شوال کا مہینہ اشہرِ حج میں سے ہے۔ اس مہینے میں لوگ حج کی تیاری کرتے ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ استطاعت عطا فرمائے، اس پر زندگی میں ایک مرتبہ حج کرنا فرض ہو تا ہے، جس کی کچھ تفصیل آپ مضمونِ ہٰذا میں ملاحظہ فرمائیںگے۔اس تحریر کا سبب یہ ہوا کہ ہم نے ایسے بہت سے لوگ دیکھےجو مسائلِ شرعیہ سے ناواقف ہونے کی وجہ سے باوجود استطاعت کے حج میں تاخیر کرتے رہتے ہیں اور اسے برا بھی نہیں سمجھتے۔بعض ایسے ہیں کہ ان پر حج فرض ہوچکا ہے اور اُنھیں اس بات کا علم ہی نہیں۔ بعض ایسے ہیں کہ حج فرض اُن پر ہوتا ہے لیکن وہ اپنے والدین وغیرہ سے قبل اس کی ادایگی کو عیب سمجھتے ہیں۔ہم نے اس موضوع پر مستقل رسالہ بعنوان -حج کی فرضیت اور بعض غلط فہمیوں کا ازالہ- تصنیف کیا ہے،یہاں اسی سے چند اقباسات پیش کرنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے احکامات کی بجاآوری کی توفیق سے نوازے۔ آمین
حج کی فرضیت پر اجماع
صحیح قول کے مطابق ۹ھ میں حج فرض ہوا۔ یہ وہی سال ہے جس میں مختلف وفود رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور اسی سال سورۂ آلِ عمران نازل ہوئی، جس میں حج کی فرضیت کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا: وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِّیٌ عَنِ الْعَالَمِیْنَ۔لوگوں پر اللہ کا حق یعنی فرض ہے کہ جو اس گھر (کعبہ؍بیت اللہ) تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے، اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو اللہ بھی اہلِ عالم سے بے نیاز ہے۔ (آل عمران: 97)حج کی فرضیت پر امت کا اجماع ہے۔ یہ زندگی میں ایک مرتبہ ہر اس مسلمان پر فرض ہوتا ہے، جس میں حج کے شرائط پائے جاتے ہوں۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں،رسول اللہﷺ نے ہمیں خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض قرار دیا ہے، لہٰذا حج کیا کرو۔اس پر ایک صحابیؓنے عرض کیا : اے اللہ کے رسولﷺ! کیا ہر سال حج کرنا فرض ہے؟آپﷺ اس پر خاموش رہے، یہاں تک کہ اس صحابی نے یہ سوال تین بار دہرایا۔ پھر آپﷺ نے ارشاد فرمایا :اگر میں ’ہاں‘ کہہ دیتا تو ہر سال حج کرنا واجب ہو جاتا اور تم اس کی استطاعت نہ رکھتے۔(مسلم)
جو استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتے
مذکورہ بالا آیت میں وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِّیٌ عَنِ الْعَالَمِیْنَ یعنی جو شخص منکر ہو تو اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے، تمام جہان والوں سے۔۔۔اس میں وہ شخص تو داخل ہے ہی جو صراحتاً فریضۂ حج کا منکر ہو، حج کو فرض نہ سمجھے، اس کا دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر ہونا تو ظاہر ہے، اس لیے وَمَنْ کَفَرَ کالفظ اس پر صراحتاً صادق ہے اور جو شخص عقیدے کے طور پر فرض سمجھتا ہے لیکن باوجود استطاعت و قدرت کے حج نہیں کرتا، وہ بھی ایک حیثیت سے منکر ہی ہے، اس پر لفظ وَمَنْ کَفَرَکااطلاق تہدید اور تاکید کے لیے ہے کہ یہ شخص کافروں جیسے عمل میں مبتلا ہے۔ جیسے کافر و منکر حج نہیں کرتے، یہ بھی ایسا ہی ہے۔ اسی لیے فقہاء رحمہم اللہ نے فرمایاکہ آیت کے اس جملے میں ان لوگوں کے لیے سخت وعید ہے، جو باوجود قدرت و استطاعت کے حج نہیں کرتے کہ وہ اپنے اس عمل سے کافروں کی طرح ہو گئے۔ العیاذ باللہ(معارف القرآن)ایک مشہور حدیث میں ہے- جس کے راوی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں- حضرت نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص سامانِ سفر اور اپنی سواری کی ملکیت رکھتا ہو کہ وہ اسے بیت اللہ تک پہنچا سکے پھر اس کے باوجود وہ حج نہ کرے تو اس میں کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی یا نصرانی ہو کر مرے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں ارشاد فرماتا ہے: وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا۔اور اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج ان لوگوں پر فرض ہے، جو اس کی استطاعت رکھتے ہوں۔(ترمذی)
