حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ،مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ

مولانا ندیم احمد انصاری

اسلام کے گلشن کو جن شہداے عظام نے اپنا خونِ جگر دے کر صدا بہار کیا ان میں خلیفۂ ثانی، فاروقِ اعظم، امیر المؤمنین، سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا نام نامی سرِ فہرست ہے۔ آپؓآسمانِ عدالت و شجاعت پر آفتاب بن کر چمکے اور اسلام کو ماہتاب عالم تاب بنا دیا۔ آپؓکے بے شمار فضائل احادیث میں بیان کیے گئے ہیں،لیکن آج امتِ مسلمہ ان جاں نثارانِ اسلام بلکہ محسنینِ اسلام و انسانیت کی حیات وکارناموں سے بالکل لابلد ہوتی جارہی ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام کی ایک نہایت بزرگ ترین ہستی ہیں اور کیوں نہ ہو خود خلاصۂ کائنات، محبوبِ کبریا، احمد مجتبیٰ، محمد مصطفیٰ ﷺ نے بارگاہِ الٰہی سے جھولی پھیلاکر آپؓکو مانگا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا فرمائی تھی: اے اللہ! ان دونوں‘ ابو جہل یا عمر بن خطاب میں سے جو تجھے زیادہ محبوب ہو، اس کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما۔ یہ دعا حضرت عمر ؓ کے حق میں قبول ہوئی۔[ترمذی]

حضرت عمرؓ کے اسلام میں داخل ہونے پر فرشتوں نے بھی خوشیاں منائیں۔ حضرت جبریل ؑ آسمان سے نازل ہوئے اور حضرت نبی کریمﷺ کی خدمت میں عرض کیا: اس وقت آسمان والے بھی عمر کے اسلام قبول کرنے پر خوش ہو رہے ہیں۔[ابن ماجہ] حضرت عمر ؓ کی فضیت بیان کرتے ہوئے، خاتم الانبیاء ﷺ نے ارشاد فرمایا:اگر میرے بعد کوئی (نیا) نبی ہوتاتو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔ [ترمذی]

سابقہ امتوں میں کچھ محدث ہوتے تھے‘ وہ نبی تو نہیں ہوتے تھےلیکن انھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے صحیح باتوں کا الہام ہوتا تھا۔ حضرت نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہےتو وہ عمر ؓبن خطاب ہیں۔[ترمذی]اسی کا ثمرہ تھا کہ جب کسی مسئلے میں مسلمانوں کا اختلاف ہوتا اور حضرت عمرؓکی رائے دوسرے صحابہ کرامؓ سے مختلف ہوتی تو وہ وحی نازل ہوتی، جس سے حضرت عمرؓ کی تائید ہوتی یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کے زبان و دل پر حق کو جاری فرما دیا تھا۔[ترمذی] یہی نہیں، قرآن مجید میں بعض مقامات ایسے بھی ہیںکہ جو کلمات حضرت عمرؓ نے فرش پر کہے، وہی الفاظ عرش سے خدا کاقرآن بن کر نازل ہوئے۔ جیسے سورۂ بقرۃ کی وہ آیت‘ جس میں مقامِ ابراہیم پر نماز کا حکم ہے۔ دوسری آیتِ حجاب‘ جو سورۂ احزاب میں ہے اور تیسری سورۂ طلاق کی وہ آیت‘ جس میں فرمایا گیا ہے کہ حضرت نبی کریمﷺ اگر اپنی موجودہ ازواج کو طلاق دے دیں تو اللہ تعالیٰ ان سے بہتر بیویاں آپ ﷺ کو عطا فرماسکتا ہے۔[مسند احمد]

حضرت عمرؓ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا رُعب عطا فرمایا تھا کہ فساق و فجار تو کُجا شیطان بھی ان سے ڈرتا تھا۔[ترمذی]ایک مرتبہ حضرت نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! اے عمر! شیطان تمھیں جس راستے پر چلتا ہوا دیکھتا ہے، وہ اپنا راستہ بدل دیتا ہے۔[مسند احمد] حضرت نبی کریمﷺ جس وقت معراج کے مبارک سفر پر تشریف لےگئے، اس موقع پر آپﷺ نے بہ چشمِ خود جنت میں حضرت عمرؓ کا محل دیکھا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے جنت میں محل دیکھا ہے، جس کی ایک جانب ایک عورت وضو کر رہی تھی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ محل عمرؓ کا ہے۔ [مسند احمد]

حضرت عمرؓ کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ خودخلاصۂ کائنات ﷺ نے حضرت عمرؓسے دعا کی درخواست کی۔ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے حضرت نبی کریمﷺ سے عمرے کی اجازت طلب کی تو حضرت نبی کریمﷺ نے اجازت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: بھائی! ہمیں اپنی دعاؤں میں بھول نہ جانا۔[مسند احمد]

