حج و عمرہ کرنے والوں کی بعض غلطیاں(۳)

دَم یا کفارہ ادا نہ کرنا

شرعی مسائل اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں، کسی کے لیے جائز نہیں کہ ان سے باہر نکل جائے، اگر جانے ان جانے میں کوئی خطا سرزد ہو جائے تو اس کا کفارہ ادا کرنا واجب ہوتا ہے، لیکن بعض لوگ حج و عمرے میں دم یا جزا واجب ہو جانے کے باوجود صرف یہ کہہ کر بات ختم کر دیتے ہیں کہ اللہ غفورٌرحیم ہے۔یاد رکھیے اللہ تعالیٰ غفورٌرحیم بھی ہے اور شدیدالعقاب بھی:﴿اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ وَاَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ؀﴾یہ بات بھی جان رکھو کہ اللہ عذاب دینے میں سخت ہے اور یہ بھی کہ اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ [المائدۃ]نیز فرمایا:﴿تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَاتَعْتَدُوْھَا ۚ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ؁﴾یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود ہیں، لہٰذا ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں وہ بڑے ظالم لوگ ہیں۔ [البقرۃ]اس لیے اگربلاعذرمُحرم سے حالتِ احرام میں ممنوعاتِ احرام میں سے کوئی بات سرزد ہوجائےتواس پر حدودِحرم میں ایک جانور ذبح کرنا واجب ہوتا ہے، چاہے استطاعت ہویانہ ہو، جب تک استطاعت نہ ہو تب تک توبہ واستغفار کرے، صرف روزہ رکھنے سے ذمّہ ادا نہ ہوگا، جب بھی قدرت ہوگی دم ادا کرنا لازم ہوگا، یہاں تک کہ اگر زندگی میں دم ادا نہ کر سکا تو وصیت کرنا لازم ہوگا،اوراگرعذرکی وجہ سے دم لازم ہوا ہے تو پھر محرم کواختیارہےچاہےجانور ذبح کرےیاصدقۂ فطرکی مقدارادا کر دےیاتین روزےرکھ لے۔وعدم القدرة على الكفارة فليست بأعذار في حق التخيير ولو ارتكب المحظور بغير عذر فواجبه الدم عينا، أو الصدقة فلا يجوز عن الدم طعام ولا صيام، ولا عن الصدقة صيام؛ فإن تعذر عليه ذلك بقي في ذمته، اهـ. وما في الظهيرية: من أنه إن عجز عن الدم صام ثلاثة أيام ضعيف، كما في البحر.[شامی]

غیرمُحرم کا احرام کی چادریں پہن کر طواف کرنا

سعودی حکومت نے حج اور عمرہ کرنے والوں کی سہلوت کے پیشِ نظر اژدہام پر قابو پانے کے لیے صرف احرام پہنے ہوئے مَردوں کو بیت اللہ کے قریب طواف کرنے کی اجازت دے رکھی ہے،بغیر احرام بیت اللہ کے قریب نفلی طواف کی اجازت نہیں، چوں کہ اس کا مقصد نیک ہے اس لیے بعض علما نے کہا کہ صرف اس وجہ سے کہ بیت اللہ کے قریب نفلی طواف کا موقع مل سکے احرام کی چادریں پہن کر جانا حقیقت کے خلاف ہے، اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے،البتہ اگر کوئی شخص اس طرح نفلی طواف کر لےگا تو طواف ہوجائے گا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اوپر کی منزلوں میں طواف کرنا خاصا طویل اور دشوار مرحلہ ہے اور حکومت کا یہ فیصلہ خاص انتظامی نوعیت کا ہے، اس لیے جب اژدہام کثیر نہ ہو تو انھیں یہ قید ہٹا دینی چاہیے، لیکن ایسا کیا نہیں جاتا، جب کہ طواف کرنے والوں میں توانا و کمزور ہر قسم کے ہوتے ہیں، اس لیے حکم بھی مختلف ہونا چاہیے، یعنی قوی و توانا افراد کو احرام کی چادریں نہ پہن کر اوپر طواف کرنا چاہیے، اس میں انھیں ثواب بھی بہ قدرِ مشقت ملےگا، ان شاء اللہ۔‏‏‏‏‏‏عَن إبراھیم، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَسْوَدِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏يَصْدُرُ النَّاسُ بِنُسُكَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَصْدُرُ بِنُسُكٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لَهَا:‏‏‏‏ انْتَظِرِي، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا طَهُرْتِ فَاخْرُجِي إِلَى التَّنْعِيمِ فَأَهِلِّي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ائْتِينَا بِمَكَانِ كَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنَّهَا عَلَى قَدْرِ نَفَقَتِكِ أَوْ نَصَبِكِ”. [بخاری]لیکن کمزور لوگوں کے حق میں اس پر عمل کرنا خاصا مشکل ہے، اس لیے ان کے لیے احرام کی چادریں پہن کر نیچے طواف کرنے کی گنجائش ہونی چاہیے۔واللہ اعلم

