حصوں والی قربانی میں رقم دیتے ہوئے تحقیق اور اطمینان کر لیں

ندیم احمد انصاری

فی زمانہ بڑھتی مہنگائی دیگر نئے مسائل مثلاً رہائشی علاقوں میں جگہ کی قِلّت اور ملک کے امن و امان کی بگڑتی صورتِ حال کے پیشِ نظر مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادقربانی کے لیے بڑے جانور میں شرکت کرنے کو ترجیح دینے لگی ہے۔اس کے لیے بعض فلاحی اداروں اور مدرسوں کے ذمّے داران جگہ جگہ اجتماعی قربانی کا نظم کرتے ہیں اور متوسط گھرانے خصوصیت سے اس میں حصہ لیتے ہیں۔ اصول و قوانین کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے ایسا کرنا درست اور جائز بھی ہے۔لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ حصوں والی قربانی میں اسلامی شریعت کے قایم کردہ اصول و پابندیوں کالحاظ کم رکھا جاتا ہے، جو کہ بڑی حرماں نصیبی ہے۔اسی لیے آج کے کالم کے ذریعے ہم اس جانب توجہ دلانا چاہتے ہیں۔حصوں والی قربانی سے متعلق تفصیلی احکام ہماری کتاب -رسائلِ ابنِ یامین- میں دیکھیے۔

قربانی چوں کہ اللہ کے حضور پیش کی جانے والی ایک عظیم عبادت ہے، اس لیے کوشش یہ ہونی چاہیے کہ مناسب و متوسط قیمت کا مستقل جانور خرید کر قربانی کی جائے۔اگر کسی وجہ سے بڑے جانور میں حصہ لے کر اس فریضے سے سبک دوش ہونا چاہیں تو اس کی بھی شریعت نے گنجائش رکھی ہے۔ لیکن مادّیت کے غلبے کے اس دور میں ہر ممکن احتیاط ملحوظ رکھنا از بس ضروری ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ اب قربانی کی رقم حاصل کرنے کے لیے لوگ فراڈ کرنے لگےاور اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسا کرنے والے خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ اس معاملے میں جہاں دھوکا دھڑی کا گناہ ہے، وہیں ایک عظیم عبادت ’قربانی‘کو ضایع کرنے کا گناہ بھی ہے۔یہ بھی ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ اس نیک کام کی آڑ میں ایسے بہت سے لوگ سامنے آئے ہیںجو مجموعی طور سے فراڈ ہوتے ہیں، جس کی مثالیں ہر جگہ دیکھی جا سکتی ہیں۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ جن کا واقعی کوئی مدرسہ وغیرہ بھی ہو، وہاں بھی قربانی کی رسید بناتے ہوئے ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ اس کا اہتمام کیا گیا ہو کہ جس شریک کے نام پر رسید بنائی جا رہی ہےاس کی کمائی یا رقم وغیرہ کا کچھ حال معلوم کیا جائے، جب کہ علما نے تصریح کی ہے کہ بڑے جانور کے شرکا میں سے کسی ایک کی کمائی حرام ہوئی تو بقیہ شرکا کی قربانی بھی درست نہیں ہوگی۔ نہ ہم نے اس بات کا کہیں اہتمام دیکھا کہ قربانی کی رقم دینے والے سے کسی قسم کا رابطہ رکھا جاتا ہو، جس سے ذبح کے وقت یہ علم ہو سکے کہ قربانی کی رقم دینے والا وہ شریک باحیات ہے یا انتقال کر گیا اور اب اس کی طرف سے قربانی درست ہے یا نہیں؟ اسی لیے قربانی کی رقم کسی ادارے کو حوالے کرتے یا کسی شخص کو اس کا وکیل بناتے وقت صرف یہ جان لیناکافی نہیں کہ فلاں نام سے کوئی ادارہ واقعی موجود ہے یا نہیں، مذکورہ بالا امور کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے۔

بڑے جانور میں شرکت کا ثبوت

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:ہم نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ حدیبیہ والے سال قربانیاں کیں تو ہم اونٹ میں سات لوگ شریک ہوئے اور گائے میں بھی سات۔( مسلم)اونٹ سے متعلق دس شُرکاکی روایت بھی وارد ہوئی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:ہم حضرت نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ عیدالاضحی آگئی تو ہم گائے میں سات شریک ہوئے اور اونٹ میں دس۔( ترمذی)ان میں پہلی حدیث صحیح بھی ہے اور صریح بھی، اور دوسری حدیث صحیح تو ہے مگر صریح نہیں یعنی اس کی دلالت محکم نہیں۔نیز سات کی شرکت میں قربانی ہونا متفق علیہ ہے اور دس کی شرکت مختلف فیہ ہے تو متفق علیہ پر عمل احوط ہے۔ (کفایت المفتی)

ہر شریک کا مال حلال ہو

اجتماعی قربانی کے درست ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہر حصے دار کی رقم شرعاً حلال ہو۔ اگر بڑے جانور میں بینک یا انشورنس کا ملازم یا کوئی بھی ایسا شخص شریک ہوا کہ جس کی کُل یا اکثر آمدنی حرام ہے[اور قربانی کے حصے میں دی جانے والی رقم اسی مال میں سے ہو تو] اس کی شرکت سے دوسرے شرکا کی قربانی بھی صحیح نہیں ہوگی۔ (احسن الفتاویٰ) اسی طرح سود خوار کے ساتھ بھی قربانی میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔(کفایت المفتی)

