افادات : مفتی عبد الرؤف سکھروی
ترتیب: مفتی محمد طلحہ اقبال
اضافہ: مفتی عبد القیوم راجکوٹی
صفحات: دو سو
قیمت: درج نہیں
ناشر: مکتبۂ انور، محمود نگر، ڈابھیل
تعارف و تبصرہ : مولانا ندیم احمد انصاری
اِفتا اور فتویٰ نویسی جیسی عظیم ترین ذمّے داری سے عہدہ برآ ہونا انتہائی نازک امر ہے۔ اس فن سےممارست پیدا کرنے کے لیے علمی و عملی رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ مدارسِ دینیہ میں اس کا باقاعدہ نظم ہوتا ہے، لیکن اب اس میں خاصا مبالغہ کیا جانے لگا ہے۔بقول مفتی عبد القیوم راج کوٹی صاحب ’مدارس میں جگہ جگہ دارالافتا میں فتاویٰ نویسی کا کام سیکھنے والوں کو داخلہ دینے کا ایک عام سلسلہ چل پڑا ہے، جیسے دورۂ حدیث جاری کرنے کا عام رواج ہے، حالاں کہ شعبۂ افتا میں داخلے کے خواہش مندوں میں بعض میں اہلیت نہیں ہوتی، مگر پھر بھی ان کو داخلہ و سند دے کر اپنے مدرسے کا نام روشن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘۔ اگر کسی معروف ادارے میں ان طلبہ کو داخلہ نہ دیا جائے تو کسی بھی ایرے غیرے مدرسے میں شوال تا شعبان چند ایام گزار کر مفتی کاتمغہ حاصل کر لیا جاتا ہے۔
’دارالعلوم کراچی‘ پاکستان کا قدیم و عظیم مرکزی دینی ادارہ ہے۔ یہ حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحبؒ کے خوابوں کی تعبیر اور ان کا علمی ورثہ ہے۔ یہاںایک زمانے سے دارالافتا اور تدریبِ افتا جاری ہے اور مفتی بننے کے لیے دورۂ حدیث کے بعد تخصص فی الافتا کا تین سالہ کورس کروایا جاتا ہے۔اس میں داخلہ لینے والے طلبہ کو اصولِ افتا کے بعد پہلی سہ ماہی کے بعد سبقاً سبقاً چند ہدایات پڑھائی اور سمجھائیں جاتی ہیں، جن پر عمل کرنے سے اس مرحلے کو طے کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ یہ ہدایات اساتذہ کے طویل تجربوں کے بعد باہمی مشورے سے طے کی گئی ہیں، جن کی تعداد چونتیس ہے۔ چند ہدایات ملاحظہ ہوں: استفتا میں منشاے سوال سمجھیں۔مسئلے میں تحقیق کریں مگر تاخیر بھی نہ کریں۔ اصلاحِ جواب سے دل برداشتہ نہ ہوں۔ جواب کے لیے جزئیات تلاش کریں۔ آدابِ تحریر اور رموزِ اوقاف۔ آدابِ مفتی و مستفتی کا مطالعہ کریں۔
دارالعلوم کراچی میں یہ ہدایات پڑھانے کی خدمت مفتی عبدالروف سکھروی انجام دیتے ہیں۔ وہ نہایت خلوص کے ساتھ ان ہدایات کو طلبہ کے ذہن نشین کرانے کی سعی کرتے ہیں اور بہ قدرِ ضرورت ان کی تشریح کرتے ہیں۔ اِن دروس کو اُن کے ایک شاگرد مفتی محمد طلحہ اقبال نے اُنھیں کی نگرانی میں ترتیب دے کر شائع کیا تھا۔کتاب کی افادیت کے پیشِ نظر جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین، ڈابھیل، گجرات کے مؤقر استاذ مفتی عبدالقیوم راج کوٹی نے اس پر پُر مغز تفصیلی مقدمہ لکھنے کے ساتھ تعلیق و اضافے کا کام کیا اور فقیہ العصر سیدی و مرشدی حضرت مفتی احمد خانپوری دامت برکاتہم کے ملاحظے اور تائید کے بعد جدید رنگ وآہنگ میں عمدہ طباعت کے ساتھ شائع کر دیا۔سونے پر سہاگا اسی کو کہتے ہیں۔ اس خدمت پروہ یقیناً داد و تحسین کے مستحق ہیں۔کتاب کو آخر تک پڑھنے کے بعد محسوس ہوا کہ یہ مفید تجربوں کا حسین مرقع ہے اور اس لائق ہے کہ تخصص فی الافتا کا ہر طالبِ علم اسے حاصل کرے اور اس کے مطابق عمل کرے۔مفتی عبدالقیوم راج کوٹی صاحب خود بھی اس لائن کاطویل تجربہ رکھتے ہیں-وہ جامعہ ڈابھیل میں ایک مدت سے معین مفتی کی ذمّے داریاں بہ حسن و خوبی انجام دے رہے ہیں-اس لیے انھوں نے اس جدید ایڈیشن میں چار ہدایات کا مزید اضافہ کیا۔اب ان ہدایات کی کُل تعداد اڑتیس ہو گئی ہے۔
چالیس کے عدد کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، اگر وہ آیندہ ایڈیشن میں اس کی تکمیل فرمائیں تودرجِ ذیل دو ہدایات کو شامل کر سکتے ہیں:(۱)ہر نئے سوال کا جواب نئی سطر سے شروع کیا جائے۔ بعض حضرات اس کا اہتمام نہیں کرتے اور بغیر سطر بدلے یا پیراگراف بنائے مسلسل لکھتے چلے جاتے ہیں، اس سے مستفتی- جو اکثر عام آدمی ہوتا ہے-کوجواب سمجھنے بلکہ تلاش کرنے میں دشواری ہوتی ہے(۲)فتوے میں تذکیر و دعوت کا پہلو ملحوظ رکھا جائے، نِرا حکم بیان کرنے پر اکتفا نہ کیا جائے۔اس کے لیے ’کتاب الفتاویٰ‘ میں ’فتاوی میں تذکیر و ترہیب‘ کا عنوان ملاحظہ فرمائیں۔
علاوہ ازیں ہدایت نمبر۳۰ /’اخلاق و اعمال کی اصلاح کرائیں کے تحت‘ اصلاحی تعلق کی ترغیب دیتے ہوئے مفتی عبدالروف سکھروی نے جامعہ دارالعلوم کراچی اور پاکستان کے اکابر علما کی ایک مختصر ترین فہرست بیان کی ہے، لیکن بہ طور تواضع انھوں نے اپنا نام ذکر نہیں کیا۔ وہ غالباً حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحبؒ کے خلیفہ ومجاز ہیں۔ اگر تحقیق کے بعد ان کا نام بھی حاشیے میں لکھ دیا جائےتو مناسب ہوگا۔ نیز موصوف نے اپنے دیار کے اعتبار سے نام درج کیے ہیں، چوں کہ اب کتاب گجرات سے شایع ہو رہی ہے، اس لیے اس میں جامعہ یا گجرات یا بھارت کے بعض ایسے علما کے نام ذکر کر دیے جائیں تو طلبہ کی رہ نمائی ہوگی۔ان شاء اللہ