طواف و سعی میں بہ آوازِ بلند اجتماعی دعا کرنا

طواف و سعی کرتے ہوئے بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ گروپ میں آتے ہیں، ان میں مَرد بھی ہوتے ہیں اور عورتیں بھی۔ ایک شخص بلند آواز سے یا باقاعدہ مائک لے کر ماثور دعائیں پڑھتا ہے اور بقیہ اس کے پیچھے پیچھے وہی کلمات دوہراتے ہیں، اس میں کئی قباحتیں ہیں: (۱)سب سے اول تو یہ کہ ان مواقع پر مروجہ طریق پر اجتماعی دعائیں منقول نہیں اور دین میں کوئی بھی نیا طریقہ ایجاد کرنا بدعت اور ممنوع ہے۔‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏‏ “مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ”. [بخاری] (۲)دوسرےیہ کہ مرد و عورت کے اختلاط کی صورت میں عورت کو بلند آواز سے ذکرواذکار کی گنجائش نہیں۔قلت : واستثنى منه النساء ، فإن المرأة لا تجهر بها بل تقتصر على إسماع نفسها.[بذل المجہود](۳)تیسرے یہ کہ اس سے دوسروں کو تشویش یا تکلیف ہو سکتی ہے، اس لیے یہ طریقہ قابلِ ترک ہے اور اس پر نکیر کی جانی چاہیے،ویسے بھی ان دعاؤں میں سے کچھ بھی لازم و ضروری نہیں۔و في حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفًا وخلفًا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد وغيرها، إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ، إلخ. [شامی]

حجرِ اسود کو چھونے کے لیے زور زبردستی کرنا

بعض لوگ محض جذبات میں آکر متبرک مقامات مثلاً بابِ کعبہ، حجرِ اسود اور مقامِ ابراہیم وغیرہ کو چھونے اور بوسہ دینے میں بےجاکوشش بلکہ زور زبردستی کرتے ہیں اور اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ ان کی اس حرکت سے خود انھیں یا کسی اور کو تکلیف پہنچ سکتی ہے۔ ان چیزوں کا چھونا فرض ہے نہ واجب، جب کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا یا کسی دوسرے کو تکلیف پہنچانا ناجائز اور حرام ہے، اس لیے معمولی کوشش سے ممکن ہو تو ٹھیک ورنہ اس سے گریز کرنا چاہیے۔حجرِ اسود کو بوسہ دینے کے تعلق سے یہ مسئلہ تقریباً تمام کتبِ مناسک میں صراحت کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔ ‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ “الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ”.[بخاری]

