تراویح پر اگر معاوضہ لے لیا ہو تو اُسے بھی واپس کر دے

تراویح پر اگر معاوضہ لے لیا ہو تو اُسے بھی واپس کر دے

تراویح میں قرآن سنانے سے پہلے اجرت

ز رمضان شریف میں تراویح میں قرآن شریف سنانے کی اجرت لینا دینا دونوں میں از روئے شرع واقوالِ مفتیان اصلاًحرمت کا فتویٰ ہے، کیا کوئی صورت جو کہ’’اعطاء اجرة وأخذہ‘‘ پر بین دال ہو (حلتِ اجرت پر) ہے؟ جو کچھ بعض فقہا نے حلت کا فتویٰ دیا ہے وہ تاویلات سے خالی نہیں ہے لیکن بات یہ ہے کہ’’المعروف کالمشروط‘‘ ضابطے کو فقہاء نے معتبر مانا ہے، چناں چہ فتاویٰ رشیدیہ میں حضرت قطب الاقطاب نے ’’المعروف کالمشروط‘‘ کہہ کر حرام کا فتویٰ دیا؛ لہٰذا ’’الآخذ والمعطی کلاھما آثمان‘‘ نیز ’’اقرؤا القرآن ولاتأکلوا به‘‘ ان دونوں عبارتوں سے اعطاء واخذ فعلِ اثم ہے، دوسری عبارت ’’قراء ت قرآن کرو اس کے ذریعہ حاصل شدہ آمدنی کو نہ کھاؤ‘‘ ان دونوں عبارتوں میں لینا دینا دونوں حرام معلوم ہوتا ہے، لیکن بالفرض کسی نے لے لیا ہے تو اس رقم کو استعمال کرنا جائز ہے یاکچھ اور حکم ہے؟ایک صورت ہمارے ذہن میں آتی ہے واللہ اعلم درست ہے یا غلط؟ لہٰذا وہ صورت یہ ہے کہ حافظ صاحب کو متعین اجرت اور ’’المعروف کالمشروط‘‘ کے خلاف قرآن سنانے سے قبل ہی مثلاً ۲۸/۲۹ شعبان کو کچھ رقم من جانب متولیانِ مسجد یا ذمہ داران کی طرف سے بطور ایک ماہ اور آمدورفت کے اخراجات دیا جائے۔ اب آئندہ پورا ماہ قرآن سنانے پر نہ جبر ہو نہ اکراہ ہو۔ وہ چاہے دس دن میں ختم کرے یا پورے ماہ میں ختم کرے۔ ختم کی تخصیص نہ ہو تو اس صورت میں یہ اخراجات کا لینا دینا جائز ہو سکتا ہے یا نہیں؟إن کان خطأ فھو منی ومن الشیطن، وإن کان صوابا فمن اللہ الرحمن۔

لاجرت کبھی عمل سے پہلے بھی دی جاتی ہے اس لیے آپ نے جو صورت تحریر فرمائی ہے وہ بھی اجرت ہی میں شمار ہوگی اور’’المعروف کالمشروط‘‘والا فقہی قاعدہ یہاں بھی جاری ہوتا ہے۔ جب فقہاء نے تراویح میں قرآن سنانے پر اجرت کو ناجائز قرار دیا ہے تو حفاظ حضرات کو اس کے لینے پر کیوں اصرار ہے؟ ان کوتو چاہیے کہ اس حکمِ شرعی پر پورے طور پر کاربند ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے حفظِ قرآن کی نعمت ودولت سے مالامال کیااس کا تقاضہ یہی ہے کہ کسی نے لے لیا ہو تو واپس کردے۔

تراویح پڑھانے کے معاوضے کا مصرف

ز زید نے ایک گاؤں میں تراویح پڑھائی۔ اجرت لینے کا ارادہ بالکل نہیں تھا، اس کے باوجود بھی گاؤں والوں نے ایک ایک آدمی کے پاس سے وصول کرکے ۱۲۰۰؍ روپیے اجرت دی۔ زید نے وہ رقم ابھی تک استعمال نہیں کی، آیا وہ کسی غریب کو یا تعمیرِ مسجد میں دے سکتے ہیں؟ مذکورہ بالا مصرف کے علاوہ اور کون سامصرف ہوسکتا ہے؟

