ماہِ محرم:فضائل و مسائل اور اعمال

مولانا ندیم احمد انصاری
ڈیریکٹر و محقق الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا

محرم کی وجہِ تسمیہ

علامہ ابن کثیرعلیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ شیخ علم الدین سخاویؒ نے اپنی کتاب ’المشہور فی اسماء الایام والشہور‘میں ذکر کیا ہے کہ ’محرم کے مہینے کو محرم اس کی تعظیم کی وجہ سے کہتے ہیں‘ لیکن میرے نزدیک تو اس نام کی وجہ اس کی حرمت کی تاکید ہے۔ اس لیے کہ عرب زمانۂ جاہلیت میں اسے بدل ڈالتے تھے، کبھی حلال کر ڈالتے، کبھی حرام کر ڈالتے۔ اس کی جمع ’محرمات، محارم اور محاریم‘ ہے۔ذکر الشیخ علم الدین السخاوی فی جزء جمعہ سماہ: (المشہور فی اسماء الایام والشہور) أن المحرم سمی بذلک لکونہ شہراً محرماً … وعندی أنہ سمی بذلک تأکیداً التحریمۃ، لأن العرب کانت تتقلب بہ، فتحلہ عاماً وتحرمہ عاماً۔ قال: ویجمع علی محرمات ومحارم ومحاریم۔ (تفسیر ابن کثیر)

ماہِ محرم کی فضیلت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: رمضان کے بعد افضل ترین روزے اللہ تعالیٰ کے مہینے ’محرم‘ کے ہیں۔ عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: افضل الصیام بعد رمضان، شہر اللّٰہ المحرم۔(رواہ مسلم، واللفظ لہ، وابوداؤد، والترمذی )اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے محرم الحرام کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف فرمانا اس مہینے کے شرف اور خصوصی فضیلت پر دالّ ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی مخلوق کی نسبت ہی اپنی طرف فرماتا ہے۔ وقد سمی النبیﷺ المحرم شہر اللّٰہ۔ واضافتہ الی اللّٰہ تدل علی شرفہ وفضلہ، فان اللّٰہ تعالیٰ لا یضیف الیہ الا خواص مخلوقاتہ الخ۔(لطائف المعارف)اس حدیث سے پورے ماہِ محرم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ قال العلامۃ محمد یحییٰ الکاندھلوی: ہذہ الفضیلۃ شاملۃ لغیر یوم عاشوراء ایضاً۔(الکوکب الدری)

اشہرِ حرم میں افضل ترین مہینہ

محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:{اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْراً فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضَ مِنْہَا اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ}یعنی اللہ کے نزدیک مہینے گنتی میں بارہ ہیں، جس روز سے اس نے آسمانوں او رزمین کو پیدا کیا۔ اللہ کی کتاب میں سال کے بارہ مہینے لکھے ہوئے ہیں، ان میں سے چار مہینے ادب کے ہیں۔ (التوبہ)

علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ حرمت والے ان چار مہینوں میں سب سے افضل کون سا مہینہ ہے؟ چناں چہ حضرت حسنؒ کی رائے ہے کہ حرمت والے مہینوں میں سب سے افضل اللہ کا مہینہ ’محرم الحرام‘ہے، اور متأخرین میں سے ایک جماعت نے اسے ہی راجح قرار دیا ہے۔وقد اختلف العلماء فی ای الاشہر الحرم افضل، فقال الحسن وغیرہ: افضلہا شہر اللّٰہ المحرم، ورجحہ طائفۃ من المتأخرین۔(لطائف المعارف)

ماہِ محرم کی فضیلت کی ایک وجہ

جہاں احادیث کے ذخیرے میں اس مبارک مہینے کی فضیلت میں دیگربہت سی روایات وارد ہوئی ہیں، وہیں حضرت ابن عباسؓنے ’سورۂ فجر‘ میں آیت ’والفجر‘کے متعلق ارشاد فرمایا ہے کہ اس سے مراد ’ماہِ محرم الحرام کی پہلی تاریخ کی فجر ہے، جس سے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے‘۔ حضرت قتادہؒ سے بھی یہی منقول ہے، گو اس میں بہت سے اقوال ہیں۔عن ابن عباس: یعنی فجر یوم المحرم۔ ومثلہ قال قتادۃ، قال: ہو فجر اول یوم من المحرم، منہ بفجر السنۃ۔(الجامع الاحکام القرآن للقرطبی، وانظر فتح القدیر للشوکانی، تفسیر الثعالبی)