مسجدِ اقصیٰ کے رخ پر نماز پڑھنا

بعض لوگ مسجدِ قبلتین کی زیارت کے وقت بیت المقدس یعنی مسلمانوں کے قبلۂ اول کی طرف رُخ کر کے بھی نماز پڑھتے ہیں جب کہ اس طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم منسوخ ہو چکا،اب قیامت تک کعبۃ اللہ کی طرف رخ کر کے ہی نماز ادا کی جائےگی۔ حضرت نبی کریم ﷺ اور صحابۂ کرامؓنے تو اللہ تعالیٰ کا اذن پا کر نماز کی حالت میں ہی بیت المقدس سے کعبۃ اللہ کی طرف رخ کر لیا تھااور یہ بےچارے ساڑھے چودہ سو سال کے بعد بھی قبلۂ اول کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کو ثواب سمجھتے ہیں۔ حضرت انسؓفرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے،جب یہ آیت نازل ہوئی:﴿قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاۗءِ ۚ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىھَا ۠فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭ﴾(اے پیغمبر) ہم تمھارے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، چناں چہ ہم تمھارا رخ ضرور اس قبلے کی طرف پھیر دیں گے جو تمھیں پسند ہے، لو اب اپنا رخ مسجد ِحرام کی سمت کرلو، اور (آیند ہ) جہاں کہیں تم ہو اپنے چہروں کا رخ (نماز پڑھتے ہوئے) اسی کی طرف رکھا کرو۔[البقرۃ] بنو سلمہ میں سے ایک آدمی ادھر سے گزر رہا تھا-وہ فجر کی نماز میں رکوع کی حالت میں تھے اور ایک رکعت بھی پڑھ لی تھی-اس آدمی نے بلند آواز سے کہا کہ قبلہ بدل گیا ہے، یہ سنتے ہی وہ لوگ اسی حالت میں قبلے کی طرف پھرگئے۔عَنْ أَنَسٍ، ” أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، كَانَ يُصَلِّي نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، فَنَزَلَتْ ﴿قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾”، فَمَرَّ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ وَهُمْ رُكُوعٌ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ، وَقَدْ صَلَّوْا رَكْعَةً، فَنَادَى أَلَا إِنَّ الْقِبْلَةَ قَدْ حُوِّلَتْ، فَمَالُوا كَمَا هُمْ نَحْوَ الْقِبْلَةِ. [مسلم]

گنبدِخضریٰ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا

بعض سادہ لوح مسلمانوں کو دیکھا کہ مسجدِ نبوی کے صحن میں کھڑے ہو کر گنبدِخضریٰ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ رہے تھے، جب کہ مسلمانوں کا قبلہ قیامت تک صرف اور صرف کعبۃ اللہ ہے۔﴿فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭ﴾جہاں کہیں تم ہو اپنے چہروں کا رخ (نماز پڑھتے ہوئے) مسجدِ حرام کی طرف رکھا کرو۔[سورۃ البقرۃ]

مدینہ منورہ میں اوقات ضایع کرنا

مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے عام طور سے عمرہ وطواف کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن مدینہ منورہ میں آکر بعض لوگ سُست و غافل ہو جاتے ہیں اور اپنے اوقات کو وصول کرنے کا اہتمام نہیں کرتے، بعض ہوٹلوں میں سو کر تو بعض شاپنگ مال اور بازاروں میں اپنا قیمتی وقت ضایع کر دیتے ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ جب تک مدینہ منورہ میں قیام رہے کثرت سے روضۂ اقدس کے سامنے حاضر ہوکر سلام عرض کیا کرے، خصوصاً پانچوں نمازوں کے بعد۔ اگر کسی وقت خاص مواجہ شریف پر حاضری کا موقع نہ ملے تو روضۂ اقدس کے کسی طرف بھی کھڑے ہوکر یا مسجدِ نبوی میں کسی جگہ بھی سلام عرض کرسکتا ہے، اگرچہ اس کی وہ فضیلت نہیں، جو سامنے حاضر ہوکر سلام عرض کرنے کی ہے۔[جواہر الفقہ:4/176]

[کالم نگار الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے صدر ومفتی ہیں]

ختم شُد

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here