رجب میں عمرہ اسلاف کا معمول

مولانا ندیم احمد انصاری

’رجب‘ اسلامی تقویم کے ساتویں مہینے کا نام ہے۔ یہ مہینہ اشہرِ حرم میں سے ہے، اسی مہینے میں عمرہ ادا کیا جاتا تھا، جو ظہورِ اسلام سے پہلے حج کے ان لازمی ارکان میں سے تھا جو مکہ معظمہ سے متعلق تھے، اسی لیے اسے خدائی امنِ عام کا مہینہ سمجھا جاتا ہے۔[اردو دائرۂ معارفِ اسلامیہ]

رسول اللہﷺ کے عمرے

حضرت انسؓسے روایت ہے،رسول اللہﷺنے چار عمرے کیے اور یہ تما م ذی قعدہ میں کیے، سوائے اس عمرے کے جو آپﷺ نے حج کے ساتھ کیا تھا۔ آپ نےایک عمرہ صلحِ حدیبیہ کے موقع پر ذی قعدہ میں کیا، دوسرا عمرہ آنے والے سال ذی قعدہ میں کیا، تیسرا عمرہ جعرّانہ سے کیا جہاں آپﷺ نے غزوۂ حنین کا مالِ غنیمت ذی قعدہ میں تقسیم کیا تھا، اور چوتھا عمرہ آپ ﷺ نے اپنے حج کے ساتھ ادا کیا۔[مسلم]اسے ’مسلم‘ نے روایت کیا ہے۔ اسی کے بعد حضرت قتادہؓکی ایک روایت درجِ ذیل الفاظ میں لائے ہیں: میں نے حضرت انسؓسے پوچھا کہ رسول اللہﷺ نے کتنے حج کیے؟ تو حضرت انسؓنے فرمایا کہ ایک حج اور چار عمرے۔[مسلم]

رجب میں نبی ﷺ کا عمرہ

حضرت عروہ بن زبیرؓفرماتے ہیں:میں اور حضرت ابن عمرؓدونوں حضرت عائشہ ؓکے حجرے کی طرف ٹیک لگائے ہوئے اس طرح بیٹھے تھے کہ ہم حضرت عائشہ ؓکے مسواک کرنے کی آواز سن رہے تھے،اتنے میں مَیں نے کہا: اے ابو عبدالرحمن! کیا نبیﷺ نے رجب میں عمرہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں۔ مَیں نے حضرت عائشہؓسے عرض کیا: اے امّی! کیا آپ نہیں سن رہیں کہ ابوعبدالرحمنؓکیا کہہ رہے ہیں؟ حضرت عائشہؓنے فرمایا: کیا کہہ رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا: وہ کہتے ہیں کہ حضرت نبی کریمﷺ نے رجب میں عمرہ کیا ہے۔ حضرت عائشہؓنے فرمایا: اللہ ابوعبدالرحمنؓکی مغفرت فرمائے، میری عمر کی قسم! آپﷺ نے رجب میں عمرہ نہیں کیا اور آپ نے جو عمرہ بھی کیا تو حضرت ابن عمرؓآپ کے ساتھ تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓیہ سب سن رہے تھے،لیکن انھوں نے نہ کہا اور نہ ہاں،وہ خاموش رہے۔[مسلم]

حضرت مجاہدؓکی روایت میں ہے؛ وہ فرماتے ہیں کہ میں اور حضرت عروہ بن زبیرؓمسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ حضرت ابن عمرؓحضرت عائشہؓ کے حجرۂ مبارکہ سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے اور لوگ مسجد میں چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ہم نے حضرت ابن عمر سے ان لوگوں کی نماز کے بارے میں پوچھاتو انھوں نے فرمایا: یہ بدعت ہے۔ پھر حضرت عروہ نے حضرت ابن عمرسے پوچھا کہ رسول اللہﷺ نے کتنے عمرے کیے ہیں؟ انھوں نے فرمایا:چار عمرے کیے اور ان میں سے ایک عمرہ آپﷺ نے رجب میں کیا۔ہم نےنا مناسب سمجھا کہ ہم ان کو جھٹلائیں اور ان کی تردید کریں۔ پھر ہم نے حضرت عائشہؓکے حجرےمیں مسواک کرنے کی آواز سنی تو حضرت عروہؓکہنے لگے: اے ام المؤمنین! کیا آپ سن رہی ہیں کہ ابوعبدالرحمن کیا کہہ رہے ہیں؟ حضرت عائشہؓنے فرمایا: وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ عروہ نے کہا: وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے چار عمرے کیے اور ان میں سے ایک عمرہ رجب میں کیا ہے۔ حضرت عائشہؓنے فرمایا اللہ ابوعبدالرحمنؓپر رحم فرمائے! رسول اللہﷺ نے کوئی عمرہ نہیں کیا سوائے اس کے کہ وہ ان کے ساتھ تھے، اور آپﷺ نے رجب میں کوئی عمرہ نہیں فرمایا۔[بخاری]

