جب چاند کے معاملے میں اختلاف ہو جائے!
ندیم احمد انصاری
29شعبان 1439ھ ، موافق 16مئی 2018ء کی شام سے ہی تمام اہلِ ہند کو ہلالِ رمضان کے نظر آنے کا انتظار تھا۔ بعض حضرات ایک دن قبل سعودیہ عربیہ میں 17 مئی سے رمضان شروع ہونے کی اطلاع سے کچھ مطمئن بھی تھے کہ اب ہمارے یہاں 18مئی سے روزے شروع ہوں گے، پھر جنوبِ ہند کی اطلاعات کے بعد خبرروں کا ایسا تانتا بندھا کہ ہر پل ایک نئی خبر فون اسکرین پر تھی۔ بالآخر ملک کے اکثر حصوں میں 17 مئی سے رمضان المبارک کے آغاز کا اعلان کر دیا گیا۔ افسوس اس بات سے ہوا کہ اس موقع پر بعض عوام نے بھی علما کی بے وقعتی کی باتیں کیں اور ان پر خوب ہنسی ٹھٹے کیے اور بعض ان علما و مفتیان نے بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جو کسی ہلال کمیٹی میں جگہ پانے سے محروم رہے۔ بعض نے اسے اتحاد و اختلاف کا مسئلہ بتایااور کہا کہ علما میں اتحاد نہیں، بعض نے اسے فساد تک کہہ ڈالا، تو بعض نے اسے تماشے کا نام دیا۔خیر! جیسے تیسے معاملہ سُلٹا اور ابھی (17مئی 2018ء کی )صبح کے ساڑھے نو بج رہے ہیں، اب تک ممبئی ہلال کمیٹی اپنے فیصلے پر قائم اور ہم جیسے عوام احتیاط پر عمل کررہے ہیں۔بس دل چاہا کہ ایک مضمون اس صورتِ حال سے متعلق لکھا جائے، جس میں اس مسئلے کی کچھ وضاحت ہو سکے، تاکہ عاقبت کی فکر کرنے والوں کے لیے تشفی اور ہدایت کا سامان ہو۔ وما توفیقی الا باللہ
رسول اللہﷺ کے فرامین
بخاری شریف میں ہے؛حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا -یا یہ کہا کہ ابوالقاسمﷺ نے فرمایا- کہ چاند دیکھ کر روزے رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو، اور اگر تم پر ابر چھا جائے تو تیس دن شمار کر کے پورے کرو۔ عن أَبی هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ، أَوْ قَالَ: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ ﷺ:”صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ”. (بخاری)
ترمذی شریف میں ہے؛حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضرت نبی کریمﷺنے فرمایا: رمضان سے ایک یا دو دن پہلے رمضان کے استقبال کی نیت سے روزے نہ رکھو، البتہ کسی کے ایسے روزے جو وہ ہمیشہ سے رکھتاہے ان دنوں میں آجائیں تو ایسی صورت میں رکھ لے۔ اور رمضان کا چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور شوال کا چاند دیکھ کر افطار کرو، اور اگر بادل ہوجائیں تو تیس دن پورے کرو۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ:” لَا تَقَدَّمُوا الشَّهْرَ بِيَوْمٍ وَلَا بِيَوْمَيْنِ إِلَّا أَنْ يُوَافِقَ ذَلِكَ صَوْمًا كَانَ يَصُومُهُ أَحَدُكُمْ، صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَعُدُّوا ثَلَاثِينَ ثُمَّ أَفْطِرُوا “. (ترمذی)
خبرِ مستفیض سے ہلالِ رمضان کا ثبوت
مفتیِ گجرات حضرت مفتی سید عبد الرحیم لاجپوریؒ تحریر فرماتے ہیں کہ خبرِ مستفیض بھی ثبوتِ ہلال کے لیے حجت ہے۔ خبر مستفیض کے متعلق علامہ شامی ؒ تحریر فرماتے ہیں: اعلم ان المراد بالا ستفاضۃ توا تر الخبر من الواردین من بلدۃ الثبوت الی البلدۃ التی لم یثبت بھا لا مجرد الا ستفاضۃ۔ یعنی جان لو کہ استفاضہ سے مراد وہ خبر ہے جس کو بکثرت اس شہر سے آنے والے بیان کر یں جہاں رویت ہوچکی ہے ،اور ایسی جگہ آکر بیان کریں جہاں ہنوز روئیت ثابت نہیں ہوئی۔ محض افواہ کافی نہیں۔ (حاشیہ بحر الرائق:2/270قبیل باب ما یفسد الصوم الخ )اورعلامہ رحمتی خبرِ مستفیض کے متعلق فرماتے ہیں :(تنبیہ ) قال الرحمتی معنی الاستفاضۃ ان تأتی من تلک البلدۃ جماعات متعددون کل منھم یخبر عن اھل تلک البلدۃ انھم صامواعن رؤ یۃ لا مجرد الشیوع من غیر علم بمن اشاعہ۔استفاضہ کا مطلب یہ ہے کہ جہاں چاند ہوا ہے وہاں سے متعدد جماعتیں آئیں ،ہر جماعت یہ خبر دے کہ اس شہر کے مسلمانوں نے چاند یکھ کر روزہ رکھا ہے۔ محض خبر کا پھیل جانا- یہ بھی معلوم نہ ہو کہ کون اس کا راوی ہے ، کس نے یہ بات چلائی ہے- خبرِ مستفیض نہیں۔(شامی:2/129،کتاب الصوم )بہر حال! خبرِ مستفیض سے بھی ہلالِ رمضان وعید کا ثبوت ہوجاتاہے، مگر یہ ضروری ہے کہ خبر کی نوعیت ایسی ہو کہ صاحبِ بصیرت ، معاملہ فہم اشخاص کو اس کی صداقت کا یقین ہوجائے، محض افواہ اور شہرت ہوجانا جب کہ یہ بھی معلوم نہ ہو کہ اصل خبر دینے والا کون ہے، کافی نہیں ۔(فتاویٰ رحیمیہ مبوب)
مطلع پر مدار
مفسرِ قرآن اور فقیہِ ملت حضرت مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ جب چاند کی رویت عام نہ ہو سکے صر ف دو چار آدمیوں نے دیکھا ہو تو یہ صورتِ حال اگر ایسی فضا میں ہو کہ مطلع صاف ہو- چاند دیکھنے سے کوئی بادل یادھواں غبار وغیرہ نہ ہو- تو ایسی صورت میں صرف دو تین آدمیوں کی رویت اور شہادت شرعاً قابلِ اعتماد نہ ہو گی۔ جب تک مسلمانوں کی بڑی جماعت اپنے دیکھنے کی شہادت نہ دے چاند کی رویت تسلیم نہ کی جائے گی۔ جو دیکھنے کی شہادت دے رہے ہیں اس کو ان کا مغالطہ یا جھوٹ قرار دیا جائے۔ ہاں اگر مطلع صاف نہیں تھا- غبار آلود تھا، دھواں، بادل وغیرہ افق پر ایسا تھا جو چاند دیکھنے میں مانع ہو سکتا ہے -ایسی حالت میں رمضان کے لیے ایک ثقہ کی اور عیدین وغیرہ کے لیے دو ثقہ مسلمانوں کی شہادت کا اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ (جواہر الفقہ)
ہلال کمیٹیوں کی حیثیت
سیدی و مرشدی حضرت مفتی احمد صاحب خانپوری دامت برکاتہم العالیہ اپنے فتاویٰ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ہلالِ رمضان کے علاوہ دیگر اسلامی مہینوں کے ہلال کے لیے خبر کافی نہیں بلکہ شہادت شرط ہے۔ کما ھو مصرح في کتب الفقه۔اِس لیے اِن میں محض خبرِ روئیت پر عمل درست نہیں، چاہے وہ فون یا فیکس یا ٹیلی گرام یا ریڈیو سے ملی ہو، البتہ اگر ہلالِ رمضان میں خبر اِس طرح پہنچی کہ اِس میں احتمالِ تزویر نہ ہو تو اُس پر عمل کرسکتے ہیں،بشرطیکہ جس جگہ خبر پہنچ رہی ہے وہاں کا مطلع صاف نہیں تھا۔(محمود الفتاویٰ مبوب)لیکن جہاں رویتِ ہلال کمیٹی قائم ہے اور اس میں ثقہ، ماہرِ شریعت علماء موجود ہیں؛ وہاں والوں کو اس کے فیصلے کے مطابق عید کرنا چاہیے۔۔۔ عہدِ صحابہ (قرونِ مشہود لہا بالخیر) میں بھی اس نوع کے واقعات ہوئے ہیں۔جو حضرات مسائلِ شرعیہ سے واقف ہیں ان کے لیے یہ امرِ غریب نہیں ہے۔(ایضاً)
ہر کس و ناکس کو یہ اختیار نہیں
نیز کتاب النوازل میں مرقوم ہے کہ چاند کے معاملے میں جب اختلاف ہوجائے تو اصول یہ ہے کہ حکمِ حاکم رافعِ اختلاف ہے اور ہندستان میں چوںکہ حاکمِ شرعی نہیں ہے، لہٰذا چاند کے معاملے میں مقامی وعلاقائی رؤیت ہلال کمیٹیاں حاکم کا درجہ رکھتی ہیں، لہٰذا یہ کمیٹیاں اگر تحقیق وشرح صدر کے بعد چاند کے ہونے یانہ ہونے کے بارے میں کوئی فیصلہ کریں تو ان کی تعمیل ان کے حلقۂ اثر میں ضروری ہوگی، ہرکس وناکس کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی بات دوسرے کو منوانے پر مجبور کرے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی سمجھ اور فہم عنایت فرمائے۔ آمین
٭٭٭٭