روزہ اور سحر و افطار سے متعلق بعض ہدایات

روزہ اور سحر و افطار سے متعلق بعض ہدایات

کاروبار میں تکلیف سے روزہ نہ رکھنا

ززید کی عمر اس وقت بہتر سال کی ہے۔ پینتیس سال سے وہ روزہ نہیں رکھ سکتا، روزہ رکھنے سے ضعف کا احساس ہوتا ہے اور شام کے وقت روزانہ کاروبار میں تکلیف ہوتی ہے۔ اگر وہ چاہے تو روزہ رکھ سکتا ہے؛ مگر کاروبار بند کرنا پڑتا ہے اور آرام کرنا پڑتا ہے۔ اس کاکام طبابت ہے، لہٰذا کاروبار بند کرنا بھی مناسب نہیں۔ علاوہ ازیں کاروبار بند کرنے سے روزی روٹی کابھی سوال ہے، اب زید روزہ رکھے اور آرام کرے، یا روزہ نہ رکھ کر فدیہ ادا کرے اور فدیہ کی مقدار کیا ہے؟

ل صورتِ مسئولہ میں افطار کی اجازت نہیں ہے، بلکہ زید کو چاہیے کہ روزہ رکھ کر آرام کرے۔ إذا کان عنده ما یکفیه وعیاله، لایحل له الفطر؛ لأنه یحرم علیه السوال من الناس،فالفطر اولی۔(شامی ۲/ ۱۲۵)

اذان سن کر سحری ختم کرنا

زہمارے یہاں سحری عام طور پر صبح صادق سے پہلے نہیں بلکہ اذان سن کر ختم کی جاتی ہے-اذان تک کھانا پینا، پان تمباکو کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اِدھر اذا ن شروع ہوئی اور اُدھر لوگوں نے جلدی جلدی پان تمباکو تھوک دیا- کیا اس طرح روزہ ادا ہو جائے گا؟

لشرعاً روزےکا وقت صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک ہے، اس لیے صبح صادق کے شروع ہونے سے کچھ پہلے کھانا پینا بند کرکے روزہ شروع کر دیاجائے تاکہ شرعاً روزہ درست ہو۔ فجر کا وقت صبح صادق سے شروع ہوتاہے اور اذان وقت کے داخل ہونے کے بعد یعنی صبح صادق ہوچکنے کے بعد دی جاتی ہے۔ اب اگر کھانے، پینے کا سلسلہ اذان سن کر ختم کیاجائے گا تو اس کا لازمی نتیجہ صبح صادق کے بعد کھانےپینے کی شکل میں ظاہر ہوگا اور یہ چیز روزے کی صحت کے منافی ہے، لہٰذا آپ کے یہاں جو رواج ہے اس کو اولین فرصت میں ختم کیاجائے۔

سحری وافطار ی کا وقت

ز۝۱ سحری صبح صادق سے کتنے منٹ قبل کر سکتے ہیں؟ اگرکسی نے صبح صادق تک سحری کھائی تو روزہ ہوا کہ نہیں؟۝۲ غروبِ آفتاب کے بعد اذان اور افطار کتنے منٹ بعد کرنا چاہیے؟ اگر کسی نے غروب آفتاب کے فوراً بعد افطار کر لیا تو اس کا روزہ ہوا یا نہیں؟ ۝۳وقتِ عشاء غروبِ آفتاب کے کتنے گھنٹے بعد شروع ہوتا ہے؟ زوال کے بعد وقت مکروہ کتنے منٹ تک رہتا ہے؟ ۝۴اور اذان کتنے منٹ بعد دے سکتے ہیں؟

ل۝۱حقیقی صبح صادق جب شروع ہو اس سے پہلے تک سحر کھاسکتے ہیں، جہاں صبح صادق نمودار ہونا شروع ہوئی سحر کھانا درست نہیں۔ یہ تو اصل مسئلہ ہوا۔ لیکن عوام بلکہ اکثر خواص بھی حقیقی صبح صادق نہ کبھی دیکھتے ہیں اور نہ اس کی معرفت حاصل ہے، بلکہ عموماً آج کل تقویم پر مدار رکھا جاتا ہے جو حسابی چیز ہے۔ جس میں ایک دو یازیادہ منٹ کا فرق بھی ہوسکتا ہے اور تمام لوگوں کی گھڑیاں بھی ایک دم درست وقت پرنہیں ہوتیں، بلکہ ان میں بھی پانچ منٹ یا زائد کا فرق ہوسکتا ہے۔ اس لیے اگر کوئی آدمی تقویم سے معلوم شدہ وقت کے مطابق سحری کرنا چاہتا ہے تو احتیاط اسی میں ہے کہ اس میں صبح صادق کا جو وقت ہے اس سے دس منٹ پہلے سحر کھانے کاسلسلہ بند کردے۝۲اگر کسی آدمی نے آفتاب کا آخری کنارہ ڈوبتے ہوئے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور اس مشاہدے کے نتیجے میں غروب کا علمِ قطعی اس کو حاصل ہوگیا، تو اس وقت وہ افطار بھی کرسکتا ہے اور اذانِ مغرب بھی دے سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ شخص خود مشاہدہ کرنے کے بجائے تقویم پر مدارکھ رہا ہے تووہاں بھی وجوہاتِ مندرجۂ بالا کی بنیاد پر پانچ منٹ احتیاط کرے۝۳اس کے لیے کوئی متعین وقت نہیں ہے، مقام اور موسم کے لحاظ سے یہ فاصلہ کم وبیش ہوتارہتا ہے (کما في احسن الفتاوی۲/۱۴۶) ۝۴تقویم میں لکھے ہوئے وقتِ استواء شمس کے پانچ منٹ بعد اذان دے سکتے ہیں۔٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here