علما کا موقف

امام نوویؒ فرماتے ہیں: جہاں تک حضرت ابن عمرؓکا قول ہے کہ ایک عمرہ ماہِ رجب میں کیا، جس پر حضرت عائشہؓ نے نکیر فرمائی اور اس پر حضرت ابن عمرؓخاموش رہے، تو علما کا کہنا ہے کہ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان پر یہ امر مشتبہ ہو گیا، یا وہ بھول گئے، یا انھیں شک ہو گیا اور وہ اسی لیے حضرت عائشہؓ کے انکار پر خاموش رہے۔[المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج] علامہ قاضیؒ فرماتے ہیں:حضرت ابن عمرؓکا سکوت حضرت عائشہؓ کے قول کو ثابت کرنے اور ان کی روایت کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔[إکمال المعلم بفوائد المسلم]علامہ ابن رجب حنبلیؒ فرماتے ہیں:حضرت عائشہؓ نے اس سلسلے میں حضرت ابن عمرؓ پر نکیر کی اور حضرت ابن عمرؓسن رہے تھے، لیکن خاموش رہے، اور رجب کے مہینے میں عمرہ کرنے کو حضرت عمر بن خطابؓوغیرہ بھی مستحب سمجھتے تھے اور حضرت عائشہؓ و حضرت ابن عمرؓ اس مہینے میں عمرہ کرتے تھے۔ علامہ ابن سیرینؒ نے اسلاف کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ لوگ اس مہینے میں عمرہ کرتے تھے۔[لطائف المعارف](قولہ: إلا وہو معہ تعنی ابن عمر) أی حاضر معہ، وقالت ذلک مبالغۃ فی نسبتہ إلی الإنسان (وما اعتمر فی شہر رجب قط)۔[تحفۃ الأحوذی] اور مذکورہ بالا روایت میں جو صلاۃ الضحیٰ کو بدعت کہا گیا توحضرت ابن عمرؓکے اس قول کو علامہ قاضیؒ وغیرہ نے اس بات پر محمول کیا ہے کہ صلاۃ الضحیٰ کو مسجد میں پڑھ کر ظاہر کرنا اور اس کے لیے جمع ہونا بدعت ہے، نہ کہ صلاۃ الضحیٰ۔کما فی فتح الملھم:(فقال: بدعۃ) ہذا قد حملہ القاضی و غیرہ، علی أن مراد أن إظھارھا فی المسجد والإجتماع لھا ھو البدعۃ، لا أن أصل صلاۃ الضحی بدعۃ۔[فتح الملہم]

خلاصۂ بحث

حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا ارشاد ہے کہ علامہ شامیؒ نے بعض اہلِ مکہ کی عادت رجب میں عمرے کے اہتمام کے ذکر کرنے کے ساتھ یہ بھی نقل کیا ہے کہ یہ امر حضورﷺ کے نہ قول سے ثابت ہے اور نہ فعل سے، البتہ اس قدر مروی ہے کہ عبد اللہ بن زبیرؓ بِناے کعبہ کی تجدید سے ستائیس رجب کے ذرا قبل جب فارغ ہوئے تھے تو انھوں نے بہ طور شکریے کے کچھ جانور بھی ذبح کیے اور اہلِ مکہ کو عمرہ کرنے کے لیے فرمایااور صحابہ کرامؓکا فعل بھی حجت ہے۔احقر (حضرت تھانویؒ) عارض ہے کہ رجب میں حضورﷺ کے عمرہ فرمانے کی نفی ’صحیح مسلم‘ کی حدیث میں وارد ہے اور حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کے فعل کا اتباع تین امر پر موقوف ہے:(۱)سند اس قصے کی صحیح ہو، تو وہ غیر معلوم ہے(۲) عقائدِعوام میں غلو نہ ہوجائے اور ہمارے وقت میں غلو شاہد ہے(۳)مقصود ابن زبیرؓکا اس پر استدامت ہو اور اس کا دعویٰ محض بلا دلیل ہے، وہ خاص اسی وقت کے متعلق تھا کہ ایک تازہ نعمت ظاہر ہوئی تھی، اس پر دوام ایک گو نا عید منانا ہے، جو غیر مشروع ہے۔[ماخوذ از زوال السنۃ] اگرچہ صحیح روایت سے رجب میں آپﷺ کا عمرہ نہ کرنا ثابت ہے، تاہم رجب میں عمرہ کرنا حضراتِ صحابۂ کرامؓسے ثابت ہے، چوں کہ یہ شہرِ حرام ہے اور وسطِ سال میں ہے۔حضرت ابن عمرؓہر سال رجب میں عمرہ کرتے تھے، حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمانؓرجب میں عمرہ فرماتے تھے، حضرت عائشہؓ نے بھی مدینہ منورہ سے رجب میں عمرہ کیا تھا۔ [شمائلِ کبریٰ] اس لیے رجب کے مہینے میں عمرہ کرنے کو مستحب قرار دینے میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا۔واللہ تعالیٰ اعلم