حج میں تاخیر جائز نہیں
مذکورہ بالا آیت میں اس بات کا واضح اشارہ موجود ہے کہ حج استطاعت پائے جانے کی صورت میں فوری طور پر واجب ہوتا ہے، کیوں کہ امر کا تقاضا یہ ہے کہ اسے فوراً ادا کیا جائے۔ (فتاویٰ اسلامیہ)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: حج فرض ہونے کے بعد اس کی ادایگی میں جلدی کیا کرو، کیوں کہ تم میں سے کسی کو نہیں پتہ کہ بعد میں اسے کیا ضروریات اور عوارض لاحق ہوجائیں ۔(مسند احمد) ایک روایت میں اس طرح ہے کہ اللہ کی رسول ﷺ نے فرمایا: جس کا حج کا ارادہ ہو تو وہ جلدی کرے، اس لیے کہ کبھی کوئی بیمار پڑجاتا ہے، یا کوئی چیز گم ہوجاتی ہے، یا کوئی ضرورت پیش آجاتی ہے۔ (ابن ماجہ)
استطاعت کی تفصیل
مذکورہ بالا آیت میں جس استطاعت کا ذکر ہے، اس مقدرت و استطاعت کی تفصیل یہ ہے کہ اس کے پاس ضروریاتِ اصلیہ سے فاضل اتنا مال ہو جس سے وہ بیت اللہ تک آنے جانے اور وہاں کے قیام کا خرچ برداشت کر سکے اور اپنی واپسی تک ان اہل و عیال کا بھی انتظام کر سکے، جن کا نفقہ اس کے ذمّے واجب ہے۔ نیز ہاتھ پاؤں اور آنکھوں سے معذور نہ ہو، کیوں کہ ایسے معذور کو تو اپنے وطن میں چلنا پھرنا بھی مشکل ہے، وہاں جانے اور ارکانِ حج ادا کرنے پر کیسے قدرت ہوگی؟ اسی طرح عورت کے لیے چوں کہ بغیر محرم کے سفر کرنا شرعاً جائز نہیں، اس لیے وہ حج پر قادر اس وقت سمجھی جائے گی، جب کہ اس کے ساتھ کوئی محرم حج کرنے والا ہو، خواہ محرم اپنے خرچ سے حج کر رہا ہو یا عورت اس کا خرچ برداشت کرے۔ اسی طرح وہاں تک پہنچنے کے لیے راستے کا مامون ہونا بھی استطاعت کا ایک جز ہے، اگر راستے میں بدامنی ہو، جان مال کا قوی خطرہ ہو، تو حج کی استطاعت نہیں سمجھی جائے (اور اس پر حج فرض نہیں ہوگا)۔(معارف القرآن)
والدین کو حج کرائے بغیر بیٹے کا حج
اگر بیٹے میں حج کی فرضیت کی شرطیں پائی جاتی ہیں تو اس پر حج فرض ہو جاتا ہے چاہے اس کے ماں باپ نے حج کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ بیٹا جب تک کہ والد صاحب کو حج نہ کرائے اپنا حج بھی نہ کرے، یہ شریعت کے خلاف اور غلط مشہور ہے۔ ’فتاوی محمودیہ‘ سے ایک سوال جواب نقل کیا جا رہا ہے:
سوال: ایک شخص نے اپنی کمائی سے حج کے لیے روپیہ اکٹھا کیا اور وہ حج کو جانا چاہتا ہے مگر لوگ کہتے ہیں پہلے والد کو حج کرانا چاہیے بعد میں خود کرے اب اس کو کیا کرنا چاہیے، جب کہ اس کے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ والد کو بھی ساتھ لے جا سکے؟
جواب: اس کو خود اپنا حج کرنا چاہیے، پھر اگر کسی وقت وسعت ہو اور اپنے والد کو بھی حج کرادے تو عین سعادت ہے۔ یہ بات کہ جب تک والد کو حج نہ کرائے اپنا حج بھی نہ کرے، شرعی مسئلہ نہیں، بلکہ بے علم عوام میں غلط مشہور ہے۔(فتاوی محمودیہ)
اِسی طرح ’آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل‘ میں ہے:
سوال:۱ جو شخص غیر شادی شدہ ہو اور اس کے والدین زندہ ہوں، اور والدین نے حج نہیں کیا ہو اور یہ شخص حج کرنا چاہے تو کیا اس کا حج ہو سکتا ہے؟ ۲اگر والدین اس کو حج پر جانے کی اجازت دیں تو کیا وہ حج کر سکتا ہے؟
جواب: اگر یہ شخص صاحبِ استطاعت ہو تو خواہ اس کے والدین نے حج نہ کیا ہو اس کے ذمّے حج فرض ہے اور حج فرض کے لیے والدین کی اجازت شرط نہیں۔ (آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل)
afif.in