زکوۃ کی فرضیت اور فضیلت

زکوٰۃ کی فرضیت اور فضیلت
افادات: مفتی احمد خانپوری مدظلہ
زکوٰۃ فرائضِ اسلامیہ میں سے ایک فریضہ ہے، قرآنِ پاک میں جگہ جگہ نماز کے ساتھ اس کوبھی اداکرنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیاگیا ہے،جہاں اہلِ ایمان کے اوصاف بیان کئے گئے ہیںوہاں اکثر﴿وَأَقِیْمُوْاالصَّلاَ ۃَ وَآتُوْاالزَّکَاۃَ . یُقِیْمُوْنَ الصّلوٰۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکَاۃَ﴾ساتھ ساتھ آیا ہے، نماز قائم کرو اورزکوٰۃ اداکرو،وہ لوگ نماز کوقائم کرتے ہیں اورزکوٰۃ کو ادا کرتے ہیں۔اگرچہ اس کی تفصیلات قرآنِ پاک میں نہیں آئیں ،بلکہ نبیٔ کریم ﷺنے بتلائی ہیں،لیکن نفسِ زکوٰۃ کی ادائیگی کاحکم قرآنِ پاک میں بے شمارمقامات پرآیا ہے، اوریہ اسلام کے فرائض میں سے ایک بنیادی فریضہ ہے۔
زکوٰۃعربی زبان کالفظ ہے جس کاترجمہ بڑھنااورپاک ہوناہوتا ہے۔ چوںکہ زکوٰۃکی نیت سےاپنے مال کی مقدارمیں سے ڈھائی فی صدنکالنادوسرے مال میں زیادتی اوربڑھوتری کااور بقیہ مال کی پاکیزگی کاذریعہ بھی بنتا ہے، اس لئے اس کو زکوٰۃ کا نام دیاگیاہے۔
زکوٰۃ کے بنیادی مسائل
زکوٰۃ کے سلسلہ میں کچھ بنیادی مسائل ہیں:ان میں سےایک یہ ہےکہ ہر آدمی پرزکوٰۃ فرض نہیںہے۔ نماز اورروزہ کا معاملہ توایسا ہےکہ جوبھی بالغ ہو،چاہے مردہویا عورت، امیر ہویافقیر ،مسافر ہویا مقیم ؛ اس پرنماز اورروزہ فرض ہے، لیکن زکوٰۃ کے سلسلہ میںشریعت کی طرف سے ایک مقدار متعین کی گئی ہے جس کونصاب کہتے ہیں کہ وہ مخصوص آدمی جومخصوص مقدار کا مخصوص زمانہ تک مالک بنے؛تب ہی اس پرزکوٰۃ فرض ہوگی، ورنہ نہیں۔پھرنصاب میںبھی شریعت نےبتلایاہےکون سےمال میںزکوٰۃ فرض ہوگی، ہرطرح کےمال میں زکوٰۃ فرض نہیں، پھر کب فرض ہوگی وہ بھی بتلایاہے۔ چناںچہ غنی یعنی مالدار پرزکوٰۃ فرض ہوتی ہےاوراس پربھی زکوٰۃ فرض ہونے کاایک نصاب بتلایا گیا ہےکہ اگرچاندی ہوتواُس زمانہ کے حساب سے دوسو درہم ہوں۔ اوردوسو درہم کی مقدار ہمارے پُرانے وزن کے اعتبار سے ساڑھے باون تولہ ہوتی ہے، اور نئے وزن کے اعتبار سے۳۵/ ۶۱۲ گرام ہوتی ہے۔ اوراگرسوناہوتو قدیم زمانہ کے حساب سے ۲۰ ؍مثقال ہوتاہے،اورایک مثقال ساڑھے چار ماشہ کاہواکرتاتھا،لہٰذا ۲۰؍ مثقال ہمارے پُرانے وزن کے حساب سے ساڑھے سات تولہ ہوتاہے۔
تولہ کےسلسلہ میںایک ضروری وضاحت
اوردیکھو ! تولہ کالفظ آج کل بھی بولاجاتا ہےاور آج کل دس گرام کوتولہ کہتے ہیں، لیکن زکوٰۃ کے نصاب میںیہ وزن مراد نہیں ہے۔دراصل تولہ کالفظ لوگوں کی زبان پرچڑھاہوا تھااور ایک پُرانی اصطلاح چلی آرہی تھی جو نیا وزن آنے کے بعد بھی باقی رہی،ورنہ حقیقت تویہ ہے کہ گرام ایک الگ وزن ہےجواعشاریہ وزن سے تعلق رکھتا ہے،اورتولہ ایک الگ وزن ہےجس کاگرام کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں ہے ،لیکن لوگ پُرانے وزن کے عادی ہونے کی وجہ سے تولہ بولتے ہیں۔اب نئی نسل جو آئی اس کوتولہ سے کوئی لینادینا نہیں ہے، پُرانے لوگ تولہ جانتے تھے،اورآج کل دس گرام کوتولہ بولتے ہیں ،ورنہ حقیقت میں دس گرام تولہ نہیں ہے، تولہ کااصلی وزن پُرانے حساب سے بارہ ماشہ ہوتاہے، اورگرام کے اعتبار سے تقریباً ساڑھے گیارہ گرام ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ ہواکہ ساڑھے سات تولہ بول کراگر آج کل کے حساب سےوزن دیکھیںگے توپچھتر(۷۵) گرام ہوجائے گا، جو صحیح نہیںہے۔ آج کل کے گرام کے وزن کے اعتبار سے۴۹۰/ ۸۷ گرام وزن ہوتا ہے۔ خیر!یہ توچاندی اورسونے کانصاب ہوا۔
اس کے علاوہ جانوروں میں بھی زکوٰۃ کانصاب ہے۔چوںکہ اُس زمانہ میں ان علاقوںمیںجانوروں کوپالنے کارواج تھا تو اس کے لئے ایک مستقل نصاب شریعت نے بتلایاہے، اب ہمارےیہاں وہ چیزرائج نہیںہے،اورجانوروں کی زکوۃ کی تفصیل میںپہلی چیزتویہ ہے کہ وہ پالے گئے ہوں، اورساتھ ہی ساتھ سال کااکثر حصہ وہ عام زمین میں مفت کاچرپھر کر کھاتے ہوں، تواس پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے۔ اوراگر اس کو مالک خود چارہ لاکر کھلاتا ہے تواس صورت میں اس پرزکوٰۃ نہیں ہے، چاہے وہ پالے ہوئےجانورکتنی ہی مقدار میں کیوں نہ ہوں۔ ہاں!اگرتجارت کاسامان ہے تو اس میں زکوٰۃآئے گی،جس کو مالِ نامی یعنی بڑھنے والا سامان کہاگیا ہے۔اب ہمارے ماحول میں کن کن چیزوں میں زکوٰۃ واجب ہے،اس کو اگر آپ کومختصر طورپر سمجھنا ہو تویوں سمجھیے کہ (۱)سونا(۲) چاندی (۳)نقد روپیہ(۴) اور تجارت کاسامان؛ یہ کل چار چیزیں ہوجائیں گی۔
[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here