رسول اللہ ﷺ کے اہلِ بیت اور صحابۂ کرام سب کا احترام ضروری

مولانا ندیم احمد انصاری

اللہ تعالیٰ نے اس آخری امت تک اپنا دین پہنچانے کے لیے اپنے حبیب حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا اور آپ پر کتابِ ہدایت یعنی قرآن مجید نازل فرماکر آپ کے ساتھیوں کے واسطے سے دین و شریعت کے نام سے ایسی شاہ راہ کو قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے عام کر دیا، جس پر چلنے والے سے وہ راضی ہوتا ہے۔ اسی قدسی جماعت کو عرف میں صحابۂ کرام کی جماعت کہا جاتا ہے۔ اسلاف کے اس طبقے پر اگر آنچ آئے تو گویا دین و شریعت پر آنچ آتی ہے، اس لیے ناموسِ صحابہ کی حفاظت واجب اور ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس مقدس جماعت سے کامل رضامندی کا اعلان فرمایا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر اس بات سے روکا ہے کہ ان میں سے کسی سے سرزد ہوئی ادنیٰ لغزش کا ذکر سے بھی غیر مناسب طریقے سے کیا جائے۔

جمہور کا موقف

اس بابت جمہور امت یعنی اہل السنۃ والجماعۃ کے موقف کا تذکرہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام علامہ ابنِ تیمیہؒنے تحریر فرمایا ہے کہ اہل سنت والجماعت ان روافض کے طریقے سے براء ت کرتے ہیں، جو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے بغض رکھتے ہیں اور اُنھیں سب وشتم کرتے ہیں۔ اسی طرح ان ناصبوں کے طریقوں سے بھی براء ت کرتے ہیں جو کہ اہلِ بیت اطہار کو اپنی باتوں سے نہ کہ عمل سے ایذا وتکلیف پہنچاتے ہیں اور صحابہ کرامؓکے درمیان جو اختلافات واقع ہوئے ہیں، ان کے بارے میں اہل سنت والجماعت سکوت اختیار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صحابہ کرامؓکے بارے میں ان کی شان کے خلاف جو باتیں منقول ہیں ان میں سے بعض تو بالکل جھوٹ ہیں اور بعض ایسی ہیں کہ ان میں کمی زیادتی کردی گئی ہے اور ان کا صحیح مفہوم بدل ڈالا گیا ہے اور اس قسم کی جو روایتیں بالکل صحیح بھی ہوں، ان میں بھی صحابہ کرامؓمعذور ہیں۔ ان میں سے بعض حضرات نے تو اجتہاد سے کام لے کر حق وصواب تک رسائی حاصل کرلی اور بعض سے اجتہاد میں خطا ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی اہل سنت والجماعت کا یہ اعتقاد بھی نہیں ہے کہ صحابہ کرامؓکا ہر فرد تمام کبائر وصغائر سے معصوم ہے، بلکہ ان سے فی الجملہ گناہوں کا صادر ہونا تو ممکن ہے، لیکن ان کے فضائل وسوابق اتنے زیادہ ہیں کہ اگر کوئی گناہ ان سے صادر بھی ہو تو یہ فضائل ان کی مغفرت کے موجب ہیں۔ حتی کہ ان کی مغفرت کے مواقع اتنے ہیں کہ ان کے بعد کسی کو حاصل نہیں ہوسکتے، اس لیے کہ ان کی نیکیوں نے ان کے گناہوں کو محو کرڈالا ہے۔ ویتبروؤن من طریقۃ الروافض الذین یبغضون الصحابۃ، ویسبونہم، وطریقۃ النواصب الذین یؤذون اہل البیت بقول، او عمل، ویمسکون عما شجر بین الصحابۃ ویقولون: ان ہذہ الاثار المرویۃ فی مساویہم منہا ما ہو کذب، ومنہا ما قد زید فیہ ونقص، وغیر عن وجہہ، والصحیح منہا ہم فیہ معذورون: اما مجتہدون مصیبون، واما مجتہدون مخطؤن۔ وہم مع ذلک لا یعتقدون ان کل واحد من الصحابۃ معصوم عن کبائر الاثم وصغائرہ، بل یجوز علیہم الذنوب فی الجملۃ، ولہم من السوابق والفضائل ما یوجب مغفرۃ ما یصدر منہم ان صدر، حتی انہم یغفر لہم من السیئات ما لا یغفر من بعدہم، لان لہم من الحسنات التی تمحو السیئات ما لیس لمن بعدہم۔(شرح العقیدۃ الواسطیۃ من کلام ابن تیمیۃ)

