تراویح کی حیثیت و حکمت

تراویح کی حیثیت و حکمت، ندیم احمد انصاری

لفظِ تراویح ’ترویحہ‘سے ماخوذ ہے، تر ویحہ اصل میں ہر جلسے( نشست) کانام ہے لیکن اصطلاحاًرمضان المبارک کی راتوں میں ہر چار رکعات کے بعد بیٹھنے کو ترویحہ کہا جاتا ہے، کیوں کہ لوگ اس وقفے میں (تھوڑا) آرام کرتے ہیں، پھر مجازاً چار رکعات کے مجموعے کو’تراویح‘ کہا جانے لگا۔(حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی)

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب تک اس نماز میں دو سے زیادہ ترویحے نہ کیے جائیں، اس وقت تک لغت کے اعتبار سے اس نماز کو تراویح نام دینا ہی درست نہیں، اس لیے کہ عربی کا ادنیٰ سے ادنیٰ طالبِ علم بھی جانتا ہے کہ اردو وغیرہ کے بر خلاف عربی زبان میں واحد اور جمع کے درمیان ایک صیغہ تثنیہ کا ہوتا ہے۔بہ ایں معنی اگر کوئی دو ترویحے‘ خواہ کتنے ہی طویل ہوں کرے، تو اسے ’ترویحتان‘ کہیں گے، اس لیے کہ تراویح کہے جانے کے لیے کم از کم تین ترویحے ضروری ہیں۔

حدیث میںتراویح کا ذکر
حد یث میں تراویح کانام’ قیام رمضان ‘آیا ہے، جو کہ مستقل دلیل ہے کہ یہ تہجد سے الگ نماز ہے۔ اس لیے کہ تہجد رمضان کے ساتھ مخصوص نہیں، اسی لیے محدثین رحمہم اللہ تعالیٰ نے تہجد اور تراویح ہر ایک کا باب جدا رکھا ہے ، کصنیع الامام مسلم وغیرہ ۔صحیح مسلم کے ابواب اگرچہ خود امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے قا ئم نہیں فر مائے مگر احادیث کی تر تیب ومنا سب روایات کو ایک جگہ جمع کرنا تو خود امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ ہی کا فعل ہے، نیز تراجم لکھنے والے بھی امام مسلم کے بلند پایہ شاگرد اور مشہور محدثین میں سے ہیں اور امام بخاری ر حمۃ اللہ علیہ ابتدائے شب میں اپنے شاگردوں کے ساتھ با جماعت تراویح پڑھتے تھے اور اس میں ایک بار قرآن ِکریم ختم کرتے تھے اور بوقتِ سحر تہجد انفراداً پڑھتے تھے۔ (دیکھیے احسن الفتاویٰ)

بیس رکعات تراویح
بیس رکعات تراویح کی با جماعت ابتدا گو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمائی، لیکن آپؓ کا اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں بیس رکعاتِ تراویح جاری کرنا، صحابہ کرام کا اس پر نکیر نہ کرنا اور عہدِ صحابہ سے لے کر آج تک شرقاً وغرباً بیس رکعات تراویح کا مسلسل زیرِ تعامل رہنا، اس امر کی دلیل ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دین میں داخل ہے، لقولہ تعالیٰ: ولیمکنن لہم دینہم الذی ارتضیٰ لہم۔اللہ تعالیٰ خلفائے راشدین کے لیے ان کے اس دین کو قرار وتمکین بخشیں گے، جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے پسند فرمالیا ہے۔
الاختیار شرح المختار میں ہے کہ اسد بن عمرو، امام ابویوسف سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام ابوحنیفہؒ سے تراویح اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فعل کے بارے میں سوال کیا، تو انھوں نے فرمایا کہ تراویح سنتِ مؤکدہ ہےاور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنی طرف سے اختراع نہیں کیا، نہ وہ کوئی بدعت ایجاد کرنے والے تھے، انھوں نے جو حکم دیا وہ کسی اصل کی بنا پر تھا، جو ان کے پاس موجود تھی اور رسول اللہ ﷺ کے کسی عہد پر مبنی تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سنت جاری کی اور لوگوں کو ابی بن کعب پر جمع کیا، پس انھوں نے تراویح کی جماعت کرائی، اس وقت صحابہ کرام کثیر تعداد میں موجود تھے، حضرت عثمانؓ، علیؓ، ابن مسعودؓ، عباسؓ، ابن عباسؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، معاذؓ، ابیؓ اور دیگر مہاجرین وانصار رضی اللہ عنہم اجمعین سب موجود تھے، مگر ایک نے بھی اس کو رد نہیں کیا بلکہ سب نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے موافقت کی اور اس کا حکم دیا۔ (الاختیار لتعلیل المختار)

بیس رکعاتِ تراویح کی حکمت
مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اس امر کو ذکر کرتے ہوئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تراویح کی بیس رکعتیں قرار دیں، اس کی حکمت یہ بیان فرماتے ہیں کہ ایسا اس لیے کہ انھوں( صحابۂ کرامؓ)نے دیکھا کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے محسنین کے لیے (صلوٰۃ اللیل کی) گیارہ رکعتیں پورے سال میں مشروع فرمائی ہیں، پس ان کا فیصلہ یہ ہوا کہ رمضان المبارک میں جب مسلمان تشبہ بالملکوت کے دریا میں غوطہ لگانے کا قصد رکھتا ہے تو اس کا حصہ سال بھر کی رکعتوں کے دوگنا سے کم نہیں ہونا چاہیے۔(حجۃ اللہ البالغہ)اس لیے کہ رمضان المبارک نیکیوں میں زیادتی کا تقاضا کرتا ہے، ورنہ رمضان اور غیر رمضان میں کیا امتیاز۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here