قربانی تک ہر شریک زندہ ہو

کئی شریک ہونے کی صورت میں قربانی درست قرار پانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جانور ذبح ہونے تک ہر شریک باحیات ہویا اس کے انتقال کی صورت میں تمام وارث بالغ اور ر ضا مند ہوں۔(درمختار زکریا، قاضی خان)مطلب یہ کہ اگر کوئی مال دار شخص جس پر قربانی واجب ہو، بڑے جانور میں شریک تھا، اور قربانی ذبح ہونے سے قبل اس کا انتقال ہو گیا، تو دوسرا کوئی شخص اس کے حصے کو اس کے ورثا سے خرید کر قربانی کر سکتا ہے۔ جب کہ تمام ورثا بالغ و رضا مند ہوں۔ اس صورت میں تمام شریکوں کی قربانی درست قرار پائے گی۔(شامی،ہندیہ)لیکن اگر شریک صاحبِ نصاب نہیں تھا اور اس نے بڑے جانور میں حصہ لیا اور جانور ذبح ہونے سے قبل وہ انتقال کر گیا تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر ایامِ قربانی سے قبل جانور خرید لیا گیا تھا تو کوئی دوسرا شخص مرحوم کے حصے کو اس کے ورثا سے خرید کر شریک ہو سکتا ہے، جب کہ وہ تمام بالغ و رضامند ہوں‘ اس صورت میں بھی تمام شریکوں کی قربانی ادا ہو جائے گی، لیکن اگر جانور ایامِ نحر میں خریدا گیا تھا تو فوت شدہ شریک کے حصے کو اس کے ورثا سے خریدکر شریک ہونا درست نہیں بلکہ مرحوم کے ورثا پر لازم ہے کہ میت کی طرف سے قربانی کریں، تاہم اگر ورثا سے مرحوم کا حصہ خرید ہی لیا گیا تو بھی قربانی درست ہو جائے گی۔(شامی)

بلا اجازت کسی کی طرف سے شرکت

ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ اگر دوسرے کی طرف سے تبرعاً تطوعاً بغیر اجازت کے قربانی کی جائے تو وہ مطلقاً درست ہے، خواہ اس کی طرف سے قربانی کی عادت ہو یا نہ ہو اور اس کو عادت کی اطلاع ہویا نہ ہو۔ کیوں کہ تبرعاً عن الغیر میں قربانی ذابح کی ملک پر ہوتی ہے، دوسرے کو محض ثواب پہنچتا ہے، قربانی اس کی ملک پر نہیں ہوتی۔ (امداد الفتاویٰ)لیکن ایک شخص کسی کی طرف سے بغیر اس کے امر کے [واجب ] قربانی کر دیتا ہے تو اس کے ذمّے سے واجب ادا نہیں ہوگا اور اگر کسی [بڑے جانور کی] قربانی میں حصہ اس کی طرف سے دیتا ہے کہ گوشت دے کر پیسے وصول کر لے گا تو یہ در حقیقت اس کی طرف سے قربانی نہیںہوگی، بلکہ اس کے ساتھ گوشت کی بیع ہوگی، جس سے دوسرے شرکا کی قربانی بھی خراب ہو جائے گی۔(فتاویٰ محمودیہ بتغیر)اکثر لوگ ایسا کرتے ہیں کہ اپنے کسی عزیز کی طرف سے قربانی کرتے ہیں اور اس کو اطلاع نہیںہوتی، اس صورت میں قربانی ادا نہیں ہوتی۔اس میں بڑی احتیاط ہونی چاہیے، اس لیے کہ اگر ایسی کوئی صورت پیش آجائے گی کہ جس سے ایک حصّے کی قربانی صحیح نہ ہو تو (بڑے جانور، جس میں سات لوگ حصّے دار ہوتے ہیں، ان میں سے) کسی کی بھی قربانی صحیح نہ ہوگی۔ اس لیے کہ قربانی نام ہے، اراقۂ دم کا اور وہ قابلِ تقسیم نہیں، جیسے ایک کنواں مشترک ہو اور ایک شریک کہے کہ ہم تو اپنے کنویں میں پیشاب کریں گے، ظاہر ہے کہ ایسا کرنے سے سارا ہی کنواں ناپاک ہو جائے گا۔(اغلاط العوام)

قربت و ثواب کی نیت ضروری

قربانی کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہر ایک شریک کی نیت قربت و ثواب کی ہو یعنی اگر کوئی شخص محض گوشت کھانے یا فروخت کرنے کی نیت سے بڑے جانور کی قربانی میں شریک ہو گیا اور اس کی نیت ثواب و قربت کی نہ ہوئی تو اس کے ساتھ کسی بھی شریک کی قربانی درست نہیں ہوگی۔ علما نے لکھا ہے کہ اگر سات آدمیوں نے مل کر ایک جانور خریدا، پھر معلوم ہوا کہ ایک کی نیت گوشت فروخت کرنے کی ہے، کیوں کہ وہ گوشت فروخت کرنے کا پیشہ کرتا ہے، تو اس کا حصہ کوئی اور قربانی کرنے والا خرید لے، اس کے بعد قربانی کی جائے، ورنہ سب کی قربانی خراب ہو جائے گی، کسی کی بھی درست نہیں ہوگی۔ (فتاویٰ محمودیہ قدیم)البتہ قربانی میں نیت تو سب کی قربت و ثواب کی ہو لیکن جہات مختلف ہوں، مثلاً عید الاضحی، عقیقہ،دمِ جنایت،دمِ قران اور ولیمے وغیرہ کی نیت سے بڑے جانور میں حصہ لیا جائے، تو یہ قربانی درست اور ہر شریک کی مراد پوری ہو جائے گی، لیکن افضل یہ ہے کہ ہر شریک کی نیت ایک ہی جنس سے ہو۔(خانیہ، ھندیہ)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here