تراویح پر اجرت اور اس کا حیلہ

تراویح پر اجرت اور اس کا حیلہ
افادات: مفتی احمد خانپوری مدظلہ
مفتیِ اعظم گجرات حضرت مفتی احمد صاحب خانپوری دامت برکاتہم رقم طراز ہیں:
فقہاء نے ’المعروف کا لمشروط‘ والے قاعدہ کے پیش نظر تراویح پڑھانے والے کو ہدیہ کے نام سے دی جانے والی رقم کو بھی لینے کی اجازت نہیں دی،پنج وقتہ نمازوں کا امام اگر تراویح پڑھاتا ہے، اور اس کو بھی تراویح کی وجہ سے ہدیہ میں کچھ پیش کیا جارہا ہے تو نہیں لینا چاہیے۔(محمود الفتاویٰ:1/498)
ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں:
اجرت پر قرآن شریف پڑھنا درست نہیں ہے، اور اس میں ثواب (بھی) نہیں ہے، اور بحکم ’المعروف کالمشروط‘ جس کی نیت لینے دینے کی ہے وہ بھی اجرت کے حکم میں ہے اور ناجائز ہے، اس حالت میں صرف تراویح پڑھنا اور اجرت کا قرآن شریف نہ سننا بہتر ہے اور صرف تراویح ادا کر لینے سے قیام رمضان کی فضیلت حاصل ہوجائے گی۔ (فتاویٰ دارالعلوم۴/۲۴۶ بحوالہ رد المحتار۱/۶۸۷، مسائل تراویح ۲۷)(دیکھیےمحمود الفتاویٰ: 4/274)
ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:
اصل حکم تو یہی ہے کہ طاعات پر اجرت لینا دینا ناجائز ہے، مگر متأخرین نے بقائِ دین کی ضرورت کو ملحوظ رکھ کر تعلیمِ قرآن، امامت، اذان وغیرہ چند چیزوں پر اجرت لینے دینے کے جواز کا فتویٰ دیاہے، جن چیزوں کو مستثنی کیا ہے، جواز کا حکم ان ہی میں منحصر رہے گا، تراویح مستثنی کردہ چیزوں میں نہیں ہے، اس لیے اصل مذہب کی بنیادپر تراویح پر اجرت لینا دینا ناجائز ہی رہے گا۔ (فتاویٰ رحیمیہ۴/۴۲۲)
بے شک تراویح پر اجرت لینا دینا ناجائز ہے، لینے والا اور دینے والا دونوں گنہگار ہوتے ہیں، اس سے اچھا یہ ہے کہ الم تر کیف سے تراویح پڑھی جائے، لوجہ اللہ پڑھنا اور لوجہ اللہ امداد کرنا جائز ہے، مگر اس زمانہ میں یہ کہاں ہے؟ ایک مرتبہ پیسے نہ دئیے جائیں تو حافظ صاحب دوسری دفعہ نہیں آئیںگے،تواب للہ کہاں رہا؟ اصل مسئلہ یہی ہے مگر وہ مشکلات بھی نظر انداز نہ ہونی چاہئے، جو ہر سال اور تقریباً ہر ایک مسجد کے نمازیوں کو پیش آتی ہیں، قابلِ عمل حل یہ ہے کہ جہاں لوجہ اللہ تراویح پڑھانے والا حافظ نہ ملے، وہاں تراویح پڑھانے والے کو ماہِ رمضان کے لیے نائب امام بنایا جائے اور اس کے ذمہ ایک یا دو نماز سپرد کردی جائے، تو مذکورہ حیلہ سے تنخواہ لینا جائز ہوگا، کیونکہ امامت کی اجرت کو جائز قرار دیا گیاہے۔ (از فتاوی رحیمیہ ۱/۳۴۹)
البتہ یہ ضروری ہے کہ اس صورت میں تنخواہ کی مقدار متعین کردی جائے؛ تاکہ امامت کی اجرت مجہول نہ رہے، باقی تراویح میں قرآن خوانی پر اجرت طے کردی گئی ہو، تب بھی ناجائز ہے اور اگر بغیر طے کئے دی جاتی ہے تو اس میں دوگناہ ہیں: ایک قرآن پر اجرت کا گناہ، اور دوسرا جہالت اجرت کا گناہ۔ (احسن الفتاویٰ۳/۵۱۴) اور اس طرح سننے اور سنانے والے سب سخت گنہگار اور فاسق ہیں اور ایسے قاری کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔ (احسن الفتاوی ۳/۵۱۵) فرائض میں فاسق کی امامت کا یہ حکم ہے کہ اگر صالح امام میسر نہ ہو، یا فاسق امام کو ہٹانے کی قدرت نہ ہو، تو اس کی اقتداء میں نماز پڑھ لی جائے، ترکِ جماعت جائز نہیں؛ مگر تراویح کا حکم یہ ہے کہ کسی حال میں بھی فاسق کی اقتداء میں جائز نہیں، اگر صالح حافظ ملے، تو چھوٹی سورتوں سے تراویح پڑھ لی جائے، اگر محلہ کی مسجد میں ایسا حافظ تراویح پڑھائے، تو فرض مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کرکے تراویح الگ مکان میں پڑھیں۔ (احسن الفتاویٰ ۳/۵۱۵) (دیکھیےمحمود الفتاویٰ:4/276-277)
تراویح کے لیے اجرت لینا اور دینا گناہ ہے؛ لیکن اس سے تراویح فاسد نہیں ہوتی؛ البتہ تالی اور سامع ثواب سے محروم رہتے ہیں، اگر ان حافظ صاحب کو معلوم ہے کہ ان کو قرآن شریف سنانے پر کچھ روپیہ ملے گا اور لینا دینا معروف ہے، تو ان حافظ صاحب کو کچھ لینا قرآن شریف ختم کرکے درست نہیں ہے۔ (فتاویٰ دارالعلوم مکمل مدلل۴/۲۶۴) (دیکھیے محمود الفتاویٰ:4/278-279)
[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here