صحابۂ کرام سے محبت

علما کی تصریح کے مطابق صحابیؓاسے کہتے ہیں، جس نے ایمان کی حالت میں حضرت نبی کریم ﷺ کی صحبت کا شرف حاصل کیا ہو اور اسی حالت میں وہ دنیا سے رخصت بھی ہوا ہو۔ صحابہ، صحابی کی جمع ہے۔(انظر تدریب الرا وی)اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اہلِ ایمان کا شیوہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:{وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْ مِنْ بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآاِنَّکَ رَئُوْفٌ رَّحِیْمٌ}اور جو لوگ صحابہ کرامؓکے بعد آئے، وہ یوں دعا کرتے ہیں؛ اے ہمارے رب! ہمارے تمام بھائیوں کو بخش دے، جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دلوں میں اہلِ ایمان کے لیے کوئی بغض نہ رکھ۔ اے ہمارے رب! بے شک آپ بہت شفقت فرمانے والے اور رحم فرمانے والے ہیں۔ (الحشر)حضرت نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہؓکو برا مت کہو، اگر تم میں سے کوئی شخص اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے تو میرے صحابہؓکے خرچ کیے ہوئے ایک مُد بلکہ اس کے نصف کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتا۔ (بخاری)ایک حدیث میں فرمایا: میرے صحابہؓکے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو! میرے صحابہؓکے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو! میرے بعد انھیں’نشانہ‘مت بنالینا، کیوں کہ جو شخص ان سے محبت کرے گا، وہ میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا، جو ان سے بغض رکھے گا، وہ در حقیقت مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا، جس نے انھیں تکلیف پہنچائی، اس نے مجھے تکلیف پہنچائی، جس نے مجھے تکلیف پہنچائی، اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی تو اللہ تعالیٰ اسے جلد ہی اپنی گرفت میں لے لے گا۔ (ترمذی)اس لیے کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اصحابِ رسول میں سے کسی کی شان میں ادنیٰ گستاخی کا مرتکب ہو۔