حضرت ابوبکرؓصدیق سے روایت ہے؛ میں نے حضرت نبی کریمﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ سورج کبھی بھی عمر سے بہتر کسی شخص پر طلوع نہیں ہوا۔ [ترمذی] حضرت علیؓکرم اللہ وجہہ کی نظروں میں حضرت نبی کریمﷺ کے بعد تمام امت میں سب سے بہترین آدمی‘پہلے حضرت ابو بکر صدیقؓ اور دوسرے حضرت عمرؓ تھے۔[مسند احمد] خواب کی تعبیر کے امام ، مشہور تابعی، حضرت امام ابن سیرینؒ فرماتے ہیں: حضرت ابو بکر صدیق ؓاور حضر ت عمرفاروقؓ کی شان میں گستاخی کرنے والا کبھی حضرت نبی کریمﷺ سے محبت نہیں کر سکتا۔[ترمذی]

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا ایک کمال یہ ہے کہ ان کے دورِ خلافت میں کہیں، کسی فتنے نے سر نہیں اٹھایا، اس لیے کہ ان کی ذاتِ والا صفات فتنوں کے درمیان بند دروازے کی طرح تھی، جب یہ دروازہ توڑ دیا گیاتو فتنے اُبل پڑے۔[مسند احمد] اگر آپ ؓ کے عدل و انصاف اور ملکی انتظامات اور فتوحات پر نظر ڈالی جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ وہ وہ کام آپؓکی ذات سے ظاہر ہوئے، جن کا کوئی نمونہ دنیا میں پہلے موجود نہ تھا اور اگر آپؓکی دینی خدمات اور روحانی کمالات کو دیکھا جائے تو آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیںاور صفحاتِ تاریخ میں اس کی جامعیت کی کوئی تاریخ نہیں ملتی۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کا ہر ہر رویاں اپنے مرشدِ برحقﷺ سید الکل فی الکل اور امام الانبیاء و الرسل کے سچا ہونے کی شہادت ساری دنیا کے سامنے ادا کر گیا۔[ سیرت خلفاء راشدین]

حضرت عمرؓ کی شہادت کا مختصرواقعہ یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں فیروز نام کاایک پارسی غلام رہتا تھا، جس کی کنیت ابو لو لو تھی۔ اس نے ایک دن حضرت عمرؓ سے آکر شکایت کی کہ میرے آقا مغیرہؓبن شعبہ نے مجھ پر بہت بھاری محصول مقرر کیا ہے، آپ کم کروا دیجیے۔ حضرت عمرؓ نے تعداد پوچھی۔ اس نے کہا: روزانہ دو درہم۔ حضرت عمرؓ نے پوچھاکہ تو پیشہ کون سا کرتا ہے؟ بولا کہ نقاشیِ آہن گری۔ آپؓنے فرمایا: ان صنعتوں کے مقابلے میں تو یہ رقم زیادہ نہیں ہے۔ فیروز دل میں سخت ناراض ہو کر چلا آیا۔ دوسرے دن حضرت عمرؓ صبح کی نماز کے لیے نکلے تو فیروز خنجر لے کر مسجد میں آیا۔ حضرت عمرؓ کے حکم سے کچھ لوگ اس کام پر مقرر تھے کہ جب جماعت کھڑ ی ہو تو وہ صفیں درست کریں۔ جب صفیں سیدھی ہوگئیں تو حضرت عمرؓتشریف لائے اور جوں ہی نماز شروع کی فیروز نے دفعۃً گھات میں سے نکل کر (مسلسل) چھے وار کیے، جس میں سے ایک ناف کے نیچے پڑا۔ حضرت عمرؓ نے فوراً حضرت عبد الرحمٰن بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر(انھیں) اپنی جگہ کھڑا کر دیا اور خود زخم کے صدمے سے گر پڑے۔ عبد الرحمن ابن عوفؓنے اس حالت میں نماز پڑھائی کہ حضرت عمرؓ سامنے بسمل پڑے تھے۔ فیروز نے اور لوگوں کو بھی زخمی کیالیکن بالآخر پکڑ لیا گیا اور اس نے خود کُشی کر لی۔

حضرت عمرؓکو لوگ اٹھا کر گھرلائے۔ سب سے پہلے آپ نے پوچھا: میرا قاتل کون ہے؟ لوگوں نے بتلایا:فیروز۔ آپؓنے فرمایا: الحمد للہ! میں ایسے شخص کے ہاتھ سے نہیں مارا گیا، جو اسلام کا دعویٰ کرتا ہو۔لوگوں کا خیال تھا کہ زخم چنداں کاری نہیں ہے، غالباً شفا ہو جائے، چناں چہ ایک طبیب بلایا گیا۔ اس نے نبیذ اور دودھ پلایا (مگر)دونوں چیزیں زخم کی راہ سے باہر نکل آئیں۔ حضرت عمر ؓنے اس کے تین دن کے بعد انتقال فرمایااور محرم کی پہلی تاریخ، ہفتے کے دن مدفون ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

نمازِ جنازہ حضرت صہیبؓنے پڑھائی۔ حضرت علی، عبد الرحمٰن،، عثمان، طلحہ،سعد بن ابی وقاص اور عبد الرحمٰن ابن عوف رضی اللہ عنہم نے قبر میں اتارا اور اس طرح یہ آفتابِ عالم تاب خاک میں چھپ گیا۔[الفاروق]اور جاتے جاتے بھی یہ پیغام دنیا کو دے کر گیا کہ بھلے ہی تمھارے سامنے امیر المومنین بسمل پڑا ہولیکن ایسی حالت میں بھی اللہ کے فریضے کو کامل طور پر ادا کرو۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here