لچوںکہ تراویح پڑھانے والے کو لوگ ہدیے کے نام سے بھی تراویح پڑھانے کی وجہ سے دیتے ہیں، جو درحقیقت ہدیہ نہیں بلکہ معاوضہ ہے اور تراویح میں قرآن پاک سنانے پر اجرت ومعاوضہ لینا جائز نہیں ہے، اس لیے زید کو چاہیے کہ یہ رقم اس کے دینے والے ہی کو واپس کرے، کسی غریب کو دینے یا تعمیرِ مسجد میں لگانے سے اس کا ذمہ بری نہیں ہوگا، بلکہ ایسی رقم تعمیرِ مسجد میں لگانا حرام ہے۔

تراویح کی اجرت لوٹانے کا طریقہ

زکوئی حافظِ قرآن رمضان میں تراویح سنائے اور اس تراویح سنانے پر اجرت لے لیکن بعد میں اس کو اپنی اس حماقت پر افسوس ہوااور وہ اس کی تلافی چاہتا ہے۔ کوئی حافظ تراویح سنائے اور ایک بھی نماز اپنے ذمہ نہ لےاور وہ خود بھی کوئی نماز نہ پڑھائےاور فرض کرو کہ وہ ا س حال میں پہنچا کہ تراویح سنانے کو وہاں پر کوئی امام نہ تھا اور اس نے مہینے بھر امامت بھی کی لیکن اس کا دل تراویح کی اجرت میں اٹکا رہا۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہاں پر پہنچنے کے بعد متولی نے یا ذمہ دار لوگوں نے اس کو کرایہ بھی دیاتراویح سنانے پر، چاہے وہ حق دار تھا یا نہ تھالیکن اس نے کرایہ لے لیا۔ مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ تراویح یا کرایے کاپیسہ واپس کرنا چاہتا ہے تو اس صورت میں یہ پیسہ واپس کرنا بہت مشکل ہے کیوںکہ جو چندہ حافظ صاحب کے لیے جمع کیا جاتا ہے تو ہر انسان اپنی حیثیت کے مطابق چندہ لکھاتا ہے یا دے دیتا ہے۔ تو اس صورت میں ہر انسان کو تلاش کرنا یا روپئے واپس کرنا بہت مشکل ہے۔ اس صورت میں اگر جتنے سال تک تراویح سنایا ہے ان سب لوگوں کا پیسہ واپس کرنا ہے تو اس گاؤں کی مسجد میں ادا کرنا پڑے گا یا کسی ایک مسجد یاجو اس پیسے کا مصرف ہو وہاں ادا کرنا پڑے گا؟یا جتنے سال تک تراویح سنایا ہے ان تمام تراویح کا پیسہ مکمل حساب کرکے کسی ایک جگہ جو اس کا مصرف ہو وہاں ادا کرسکتے ہیں کہ نہیں؟ اس پیسے کو واپس کرنے کی کوئی راہ نکل سکتی ہے کہ نہیں؟ اور کس طریقے سے؟ اور اس پیسے کو واپس کرتے وقت نیت کیا کرنی ہوگی؟

للوگوں نے آپس میں چندہ کرکے وہ رقم آپ کے حوالے کی تھی، اس کے لیے کسی ایک آدمی کو درمیان میں واسطہ بنایا ہوگا، جیسا کہ دستور ہے کہ عموماً مسجد کا متولی یا اَور کوئی ذمہ دار آدمی لوگوں سے جمع کرتا ہےاور وہ تراویح پڑھانے والے کو دیتا ہے۔ اب آپ جب وہ رقم لوٹائیں تو اس کے ہاتھ میں دے دیں، آپ کا ذمہ بری ہوجاوے گا۔٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here