ماہِ محرم کے پہلے عشرے کی فضیلت

ہمارے اسلاف تین عشروں کی بہت عظمت ولحاظ کرتے تھے؛ (۱)رمضان المبارک کا آخری عشرہ (۲)ا ذی الحجہ کا پہلا عشرہ اور (۳) محرم الحرام کا پہلا عشرہ۔وقال ابو عثمان النہدی :کانوا یعظمون ثلاث عشرات:العشر الاخیر من رمضان،والاعشر الاول من ذی الحجۃ،والعشر الاول من المحرم الخ(لطائف المعارف)

ماہِ محرم میں روزے کی فضیلت

حضرت نعمان بن سعد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپؓرمضان کے علاوہ مجھے کس مہینے میں روزے رکھنے کا حکم فرماتے ہیں؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے اس کے متعلق ایک آدمی کو رسول اللہﷺ سے سوال کرتے ہوئے سنا۔اس وقت میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر تھا۔ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ مجھے رمضان کے علاوہ کون سے مہینے میں روزے رکھنے کا حکم فرماتے ہیں؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر تم رمضان کے بعد روزہ رکھنا چاہو تو محرم کے روزے رکھا کرو، کیوں کہ یہ اللہ کا مہینہ ہے۔ اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی تھی اور اسی دن دوسری قوم کی توبہ قبول کرے گا۔ عن علی رضی اللّٰہ عنہ سألہ رجل فقال: أی شہر تأمرنی أن أصوم بعد شہر رمضان؟ فقال لہ: ما سمعت احداً یسأل عن ہذا الا رجلاً، سمعتہ یسأل رسول اللّٰہﷺ، وأنا قاعد عندہ، فقال: یا رسول اللّٰہ! ای شہر یأمرنی ان اصوم بعد شہر رمضان؟ قال: ان کنت صائماً بعد شہر رمضان، فصم المحرم، فانہ شہر اللّٰہ، فیہ یوم تاب اللّٰہ فیہ علی قوم، ویتوب فیہ علی قوم آخرین۔ قال ابو عیسیٰ: ہذا حدیث حسن غریب۔(ترمذی)ایک روایت میں ہے کہ جس نے محرم الحرام کے مہینے میں ایک دن کا روزہ رکھا، اس کو ہر ایک روزے کا ثواب تیس دنوں کے روزوں کے ثواب کے بقدر دیا جائے گا۔ عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: من صام یوم عرفہ کان لہ کفارۃ سنتین، ومن صام یوماً من المحرم فلہ بکل یوم ثلاثون۔(الترغیب والترہیب للمنذری،بحوالہ رواہ الطبرانی فی الصغیر وہو غریب، واسنادہ لا بأس بہ۔ الہیثم بن حبیب وثقہ ابن حبان)

عاشوراء کے روزہ کی فضیلت واحکام

دسویں محرم کو عاشوراء کہتے ہیں۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہﷺ سے عاشوراء کے روزے کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: عاشوراء کا روزہ، گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ عن عن ابی قتادۃ رضی اللّٰہ عنہ ان رسول اللّٰہ ﷺ، سئل عن صیام یوم عاشوراء، فقال: یکفر السنۃ الماضیۃ۔(مسلم، ابو داؤد، ابن ماجہ، ترمزی، الترغیب والترہیب)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب آں حضرت ﷺ نے یومِ عاشوراء میں روزہ رکھنے کو اپنا اصول ومعمول بنایا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس دن کو تو یہود ونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (گویا یہ ان کا قومی ومذہبی شعار ہے) اور خاص اس دن ہمارے روزہ رکھنے سے ان کے ساتھ اشتراک اور تشابہ ہوتا ہے تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے، جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات باقی نہ رہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ان شاء اللہ جب آئندہ سال آئے گا تو ہم نویں محرم کو بھی روزہ رکھیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آئندہ سال ماہِ محرم آنے سے قبل ہی رسول اللہﷺ وفات پاگئے۔ عن عبداللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہما قال: حین صام رسول اللّٰہﷺ یوم عاشوراء وامر بصیامہ، قالوا: یا رسول اللّٰہ! انہ یوم یعظمہ الیہود والنصاری، فقال: رسول اللّٰہﷺ: فاذا کان العام المقبل انشاء اللّٰہ صمنا الیوم التاسع، قال: فلم یأت العام المقبل حتی توفی رسول اللّٰہ ﷺ۔(صحیح مسلم، ابن ماجہ)