اہلِ بیت کون کون ہیں ؟

اہلِ بیت کا معاملہ اس کے سوا ہے۔ اور رسول اللہﷺ کی ازواجِ مطہراتؓبھی اہلِ بیت میں داخل ہیں، جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا:{اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا} (اے نبی کی گھر والیوں! )اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ وہ تم سے نجاست کو دور کر دے اور تمھیں خوب پاک کر دے۔ (الاحزاب)اس آیتِ مبارکہ میں ازواجِ مطہراتؓکو قطعی طور پر اہلِ بیت میں شمار کیا گیانیز اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مزید ارشاد فرمایا: مومنین کے لیے نبی کی ذات، اُن کے اپنے نفس پر مقدَّم ہے اور نبی کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں۔ (الاحزاب)جس وقت صدیقہ بنتِ صدیق، ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی گئی، اُس موقع پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اُن کی براء ت کا اعلان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:{اِنَّ الَّذِیْنَ جَآئُوْ بِالْاِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنْکُمْ، لَا تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّکُمْ، بَلْ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ، لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ، وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہٗ مِنْھُمْ لَہٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ لَوْلَآ اِذ ْسَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِھِمْ خَیْرًا، وَّقَالُوْا ھٰذَا اِفْکٌ مُّبِیْنٌ}جو لوگ یہ بہتان گھڑ لائے ہیں، وہ تم ہی میں کا ایک گروہ ہے۔ اس واقعے کو اپنے حق میں شر نہ سمجھو بلکہ اس میں تمھارے لیے خیر ہی ہے۔ ان میں سے جس نے اس شر میں جتنا حصہ لیا، اُس پر اتنا ہی وبال ہے اوران میں جس نے اس گناہ میں سب سے زیادہ حصہ لیا، اُس کے لیے عذابِ عظیم ہے۔ جب تم نے یہ بات سنی تھی تو مومن مَردوں اور عورتوں نے کیوں اپنے دلوں میں نیک گمان نہ کیا اور کیوں نہ کہا کہ یہ تو صریح بہتان ہے۔ (النور)نیز حضرت نبی کریمﷺ ایک دن تشریف فرما ہوئے، آپ پر سیاہ بالوں کی بنی ہوئی منقش چادر تھی۔ اتنے میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما آگئے۔ آپﷺ نے اُن کو چادر میں لے لیا۔ پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے تو وہ بھی اس چادر میں داخل ہو گئے۔ پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تشریف لے آئیں، تو آپﷺ نے اُنھیں بھی چادرِ مبارک میں داخل فرما لیا۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ پہنچ گئے، تو آپﷺ نے اُنھیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اے اہلِ بیت! اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ تم سے ہر بُری چیز کو دور فرما کر تمھیں خوب پاک صاف کر دیں۔(مسلم) اہلِ بیت و آلِ رسولﷺ کا مسئلہ امت میں کبھی زیرِ اختلاف نہیں رہا، باجماع و اتفاق اُن کی محبت و عظمت لازم ہے۔ اختلافات وہاں پیدا ہوتے ہیں، جہاں دوسروں کی عظمتوں پر حملہ کیا جاتا ہے، ورنہ آلِ رسولﷺ ہونے کی حیثیت سے عام سادات؛ خواہ اُن کا سلسلۂ نسب کتنا ہی بعید ہو، اُن کی محبت و عظمت عین سعادت و اجر و ثواب ہے۔ (معارف القرآن، بتغیر)اس حدیث کو بعض لوگوں نے مذکورہ آیات کے خلاف سمجھا جو کہ صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ آیت میں تو قطعی طور پر خطاب ازواجِ مطہراتؓسے ہے، لہٰذا وہ تو قطعی طور پر اہلِ بیت میں داخل ہیں اور اس حدیث میں ان چار حضرات کے ذکر کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ باقی رشتے دار اہل ِبیت سے خارج ہیں، بلکہ بتانا یہ مقصود ہے کہ یہ چار حضرات آپﷺ کے گہرے رشتے دار ہیں۔ اسی طرح مسلم شریف میں ہے کہ جب یہ آیت: {فقل تعالوا ندع ابناء نا و أبناء کم(آل عمران)} نازل ہوئی تو رسول اللہﷺ نے حضرت علی، فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور فرمایا؛ یہ میرے گھر والے ہیں۔(مسلم) ایک حدیث میں ہے کہ ایک دن رسول اللہﷺ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان غدیرِ خم کے مقام پر خطاب فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد کچھ وعظ و نصحیت کی، پھر فرمایا: ا ے لوگو! میں ایک انسان ہوں، بہت ممکن ہے کہ میرے رب کی طرف سے بُلانے والا میرے پاس آجائے اور میں لبیک کہہ دوں۔ میں تم میں دو اہم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جن میں سے ایک تو اللہ کی کتاب ہے، جس میں ہدایت و نور ہے، پس تم اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا۔ پھر آپﷺ نے لوگوں کو اللہ کی کتاب کی طرف رغبت دلائی،پھر آپﷺ نے فرمایا:دوسری چیز میرے اہلِ بیت ہیں۔ میں تمھیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں! میں تمھیں اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں! میں تمھیں اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں! حصین نے ان سے پوچھا: حضرت زید! نبی اکرمﷺ کے اہلِ بیت کون ہیں؟ کیا آپﷺ کی بیویاں اہلِ بیت نہیں؟ وہ کہنے لگے؛ آپﷺ کی بیویاں تو اہلِ بیت ہیں ہی، مگر وہ بھی اہلِ بیت میں داخل ہیں، جن پر صدقہ حرام ہے۔ حصین نے کہا: وہ کون ہیں؟ انھوں نے جواب دیا؛ آلِ علی، آلِ عقیل، آلِ جعفر اور آلِ عباس۔ حصین نے پوچھا: ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں۔ (مسلم)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here