اسلاف کا معمول

اس بابت روایات کو تلاش کریں تو بشمول حضرت ابن زبیرؓمتعدد صحابہ کرامؓسے رجب میں عمرہ کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ (۱)حضرت نافعؒ سے مروی ہے کہ حضرت ابن عمرؓنے جنگ والے سال شوال اور رجب میں عمرہ ادا فرمایا۔ عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ اعْتَمَرَ عام الْقِتَالَ فِی شَوَّالٍ وَرَجَبٍ۔[مصنف ابن ابی شیبہ](۲)حضرت سعید بن المسیبؒسے مروی ہے کہ حضرت عائشہ نے ذی الحجہ کے آخر میں عمرہ ادا فرمایا، اور مدینہ سے رجب میں عمرہ ادا کیا اور ذوالحلیفہ سے عمرہ کا احرام باندھا۔ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : کَانَتْ عَائِشَۃُ تَعْتَمِرُ فِی آخِرِ ذِی الْحِجَّۃِ ، وَتَعْتَمِرُ مِنَ الْمَدِینَۃِ فِی رَجَبٍ ، تُہِلُّ مِنْ ذِی الْحُلَیْفَۃِ۔[مصنف ابن ابی شیبہ] (۳)حضرت یحییٰ کے والد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرؓاور حضرت عثمانؓکے ساتھ ماہِ رجب میں عمرہ کیا۔ عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : اعْتَمَرْتُ مَعَ عُمَرَ وَعُثْمَانَ فِی رَجَبٍ۔[مصنف ابن ابی شیبہ](۴)ایک روایت میں حضرت یحییٰ بن عبد الرحمن کے والد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمانؓکے ساتھ ماہِ رجب میں عمرہ کیا۔ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ یَحْیَی بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ یُحَدِّثُ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّہُ اعْتَمَرَ مَعَ عُثْمَانَ فِی رَجَبٍ۔[مصنف ابن ابی شیبہ](۵)حضرت اسود نے رجب میں عمرہ ادا کیا اور پھر واپس لوٹ آئے۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَۃَ ، قَالَ : کَانَ الأَسْوَدُ یَعْتَمِرُ فِی رَجَبٍ ثُمَّ یَرْجِعُ۔[مصنف ابن ابی شیبہ] (۶)حضرت قاسم بھی رجب میں عمرہ کرتے تھے۔ عَنْ أَفْلَحَ ، قَالَ: کَانَ الْقَاسِمُ یَعْتَمِرُ فِی رَجَبٍ۔[مصنف ابن ابی شیبہ]

رجب میں عمرہ کیوں؟

علامہ طبریؒ نے حضرت عبد اللہ عمرؓ کے حوالے سے ذکر کیا ہے:وہ ہر سال رجب میں عمرے کا سفر کرتے تھے، جس میں وہ حضرت عمر و عثمان رضی اللہ عنہما کا اتباع کرتے تھے، اس لیے کہ حضرت عمر و عثمان رضی اللہ عنہما رجب کے مہینے میں عمرہ ادا فرماتے تھے اور حضراتِ صحابۂ کرامؓاس کے ماہِ حرام اور درمیانی مہینہ ہونے کے باعث قابلِ احترام سمجھتے تھے کہ یہ مہینہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کی تعظیم کے لیے عمرہ کیا جائے۔(علامہ طبریؒ فرماتے ہیںکہ) ابو ذر نے اسے اپنی مناسک میں بیان کیا ہےاور حضرت قاسم، حضرت عائشہؓ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ ماہِ رجب میں مدینہ سے عمرہ کے لیے جاتی تھیں اور ذو الحلیفہ پہنچ کر احرام باندھتی تھیں۔اسے ابن الحاج اور ابن الصلاح نے اپنی مناسک میں ذکر کیا ہے،اور رجب کے مہینے میں عمرے کی روایت سلف کی ایک جماعت سے مروی ہے۔أنہ کان یعتمر فی رجب کل عام، و یتبع فی ذلک فعل عمر و عثمان، وکلاھما کان یعتمر فی رجب، و یرونہ شہراً حراماً من أوسط الشھور، وأحق أن یعتمر فیہ لتعظیم حرمات اللہ۔ قال: أخرجہ أبو ذر فی منسکہ۔۔۔ وعن القاسم عن عائشۃ رضی اللہ عنھا: وأنھا تعتمر من المدینۃ فی رجب و تھل ،م ذی الحلیفۃ۔ ذکرہ ابن الحاج وابن الصلاح فی منسکیھا۔ قال ابن الصلاح: وروی الإعتمار فی رجب عن جماعۃ من السلف۔ اھ [معارف السنن]

[کالم نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے محقق اور ڈیرکٹر ہیں]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here