عاشوراء کا روزہ فقہا کے نزدیک

اسی لیے فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ محرم کی دسویں تاریخ کا روزہ اور اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا بعد یعنی نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا مستحب ہے، اور صرف عاشوراء کا روزہ رکھنا مکروہِ تنزیہی ہے، اس لیے کہ اس میں یہود کی مشابہت ہے۔ فی المراقی: واما القسم الثالث، وہو المسنون، فہو صوم عاشوراء فانہ یکفو السنۃ الماضیۃ مع صوم التاسع۔ وقال الطحطاوی: (قولہ: مع صوم التاسع) ای او الحادی عشر لما یأتی للمصنف فتنتفی الکراہۃ بضم یوم قبلہ او بعدہ۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح) وفی الشامیۃ: یعم السنۃ عاشوراء مع التاسع ویستحب ان یصوم یوم عاشوراء بصوم یوم قبلہ او یوم بعدہ، لیکون مخالفاً لأہل الکتاب۔(شامی وانظر نصب الرایہ)البتہ حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ نے ایک بات لکھی ہے کہ ہمارے زمانہ میں چونکہ یہود ونصاریٰ وغیرہ یومِ عاشوراء کا روزہ نہیں رکھتے، بلکہ ان کا کوئی کام بھی قمری مہینوں کے حساب سے نہیں ہوتا، اس لیے اب کسی اشتراک اور تشابہ کا سوال ہی نہیں، لہٰذا فی زماننا رفعِ تشابہ کے لیے نویں یا گیارہویں کے روزہ رکھنے کی ضرورت نہ ہونی چاہیے۔ (معارف الحدیث)
یہ بھی خیال رہے کہ ان روایات میں جن گناہوں کی معافی کا ارشاد اور وعدہ ہے اس سے مراد صغائر ہیں، باقی کبیرہ گناہوں کی معافی کی بھی امید رکھنی چاہیے، مگر ان احادیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کے بھروسہ پر گناہ کرنے لگے۔ گناہوں پر نادم ہو اور پاکباز رہنے کی کوشش کرتا رہے، تو یہ چیزیں انشاء اللہ مددگار ثابت ہوںگی۔

عاشوراء کے دن اہل وعیال پر وسعت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر رزق میں وسعت کرے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں برکت ووسعت فرمائیں گے۔ عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ان رسول اللّٰہﷺ قال: من اوسع علی عیالہ واہلہ یوم عاشوراء، اوسع اللّٰہ علیہ سائر سنتہ۔(الترغیب والترہیب للمنذری، وقال ہٰکذا رواہ البیہقی فی الشعب وغیرہ من طرق، وعن جماعۃ من الصحابۃ، وقال البیہقی: ہذہ الاسانید وان کانت ضعیفۃ فہی اذا ضم بعضہا الی بعض اخذت قوۃ۔ واللہ اعلم) مطلب یہ ہے کہ اس دن میں جس کا نفقہ اپنے ذمّے ہے، ذرا وسعت کے ساتھ ان کو یا اس کو جس کی کفالت میں وہ ہوں دے دیا جائے، واللہ اعلم۔ (نوادر الحدیث)

یومِ عاشوراء میں کیاکیا جائے؟

یومِ عاشوراء سے متعلق شریعت نے خاص دو چیزیں بتلائی ہیں: (۱) روزہ رکھنا (۲) اہل وعیال پر کھانے پینے وغیرہ میں وسعت کرنا۔نیز مصیبت کے وقت استرجاع کا حکم ہے، اور اس تاریخ میں ایک الم انگیز واقعہ جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا پیش آیا، اس کی یاد سے صدمہ ضرور ہوگا، لہٰذا انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھتے رہیں، اس کے علاوہ اس دن کے لیے کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ (فتاویٰ رحیمیہ(

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here