تو چھوٹی سورتوں سے تراویح پڑھ لی جائے، اگر محلّے کی مسجد میں ایسا حافظ تراویح پڑھائے تو فرض مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کرکے تراویح الگ مکان میں پڑھیں۔ (احسن الفتاویٰ ۳/۵۱۵) ٭٭